کیا آپ جانتے ہیں مشاہد اللہ خان کون ہے؟ نہیں آپ میں سے سب لوگ نہیں جانتے، زیادہ تر صرف یہی جانتے ہیں کہ وہ سینیٹر ہیں ، مسلم لیگ (ن) کا لیڈر ہے، سابق وزیر ہے، ٹی وی پر جو چند لوگ بہت خوبصورت گفتگو کرتے ہیں مشاہد اللہ ان میں سرفہرست ہے۔ سیاستدان ہونے کے باوجود اس کا شعری ذوق
بہت اعلیٰ ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں سب لوگ جانتے ہیں لیکن اس مشاہد اللہ کو صرف وہ لوگ جانتے ہیں جو جمہوریت کے ساتھ اس کے عشق اور اس عشق کے لئے دی گئی اس کی قربانیوں سے واقف ہیں، آئیں میں آج آپ کو اس ضدی شخص کے بارے میں کچھ باتیں بتاتا ہوں۔
بارہ اکتوبر1999ء پاکستان کی مارشل لائوں
کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن تھا، جب پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور خود حکمران بن بیٹھا۔ اس وقت پورا پاکستان ایک سکتے کے عالم میں تھا۔ ان بدقسمت سیاسی جماعتوں نے اپنے کارندوں کے ذریعے ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کی خوشی میں مٹھائی بانٹی جنہیں
عوام مسلسل مسترد کرتے چلے آئے تھے اور جنہیں حکمرانی میں حصہ صرف مارشل لا کے ادوار میں ایک آلۂ کار کے طور پر ملتا ہے۔ یہ سیاہ دن اس لحاظ سے ایک روشن دن بھی تھا کہ مسلم لیگ جو مارشل لائوں میں داشتہ کا کردار ادا کرتی رہی تھی، پہلی بار اس کی قیادت نے کسی طالع آزما کے سامنے سر
جھکانے سے انکار کردیا ، خود نواز شریف اور ان کے خاندان کے تمام افراد نے کال کوٹھڑیوں میں بدترین ذہنی تشدد کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا اور ان کے علاوہ ان کی جماعت کے کتنے ہی رہنمائوں نے پوری استقامت کے ساتھ ناقابل بیان تشدد اور شرمناک اذیتیں برداشت کیں، مگر اس وقت میں آپ کو صرف
سینیٹر مشاہداللہ خان کے عزم و استقامت کی داستان سنائوں گا۔
جب جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگایا، اس وقت مشاہد اللہ خان کراچی کے ایڈمنسٹریٹر یا میئر تھے۔ یہ بارہ اکتوبر کا دن تھا اور اس وقت کراچی آرٹس کونسل میں ثریا شہاب کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی جس کی صدارت مشاہداللہ خان نے
کرنا تھی۔ اسٹیج تک پہنچتے پہنچتے خان صاحب کو علم ہوچکا تھا کہ بغاوت کامیاب ہوگئی ہے، مگر حاضرین ابھی تک ملی جلی خبریں سن رہے تھے۔ مشاہد اللہ خان نے اپنی صدارتی تقریر کا آغاز دھیمے لہجے میں کیا اور پھر ان کی آواز بلند ہوتی چلی گئی ، اس وقت تک حاضرین کے موبائل کی گھنٹیاں بھی
بجنا شروع ہوگئی تھیں اور یہ خبر عام ہوچکی تھی۔12اکتوبر کو مشاہد اللہ خان کی پہلی آواز تھی جو مارشل لاکے خلاف فضائوں میں گونجی اور مارشل لا کے خلاف پہلی پریس کانفرنس اور اس کے بعد پہلا مظاہرہ بھی مشاہد اللہ خان کی قیادت میں ہوا۔
ان دنوں مشاہد اللہ خان اور خاقان عباسی
پی آئی اے کے ہوٹل مڈ وے میں قیام پذیر تھے، جب خان صاحب وہاں پہنچے تو پولیس خاقان عباسی کو گرفتار کرکے لے جاچکی تھی، انہیں مشاہد اللہ خان کا غالباً علم نہیں تھا، ادھر خان صاحب کے سینے میں ایک ہیجان برپا تھا، نواز شریف صاحب کے بارے میں کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں ہیں اور
