سوریندرا کمار ویاس بھوپال شہر کی وارڈ شیوا جی میں رہتے ہیں‘ یہ ٹھیکیدار ہیں‘ ان کا بیٹا آشوویاس پڑھائی میں اچھا نہیں تھا‘ یہ کوشش کرتا تھا لیکن یہ زیادہ نمبر حاصل نہیں کر پاتا تھا‘ آشوویاس کا مئی 2018ء میں میٹرک کا نتیجہ نکلا اور یہ بورڈ کے امتحان میں بری طرح فیل ہو گیا‘
یہ اداس شکل بنا کر گھر آیا تو یہ حیران رہ گیا‘ آشوویاس کے والد سوریندرا کمار ویاس نے بیٹے کی ناکامی کی خوشی میں گھر میں جشن کا اہتمام کر رکھا تھا‘ جشن میں خاندان کے لوگ بھی مدعو تھے‘ دوست احباب بھی‘ کاروباری رفیق بھی اور محلے کے لوگ بھی‘ سوریندرا کمار نے کھانوں کا بندوبست
بھی کر رکھا تھا‘ آتش بازی کا بھی اور موسیقی کا بھی‘ آشو ویاس جوں ہی گھر میں داخل ہوا‘ لوگوں نے بھرپور تالیوں سے اس کا استقبال کیا‘ اس کے گلے میں ہار ڈالے اور اس کے ساتھ ناچنا شروع کر دیا‘ وہ لوگ جوں جوں ناچتے جاتے تھے چھت پر آتش بازی ہوتی جاتی تھی‘
تاریخی اعتبار سے دنیا کا ایک اہم ترین شہر جب فتح ہونے جارہا تھا تو فاتح فوج کے سپہ سالار نے اپنے حاکم سے کہا کہ آپ آئیں اور شہر کا چارج سنبھالیں اور یہی شرط اس شہر کے حاکم نے بھی رکھی تھی کہ حاکم آئے گا تو اسے ہی شہر کی کنجیاں دی جائیں
گی حاکم نے آنے کی اطلاع کردی اور لوگ اس کی آمد کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔
جس دن اس حاکم نے شہر میں داخل ہونا تھا، اس دن صبح سویرے لوگ اس کے استقبال کیلئے شہر کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ دن چڑھے دور گرد کا غبار اٹھا تو لوگوں کو لگا کہ حاکم کی سواری آگئی۔ جب غبار
چھٹی تو دیکھا ایک اونٹنی کی مہار تھامے ایک شخص پیدل چلا آرہا ہے جبکہ دوسرا شخص اس اونٹنی پر سوار ہے۔ پیدل چلنے والے کے جسم پر جو پوشاک تھی اس پر چودہ پیوند لگے تھے، پاؤں کیچڑ میں لت پت ہونے کی وجہ سے جوتے ہاتھ میں پکڑ رکھے تھے اور دوسرے ہاتھ سے اونٹنی کو
حضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ کی ملاقات کے بعد اللہ نے اُنہیں اولادِ کثیر سے نوازاحضرت حوّاؑ جب اُمید سے ہوتیں، تو ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے۔جب دوبارہ اُمید سے ہوتیں، تو پھر ایک لڑکا اور لڑکی ہوتے۔پہلے والے لڑکے کی شادی دوسری مرتبہ والی لڑکی سے اور دوسرے والے لڑکے
کی پہلی والی لڑکی سے شادی کر دی جاتی۔ چناں چہ پہلی مرتبہ قابیل اور اُن کی بہن اقلیمیا پیدا ہوئی۔ دوسری مرتبہ ہابیل اور اُن کی بہن یہودا پیدا ہوئی۔ حضرت آدمؑ نے اقلیمیا کی شادی ہابیل سے اور یہودا کی شادی قابیل سے کرنا چاہی، مگر قابیل نے یہودا سے شادی سے انکار کر دیا۔وہ اقلیمیا
سے شادی کرنا چاہتا تھا، کیوں کہ وہ یہودا سے زیادہ خُوب صورت تھی۔حضرت آدمؑ نے ہرچند سمجھایا، لیکن وہ بہ ضد رہا۔آخر حضرت آدمؑ نے دونوں بیٹوں سے فرمایا کہ تم دونوں اپنی قربانی کوہِ صفا پر لے جائو، اللہ کے حکم سے آسمان سے آگ آئے گی، جو حق کا فیصلہ کر دے گی‘‘(روح المعانی)۔
