شاہراہ قراقرم
شاہراہ قراقرم آپ کو ایک بہت خوبصورت اور دنیا کا ایک عجوبہ نظر آئے گی لیکن اس کی تعمیر ایک بہت بڑا چیلنج تھا اور کم و بیش 900 مزدور اس تعمیر کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔
شاہراہ قراقرم کی لمبائی 1,300 Image
کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا ۔۔۔کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔
ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود
اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔
ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا
گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔
یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!
کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔
یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے,
محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ
"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"
شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے
کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!
شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے
ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔
تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔
تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی
کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔
چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک
پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں
رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت,دریائے سندھ اور شاہراہ کا ایک ایسا حسین امتزاج
بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر
دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔
جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں
حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔
گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔
آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔
نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں
اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔
ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔
بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔
عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔
ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ سے درآمد اشیاء کی مارکیٹ ہے۔
سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔
سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب
پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔
اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا
درجہ مل گیا ہے۔
اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے
ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے، بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔
یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے, یہ پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے۔ یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس
بجھانے کا آلہ کار ہے۔ یہ محبت و دوستی کی علامت ہے۔ یہ سینکڑوں مزدوروں کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا۔

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with علـــمـــی دنیــــــا

علـــمـــی دنیــــــا Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Pyara_PAK

20 Feb
پاکدامنی کا بدلہ پاکدامنی

تفسیر روح البیان میں ایک قصہ منقول ہے کہ شہر بخارا میں ایک سنہار کی مشہور دکان تھی اس کی بیوی خوبصورت اور نیک سیرت تھی ایک سقاء( پانی لانے والا)اس کے گھر تیس سال تک پانی لاتا رہا بہت بااعتماد شخص تھا ایک دن اسی سقاء نے پانی ڈالنے کے بعد Image
اس سنہار کی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر شہوت سے دبایا اور چلاگیا عورت بہت غمزدہ ہوئی کہ اتنی مدت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسی دوران سنہار کهانا کهانے کے لئے گھر آیا تو اس نے بیوی کو روتے ہوئے دیکھا پوچھنے پر صورتحال کی خبر ہوئی تو
سنہار کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بیوی نے پوچھا کیا ہوا سنہار نے بتایا کہ آج ایک عورت زیور خریدنے آئی جب میں اسے زیور دینے لگا تو اس کا خوبصورت ہاتھ مجھے پسند آیا میں نے اس اجنبیہ کے ہاتھ کو شہوت کے ساتھ دبایا یہ میرے اوپر قرض ہو گیا تها لہٰذا سقاء نے تمہارے ہاتھ کو
Read 5 tweets
19 Feb
کچھ مسلم حکمران تاریخ کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے‘ شیر شاہ سوری ان میں سے ایک ہے۔ شیر شاہ ایک نڈر‘ عالی طرف اور مردم شناس مسلم بادشاہ تھا‘ رعایا پروری‘ عدل و انصاف‘ مساوات اور حسنِ سلوک کی جس نے شاندار مثالیں قائم کیں اور ایسے عظیم کارنامے انجام دیے جنہیں Image
یاد کر کے آج بھی رشک آتا ہے۔ شیر شاہ سوری نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سے رفاہی کام کروائے ۔ سولہویں صدی میں جب شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی تو اس کی ترجیحات میں 2500 کلومیٹر طویل قدیم سڑک جی ٹی روڈ کی تعمیرِ نو تھی جو کابل سے کلکتہ
تک پھیلی ہوئی تھی تاکہ سرکاری پیغام رسانی اور تجارت کو مؤثر اور تیز تر بنایا جائے۔ اس سڑک کے بارے میں روایت ہے کہ اس کا پہلے نام جرنیلی سڑک تھا جو انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں بدل کر جی ٹی روڈ یعنی گرینڈ ٹرنک روڈ رکھا گیا۔ سینکڑوں سال قدیم اس سڑک کا گزر کابل
Read 8 tweets
19 Feb
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔۔۔

پہلی تصویر میں نظر آنے والی لڑکی پاکستانی طالبہ زارا نعیم ڈار ہے جس نے ACCA امتحان میں دنیا میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرکے ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی یہ قابل فخر بیٹی Financial Reporting میں سب سے زیادہ ImageImageImage
نمبر حاصل کر کے گوگل پرائز ونر بن چکی ہیں ۔

دوسری تصویر چترال سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر زبیدہ سرانگ کی ہے۔ وہ ایک اپتھالمالوجسٹ ہیں ۔ یعنی وہ آنکھوں کی بیماریوں ، آنکھوں کے مسائل اور ان کے علاج کے متعلق اسپیشلسٹ ہیں ۔ انہوں نے اس موضوع پہ ایک کتاب بھی لکھی ہے
جس کا نام ہے
"Optics Made Easy"
اس کتاب کو اس وقت کو
Best Ophthalmology books of All the time
قرار دیا گیا ہے ۔ یعنی آنکھوں کے متعلق دنیا کی سب سے بہترین کتاب بن چکی ہے۔ یہ یقیناً انسانیت کےلیے بڑا تحفہ ہے۔ اس نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا ہے ۔
Read 4 tweets
18 Feb
روضہ رسولﷺ کی جاروب کے پروں کو اپنا تاج بنانے والے عثمانی سلاطین!