کہیں ہیں بھی کہ نہیں! مشاہد اللہ خان بتاتے ہیں کہ میں نے سوچا اگر میرے لیڈر کو کچھ ہوگیا تو میں ساری عمر اپنے آپ کو معاف نہیں کروں گا، چنانچہ انہوں نے تہیہ کرلیا کہ وہ جمہوریت کی بقا کے لئے ہر قربانی دیں گے، بس تھوڑی دیر کے لئے بیوی بچوں کا خیال آیا، بچے بہت چھوٹے تھے، مگر
انہیں پہلے بیوی کا فون آیا اور پھر بچوں کا کہ ملک پر اندھیری رات مسلط ہوگئی ہے آپ کیا کررہے ہیں؟ جس پر ان کی رہی سہی فکر بھی ختم ہوگئی۔ انہوں نے ممتاز صحافی اور ادیب فاروق عادل سے رابطہ کیا اور کہا میں آج پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنا چاہتا ہوں، آپ اس کا انتظام کریں،
انہوں نے ٹائم پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پریس کانفرنس سے صرف آدھ گھنٹہ پہلے ٹائم بتائوں گا۔ مشاہد اللہ خان رات گئے پریس کلب پہنچے ، کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل سے کالم کی طوالت میں اضافہ ہوجائے گا۔ وہاں پورا قومی پریس موجود تھا اور غیر ملکی صحافی بھی خاصی تعداد میں
ان کے منتظر تھے۔ خان صاحب نے وہاں جو کچھ کہا، وہ کوئی بہت دل گردے والا شخص ہی کہہ سکتا تھا۔ خان صاحب نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے فوراً گرفتاری کبھی نہیں دی بلکہ اپنی کارروائی کرنے کے بعد وہ وہاں سے فرار ہونے کی پوری کوشش کرتے رہے، چنانچہ یہ کام انہوں نے1971ءمیں
بھی کیا۔ 1977ء میں بھی کیا اور اس بار بھی وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ کانفرنس میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ کل چار بجے کراچی کے ریگل چوک میں مارشل لا کے خلاف مظاہرہ کریں گے۔ یہ خبر سارے اخباروں میں شائع ہوگئی، اب ان کے لئے وہاں پہنچنا اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ
اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف پوری طرح حرکت میں آگئی تھی۔ وہ ریگل کیسے پہنچے یہ ایک پوری جاسوسی کہانی کا اسکرین پلے ہے۔ قصہ مختصر وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ مارشل لا لگنے پر کوئی کارکن گھر سے نہیں نکلا، تو یہ بھی ایک غلط بات تھی کہ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں
عورتیں اور مرد موجود تھے،جن میں سے کچھ مظاہرے میں شرکت کے لئے اندرون سندھ سے بھی آئے تھے۔ خان صاحب نے وہاں نعرے بازی کی، ان سمیت 25کے قریب کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جن میں آٹھ خواتین بھی شامل تھیں۔
بس اس کے بعد پھر قید و بند کا سلسلہ شروع ہوتا ہےاور مشرف کے دور میں وہ آٹھ
مرتبہ جیل جاتے ہیں۔ مشاہد اللہ نے1972ءسے جیل جانا شروع کیا تھا اور یوں وہ اب تک بیس مرتبہ جیل کی اذیتیں برداشت کرچکے ہیں۔ میں خان صاحب کو اور ان سب کارکنوں، رہنمائوں، صحافیوں اور دانشوروں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے غیر آئینی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرکے ان لوگوں کا کفارہ
ادا کیا جنہوں نے جدوجہد کی بجائے ان مواقع پر آرام اور آسائش کو ترجیح دی۔ خصوصاً مشاہد اللہ خان کو کہ سب سے پہلے میدان میں وہ اترے تھے۔