ہمارا ایک دوست تھا ہمارا بچپن ایک ساتھ گزرا تھا ہم شامیں کیا راتیں بھی ایک ساتھ گزارتے تھے۔پہلے نہ سوشل میڈیا تھا نہ فیس بک نہ وٹس ایپ، تو ہم سارے اکھٹے بیٹھ کر رات گئے تک ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے تھے۔ایک دوست کی شادی ہونے کے بعد ہم ایک دوسرے سے بہت زیادہ
دور ہوگئے۔تو وہ دوست بھائیوں کے ساتھ ہمارے شہر کو بھی چھوڑ کر چلا گیا مگر اس کے سسرال کا گھر اسی شہر میں تھا۔تو وہ سسرال کے گھر ہمیشہ اتا جاتا رہتا تھا تو ہم پھر ایک دوسرے سے مل کر بہت زیادہ خوش ہوتے تھے۔
ایک دن وہ سسرال کے گھر آیا تو کہنے لگے یار آج دال چاول
کھائے ہیں پر مزہ نہیں آیا۔ میں نے انکو چھیڑتے ہوے کہا کہ بھائی یہ آپ ہر دوسرے دن باجی کو لے کر میکے آ جاتے ہیں کھانا کھانے، ، آپکو اب دال چاول ہی ملا کرینگے۔ اس نے سگریٹ کا لمبا کش کھینچا اور پھر کہنے لگے یار تمہیں ایک بات بتاؤں ہماری ایک ہی بہن ہے۔ باپ کی
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی للہ عنہ نے 7 افراد لشکر فارس کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کیلئے بھیجے اور انھیں حکم دیا کہ اگر ممکن ہو سکے تو اس لشکر کے ای آدمی کو گرفتار کر کے لے آئیں...!!
یہ ساتوں آدمی ابھی نکلے ہی تھے کہ اچانک انھوں نے دشمن کے لشکر کو سامنے پایا.
جبکہ ان کا گمان یہ تھا کہ لشکر ابھی دور ہے. انھوں نے آپس میں مشورہ کر کے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا. مگر ان میں سے ایک آدمی نے امیر لشکر سعد کی جانب سے ذمہ لگائی گئی مہم کو سرانجام دئیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کر دیا اور یہ چھ افراد مسلمانوں کے لشکر کی جانب واپس لوٹ آئے.
جبکہ ہمارا یہ بطل اپنی مہم کی ادائیگی کیلئے فارسیوں کے لشکر کی جانب تنہا بڑھتا چلاگیا!! انھوں نے لشکر کے گرد ایک چکر لگایا اور اور اندر داخل ہونے کیلئے پانی کے نالوں کا انتخاب کیا اورا س میں سے گزرتا ہوا فارسی لشکر کے ہراول دستوں تک جاپہنچا جو کہ 40 ہزار لڑاکوں پر مشتمل
کسی اسلامک بینک کے ایک شریعہ ایڈوائزر ایک دفعہ گاڑی چلانے کے دوران موبائل فون پر باتیں کرتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔
پولیس والے نے پوچھا چلان کروں یا 500 چائے پانی کا خرچہ دیں گے؟
مفتی صاحب نے پولیس والے کو بولا کہ جرمانے کی ضرورت نہیں ہے اور رشوت
لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہوتے ہیں مگر میں اسکا ایک اسلامی حل نکال سکتا ہوں.
پولیس والا حیرت سے کھڑا منہ تکتا رہا۔۔
مفتی صاحب نے اپنی گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میں تمھیں 500 میں بیچتا ہوں۔۔ بولو قبول ہے؟
پولیس والے نے مفتی کو گھور کر دیکھا اور
سوچا کہ یہ ہزاروں کی گھڑی مولوی 500 میں بیچ رہا ہے فائدہ میرا ہی ہے۔ یہ سوچتے ہی پولیس والے نے فوراً پیسے نکال کر مولوی کے ہاتھ میں دیے اور بولتا لاؤ دو گھڑی۔
مفتی صاحب مسکرا کر بولے کہ صبر کرو ابھی *اسلامی ٹرانزیکشن* مکمل نہیں ہوئی۔ اس ٹرانزیکشن میں گھڑی کے مالک