زلزلے سے پہلے گونج کیوں سنائی دیتی ہے۔۔۔؟
زمین کے اندر جب زلزلہ پیدا ہوتا ہے تو اس سے تین قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں سے دو زمین کے اندر سفر کرتی ہیں اور اپنی طاقت اور پھیلاو کے اعتبار سے تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ جبکہ ان میں سے ایک لہر جسے ماہر ارضیات پرائمری لہر یا
پی ویئو )P wave) کا نام دیتے ہیںں، وہ باقی دونوں لہروں سے زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہوئی زمین کی سطح تک پہنچتی ہے اور سطح کے ساتھ ہموار انداز میں تیزی سے سفر کرتی ہے۔ اس دوران وہ راستے میں آنے والی ہوا اور دیگر چیزوں سے ٹکرا کر تھر تھراہٹ پیدا کرتی ہے، جو عام آدمی
کو گونج کی شکل میں سنائی دیتی ہے۔ اس کے فورا بعد باقی دونوں لہریں بھی سطح تک پہنچتی ہیں اور وہ باقایدہ زمین کو حرکت دینے لگتی ہیں، جسے عام الفاظ میں زلزلہ کہا جاتا ہے۔۔۔ زلزلے کی شدت کا تعلق ان لہروں کی طاقت سے ہوتا ہے۔ جتنی گہرائی سے زلزلہ پیدا ہوگا، سطح پر
اس کے اثرات اتنے کم محسوس ہونگے کیونکہ سطح تک پہنچتے پہنچتے یہ لہریں اپنی طاقت کھو دیتی ہیں۔ اگر ذلزلہ سطح زمین سے 30 کلومیٹر سے کم پر پیدا ہو تو اسے شیلو ارتھ کویک یا کم گہرائی والا زلزلہ کہا جاتا ہے اور یہ زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
میں نے پچھلے دنوں ایک شخص کا انٹرویو سنا انٹرویو دینے والا دنیا کی کسی بڑی یونیورسٹی یا کالج تو دور کی بات شاید مڈل سکول تک بھی نہ گیا ہو گا
مگر کامیابی کا وہ راز بتا دیا کہ شاید ہی کوئی ڈگری والا کسی کو بتا پائے
وہ شخص ایک بکریاں پالنے والا چھوٹا سا فارمر ہے
اس سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور سالانہ کتنا کما لیتے ہو
اس نے کہا میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں اور جو مجھے سالانہ چھ لاکھ روپے دیتی ہیں جو ماہانہ پچاس ہزار بنتا ہے
مگر کیمرہ مین نے جب بکریوں کا ریوڑ دیکھا تو اس میں تیرہ بکریاں تھیں
اب اس نے تیرہویں بکری کے بارے میں پوچھا کہ یہ آپ نے کنتی میں شامل کیوں نہیں کی ؟
تو بکری پال کا جواب جو تھا وہ کمال کا تھا اور وہی جملہ دراصل کامیابی کا راز تھا
اس نے کہا کہ بارا بکریوں سے میں چھ لاکھ منافع حاصل کرتا ہوں اور اس تیرہویں بکری کے دو بچے
تیزی سے سیکھنے والے تیز رفتار نیورون کے مالک ہوتے ہیں جس رفتار سے کوئی بھی شخص معلومات حاصل کرتا، سمجھتا اور پروسیس کرکے اسے جمع کرنے کے بعد استعمال کرتا ہے تو اس کا انحصار دماغی اعصابی خلیات (نیورون) کی فائرنگ پر ہوتا ہے۔ یعنی دماغ سے ایک نیورون کے بعد
دوسرے نیورون کے خارج ہونے میں وقفہ جتنا کم ہوگا اسی رفتار سے دماغ میں معلومات وصول، محفوظ، پروسیس اور اسے استعمال کرنے کا عمل تیز ہوگا۔ بآلفاظ دیگر فوری اور بروقت سوچنے کے عمل میں نیورون فائر ہونے کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔
یہ اہم تحقیق یادداشت اور حافظے کے عمل
کو سمجھنے میں نہایت اہم تصور کی جارہی ہے۔ نیورون یعنی دماغی خلیات طبعی طور پر جن تاروں سے جڑے ہوتے ہیں انہیں سائناپسِس کہا جاتا ہے اور اسی کی بدولت آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ماہرین نے سمجھنے اور سیکھنے کے ایک اہم دماغی مکینزم ’اسپائک ٹائمنگ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی ایک جھلک
١: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہر ہ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھا۔ ( صحیح بخاری: ٣٥٤٩، صحیح مسلم٩٣/٢٣٣٧ و دار السلام : ٦٠٦٠)
٢: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چاند جیسا (خوبصورت اور پر نور )
تھا۔
( صحیح بخاری : ٣٥٥٢)
٣: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ ایسے چمک اٹھتا گویا کہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے ۔
( صحیح بخاری: ٣٥٥٦ ، صحیح مسلم: ٢٧٦٩،دار السلام : ٧٠١٦)
٤: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی ( خوبصورت) دھاریاں بھی چمکتی تھیں۔
( صحیح بخاری: ٣٥٥٥، صحیح مسلم: ١٤٥٩، دار السلام : ٣٦١٧)
٥: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہر ہ سورج اور چاند کی طرح (خوبصورت،ہلکا سا) گول تھا۔ ( صحیح مسلم :١٠٩/٢٣٤٤ ، دار السلام : ٦٠٨٤)
٦: آپ صلی اللہ علیہ وسلم گورے رنگ ، پر ملاحت چہرے ،
ایمزون کا جنگل دنیا کے 9 ممالک تک پھیلا ہوا ہے، جس میں سرفہرست برازیل ہے۔
اس کا کل رقبہ 55 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جبکہ پاکستان کا رقبہ 7 لاکھ 95 ہزار مربع کلومیٹر ہے.
یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے
ایمزون ایک یونانی لفظ ہے جسکا مطلب لڑاکو عورت ہے
زمین کی 20 فیصد آکسیجن صرف ایمزون کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں
دنیا کے 40 فیصد جانور ، چرند، پرند، حشرات الارض ایمزون میں پائے جاتے ہیں
یہاں 400 سے زائد جنگلی قبائل آباد ہیں، انکی آبادی کا تخمینہ 45 لاکھ کے قریب بتایا گیا ہے۔ یہ لوگ اکیسیوں صدی میں
بھی جنگلی سٹائل میں زندگی گذاررہے ہیں
اسکے کچھ علاقے اتنے گھنے ہیں کہ وہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی اور دن میں بھی رات کا سماں ہوتا ہے
یہاں ایسے زیریلے حشرات الارض بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ چند سیکنڈ میں مرجائے
ایمزون کا دریا
دیوار چین کو تعمیر کرنے میں 17 سو سال کا طویل عرصہ لگا ہے؟ بعض کتابوں میں یہ 2 ہزار سال بھی بتایا گیا ہے۔دراصل اس دیوار کی تعمیر منگول حملہ آوروں سے بچنے کے لیے کی گئی جس کا آغاز 206 قبل مسیح میں کیا گیا۔ اس کے بعد بے شمار بادشاہوں نے حکومت کی اور چلے گئے
لیکن اس دیوار کی تعمیر کا کام جاری رہا۔اس دوران دنیا وقت کو ایک نئے پیمانے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا بعد کا وقت۔ بعد از مسیح) سے ناپنے لگی، سنہ 1368 شروع ہوا اور چین میں منگ خانوادے کی حکومت کا آغاز ہوا۔لیکن دیوار چین کی تعمیر ابھی بھی جاری تھی۔
آخر اس کے لگ بھگ ڈھائی سو سال بعد اسی خانوادے کے ایک بادشاہ کے دور میں دیوار کی تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ 1644 کا سال تھا۔موجودہ دیوار کا 90 فیصد حصہ اسی خاندان کے دور میں تعمیر ہوا۔دیوار چین کی تعمیر کے دوران اینٹوں کو جوڑنے کے لیے چاول کا آٹا استعمال کیا گیا تھا۔
سوریندرا کمار ویاس بھوپال شہر کی وارڈ شیوا جی میں رہتے ہیں‘ یہ ٹھیکیدار ہیں‘ ان کا بیٹا آشوویاس پڑھائی میں اچھا نہیں تھا‘ یہ کوشش کرتا تھا لیکن یہ زیادہ نمبر حاصل نہیں کر پاتا تھا‘ آشوویاس کا مئی 2018ء میں میٹرک کا نتیجہ نکلا اور یہ بورڈ کے امتحان میں بری طرح فیل ہو گیا‘
یہ اداس شکل بنا کر گھر آیا تو یہ حیران رہ گیا‘ آشوویاس کے والد سوریندرا کمار ویاس نے بیٹے کی ناکامی کی خوشی میں گھر میں جشن کا اہتمام کر رکھا تھا‘ جشن میں خاندان کے لوگ بھی مدعو تھے‘ دوست احباب بھی‘ کاروباری رفیق بھی اور محلے کے لوگ بھی‘ سوریندرا کمار نے کھانوں کا بندوبست
بھی کر رکھا تھا‘ آتش بازی کا بھی اور موسیقی کا بھی‘ آشو ویاس جوں ہی گھر میں داخل ہوا‘ لوگوں نے بھرپور تالیوں سے اس کا استقبال کیا‘ اس کے گلے میں ہار ڈالے اور اس کے ساتھ ناچنا شروع کر دیا‘ وہ لوگ جوں جوں ناچتے جاتے تھے چھت پر آتش بازی ہوتی جاتی تھی‘