دوستو، ان لوگوں کی باتوں میں کبھی نہ آنا جو حیلے بہانوں اور عوامی مسائل کی آڑ میں آپ کو جمہوری منزل سے دور لے جانا چاہتے
ہیں۔ پاکستانی قوم نے اپنے جمہوری رہنمائوں کی قیادت میں بہت قربانیاں دی ہیں جن میں سے صرف ایک روشن مثال کا ذکر میں نے آج کے کالم میں کیا ہے،
سلیوٹ ٹو یو مشاہد اللہ خان۔
یہ کالم عطاء الحق قاسمی صاحب نے 2016ء میں لکھا مگر آج بھی پڑھ کر اور بعد کے حالات کو دیکھ کر بے اختیار کہنے
کا دل کرتا ہے۔
سلیوٹ ٹو یو مشاہد اللہ خان ❤️❤️
اللّہ پاک مغفرت فرمائیں اور آخرت کی منازل آسان فرمائیں۔
آمین۔
🤐
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
وطن سے الفت ہے جرم اپنا یہ جرم تا زندگی کریں گے
ہے کس کی گردن پہ خونِ ناحق یہ فیصلہ لوگ ہی کریں گے
وطن پرستوں کو کہہ رہے ہو وطن کا دشمن ڈرو خدا سے
جو آج ہم سے خطا ہوئی ہے ، یہی خطا کل سبھی کریں گے
#MushahidullahKhan
وظیفہ خواروں سے کیا شکایت ہزار دیں شاہ کو دعائیں
مدار جن کا ہے نوکری پر وہ لوگ تو نوکری کریں گے
لئے جو پھرتے ہیں تمغہء فن ، رہے ہیں جو ہم خیالِ رہزن
ہماری آزادیوں کے دشمن ہماری کیا رہبری کریں گے
#MushahidullahKhan
نہ خوفِ زنداں نہ دار کا غم یہ بات دہرارہے ہیں پھر ہم
کہ آخری فیصلہ وہ ہوگا جو دس کروڑ آدمی کریں گے
ستم گروں کے ستم کے آگے نہ سر جھکا ہے نہ جھک سکے گا
شعارِ صادق پہ ہم ہیں نازاں جو کہہ رہے ہیں وہی کریں گے
سکندرِاعظم دنیا فتح کرنے کے لیے جگہ جگہ پھر رہا تھا ۔ اس نے ایک بہت بڑے ملک پر چڑھائی کا ارادہ کیا۔ وہاں کا بادشاہ سکندر کی فوج سے بڑا لشکر رکھتا تھا۔ مگراس نے جنگ کے بجاے صلح کے لئے پیش قدمی کی۔ سکندر نے اس کا بھاری لشکر دیکھ کر کہا :”
اگر توصلح کے لیے آیا ہے تو اتنی بڑی فوج لانے کی کیا ضرورت تھی ۔ معلوم ہوتا یے، تیرے دل میں دغا یے”۔ بادشاہ ے کہا: “سکندر! دغا کم زورں کا شیوا یے ۔ مقدر والے کبھی دغا نہیں کرتے۔ اپنی فوج ساتھ لانے کا مقصد یہ جتانا یے کہ کسی خوف کی بنا پر اطاعت
نہیں کر ریے، بلکہ اس لیے کر رہے ہیں کہ فی زمانہ تیرا اقبال بلند ہے”۔ سکندر نے صلح کا ہاتھ بڑھا دیا۔ بادشاہ نے سکندر کے اعزاز میں ایک پر تکلف دعوت کا انتظام کیا، پھر اسے ایک وسیع و عریغ خیمے میں لایا گیا اور بیش بہا لعل و جواہر قیمتی برتن میں بھر کر اس
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔
بیوی پہلی بار کھانا بنانے باورچی خانہ میں گئی ہوئی تھیں اور کھانا بنا رہی تھیں۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ روٹنی بیلنے والا چکلا بالکل بھی آواز نہیں کر رہا ہے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کی تینوں ٹانگیں سلیب پر ٹکتی ہی
نہیں تھیں۔ اس کی ایک ٹانگ چھوٹی ہونے کی وجہ سے کھٹ پٹ ہوتی رہتی تھی۔
صورتِ حال دیکھنے کے لیے جیسے ہی میں کچن میں پہنچا تو دیکھا کہ میری بیوی بڑے آرام سے روٹی بیل رہی تھی اور چکلے کی تینوں ٹانگیں الگ پڑی ہوئی تھیں۔
میں نے اس سے پوچھا، یہ تم نے کیا کیا؟
وہ بولی، کچھ نہیں۔ یہ کچھ زیادہ ہی کھٹ پٹ کر رہا تھا تو میں نے اس کی ساری ٹانگیں توڑ دیں۔ میرا یہی سٹائل ہے۔