سلطنت عثمانیہ نے سات سو سال تک صرف کسی ایک ملک پر حکومت نہیں کی بلکہ کئ ملکوں اور براعظموں پر ان کی شہنشاہی تھی۔ درجنوں بادشاہ ان کے زیر نگیں تھے۔یہ بادشاہوں کے بادشاہ تھے۔ لیکن یہ شہنشاہ خود کیا تھے؟ Image
مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک حکمرانی کرنے والے یہ شہنشاہ خود کو اللہ اور رسولﷺ کا ادنیٰ غلام سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری دولت، شہرت، طاقت، سیاست، قومیت، پر مقدم تھی۔
ایک دور تھا کہ جب مسجدِ نبوی میں حجرہ رسول ﷺ
کی صفائ کے لئے مور اور شُتر مرغ کے پنکھوں سے بنی جھاڑو استعمال کی جاتی تھی۔ کچھ عرصہ استعمال کے بعد ان پروں کی جھاڑو سے پر نکال کر عثمانی حکمرانوں کے پاس بھجوایا جاتا جن کو وہ فرطِ عقیدت سے اپنی آنکھوں سے لگاتے، ان کو چومتے اور اپنی پگڑیوں اور تاجوں میں لگانا اعزاز اور
Read 17 tweets
18 Feb
عدنان خاشقجی کا عروج وزوال

اس عرب پتی تاجر کا نام عدنان خاشقجی تھا یہ عرب نژاد ترکی تھا،اس کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی ان کا والد شاہی طبیب تھا،یہ شخص ترکی میں قتل ہوئے صحافی جمال خاشقجی کا چچا تھا،2017 میں ان کا انتقال 82 سال کی عمر میں ہوا.ستر اور اسی کی دہائی میں اس کی Image
شہرت اور دولت کا اتنا چرچا تھا کہ شہزادیاں اور شہزادے ان کے ساتھ ایک کپ کافی پینا اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے.
وہ کینیا میں موجود اپنے وسیع و عریض فارم ہاوس میں چھٹیاں گزار رہے تھے ان کی کم سن بیٹی نے آئیسکریم اور چاکلیٹ کی خواہش کی انہوں نے اپنا ایک جہاز ال 747 بمع
عملہ پیرس بھیجا جہاں سے آئیسکریم خریدنے کے بعد جنیوا سے چاکلیٹ لیکر اسی دن جہاز واپس کینیا پہنچا.
اس کے ایک دن کا خرچہ 1 ملین ڈالرز تھا.
لندن،پیرس،نیویارک،سڈنی سمیت دنیا کے 12 مہنگے ترین شہروں میں اس کے لگژری محلات تھے.
انہیں عربی نسل گھوڑوں کا شوق تھا دنیا
Read 13 tweets
17 Feb
ماں نے ڈرتے ڈرتے عالیہ کی طرف دیکھا اور بولی: بیٹی یہ اتنا سارا پھل تو کہاں سے لائی ہے؟ ابھی تو تنخواہ ملنے میں بہت دن باقی ہیں؟ ماں کی آنکھوں میں کرب تھا۔ دماغ میں جو ممکنہ "سچ" گھوم رہا ہے اسے سننے سے ڈر رہی تھی، حالانکہ اسے پتہ تھا عالیہ اس سے کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ Image
وہ بولی: امی جی آپ پریشان نہ ہوں۔ آپکو پتہ ہے میں نہ آپ کو رسوا کروں گی نہ شرمسار ہونے دونگی،
آج جب ہم ٹرمینل پر واپس پہنچے اور میں مسافروں کو رخصت کر رہی تھی تو ایک صاحب نے بس سے اترتے ہوئے میرے ہاتھ میں ہزار روپے کا نوٹ تھما دیا اور بولے بیٹا !!! یہ تمہاری عیدی ہے۔
امی جی میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ مجھے ابو بہت یاد آئے۔ مجھے یاد ہے ابو ہمارے لئے موسم کے پھل لایا کرتے تھے۔ میں نے بھی فیصلہ کیا آج گھر پھل لے کر جاؤں گی۔
امی پتہ ہے پھل خریدتے ہوئے میں کیا سوچ رہی تھی۔ روزانہ بس میں کئی لوگ مجھے گندی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اور شیطانی مسکراہٹ
Read 5 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!