بس اس روز اس کا وہ سٹائل دیکھ کر مجھے بھی کبھی کھٹ پٹ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو تین توڑ سکتی ہے اس کے لیے دو توڑنا کیا مشکل ہے۔
اسکندر مرزا چوتھے گورنر جنرل پاکستان اور پہلے صدر پاکستان میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔
ہمیشہ اقتدار کے خواب کی تعبیر کے لیے پہلے مارشل لاء کی راہ ہموار کی اور اپنی پارٹی کی مخالفت کر دی۔
27 اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان کا شکار ہوئے اور ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ ہو گیا۔
👇
ان کے پردادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا (اس لیے جب ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار لٹا کر برطانیہ میں جلا وطن ہوئے تو برطانیہ میں جس ہوٹل میں قیام کیا اس ہوٹل کا کرایہ ملکہ برطانیہ نے ادا کیا)۔
👇
پاکستانی فوجی افسر اور سیاست دان تھے۔
کہتے ہیں کہ برطانیہ کی ایک بہت ہی برے ہوٹل میں اپنے زندگی کے آخری ایام ایسے گزارے کہ ان کو اپنے گزر بسر کے لیےاس ہوٹل میں ویٹر کی نوکری کرنا پڑی، اور اسی ہوٹل میں وفات ہوئی، کوئی ان کی لاش لینے نہ آیا، جب پاکستان سے رابطے کیے گئے تو جواب
👇
ملک معراج خالد مرحوم نگران وزیراعظم بنے تو انہوں نے قوم کو سادگی سکھانے کے لیے اپنے لیے ہر قسم کا سرکاری پروٹوکول منع کردیا ۔ ایک دن وہ مال روڈ سے گذر رہے تھے کہ دیکھا کہ پولیس نے ہرطرف ٹریفک جام کررکھی ہے۔ آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد انہوں نے گاڑی کے قریب گذرتے ایک پولیس
کانسٹیبل سے پوچھا
" بھإئی ۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے ٹریفک کیوں بند ہے ؟ ۔
کانسٹیبل نے انہیں پہچانے بغیر کہا " جناب گورنر پنجاب خواجہ رحیم گذر رہے ہیں"
ملک معراج خالد نے موبإئیل پر خواجہ رحیم سے رابطہ کیا اور کہا کہ " آپ کے پروٹوکول میں میں بھی پھنسا ہوا ہوں۔ "
خواجہ رحیم نے قہقہہ لگایا اور کہا " ملک صاحب ۔ معذرت۔ لیکن اب تو میرے گذرنے کے بعد ہی ٹریفک کھلے گی اور میرے گذرنے میں ابھی 1 گھنٹہ باقی ہے"
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خواجہ رحیم کا قافلہ
ایک نکٹھو کو بیوی نے کام کاج کے لیے کہا.سست الوجود کے پاس اور تو کچھ نہ تھا ، ایک مرغی تھی اٹھائی اور بازار کو چل دیا کہ بیچ کے کاروبار کا آغاز کرے - راستے میں مرغی ہاتھ سے نکل بھاگی اور ایک گھر میں گھس گئی --- وہ مرغی کے پیچھے گھر کے اندر گھس گیا۔
مرغی کو پکڑ کے سیدھا ہوا ہی تھا کہ خوش رو خاتون خانہ پر نظر پڑی ..ابھی نظر "چار ہوئی تھی کہ باہر سے آہٹ سنائی دی۔ خاتون گھبرائی اور بولی کہ اس کا خاوند آ گیا ہے اور بہت شکی مزاج ہے ، اور ظالم بھی -
خاتون نے جلدی سے اسے ایک الماری میں گھسا دیا.
لیکن وہاں ایک صاحب پہلے سے "تشریف فرماء " تھے -
اب اندر دبکے نکٹھو کو کاروبار سوجھا ..آئیڈیا تو کسی جگہ بھی آ سکتا ہے - سو اس نے دوسرے صاحب کو کہا کہ :
"مرغی خریدو گے ؟"
اس نے بھنا کے کہا کہ یہ کوئی جگہ ہے اس کام کی ؟
"خریدتے ہو یا شور کروں ؟؟؟"