ملک معراج خالد مرحوم نگران وزیراعظم بنے تو انہوں نے قوم کو سادگی سکھانے کے لیے اپنے لیے ہر قسم کا سرکاری پروٹوکول منع کردیا ۔ ایک دن وہ مال روڈ سے گذر رہے تھے کہ دیکھا کہ پولیس نے ہرطرف ٹریفک جام کررکھی ہے۔ آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد انہوں نے گاڑی کے قریب گذرتے ایک پولیس
کانسٹیبل سے پوچھا
" بھإئی ۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے ٹریفک کیوں بند ہے ؟ ۔
کانسٹیبل نے انہیں پہچانے بغیر کہا " جناب گورنر پنجاب خواجہ رحیم گذر رہے ہیں"
ملک معراج خالد نے موبإئیل پر خواجہ رحیم سے رابطہ کیا اور کہا کہ " آپ کے پروٹوکول میں میں بھی پھنسا ہوا ہوں۔ "
خواجہ رحیم نے قہقہہ لگایا اور کہا " ملک صاحب ۔ معذرت۔ لیکن اب تو میرے گذرنے کے بعد ہی ٹریفک کھلے گی اور میرے گذرنے میں ابھی 1 گھنٹہ باقی ہے"
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خواجہ رحیم کا قافلہ
کافی دیر بعد گذرا ۔ اور سادگی پسند وزیراعظم صاحب کی گاڑی کو 2 گھنٹے کے بعد آگے بڑھنا نصیب ہوا۔
خاک ہو گئے نگینے لوگ
حکمران ہو گئے کمینے لوگ
🤐
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔
بیوی پہلی بار کھانا بنانے باورچی خانہ میں گئی ہوئی تھیں اور کھانا بنا رہی تھیں۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ روٹنی بیلنے والا چکلا بالکل بھی آواز نہیں کر رہا ہے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کی تینوں ٹانگیں سلیب پر ٹکتی ہی
نہیں تھیں۔ اس کی ایک ٹانگ چھوٹی ہونے کی وجہ سے کھٹ پٹ ہوتی رہتی تھی۔
صورتِ حال دیکھنے کے لیے جیسے ہی میں کچن میں پہنچا تو دیکھا کہ میری بیوی بڑے آرام سے روٹی بیل رہی تھی اور چکلے کی تینوں ٹانگیں الگ پڑی ہوئی تھیں۔
میں نے اس سے پوچھا، یہ تم نے کیا کیا؟
وہ بولی، کچھ نہیں۔ یہ کچھ زیادہ ہی کھٹ پٹ کر رہا تھا تو میں نے اس کی ساری ٹانگیں توڑ دیں۔ میرا یہی سٹائل ہے۔
بس اس روز اس کا وہ سٹائل دیکھ کر مجھے بھی کبھی کھٹ پٹ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو تین توڑ سکتی ہے اس کے لیے دو توڑنا کیا مشکل ہے۔
اسکندر مرزا چوتھے گورنر جنرل پاکستان اور پہلے صدر پاکستان میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔
ہمیشہ اقتدار کے خواب کی تعبیر کے لیے پہلے مارشل لاء کی راہ ہموار کی اور اپنی پارٹی کی مخالفت کر دی۔
27 اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان کا شکار ہوئے اور ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ ہو گیا۔
👇
ان کے پردادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا (اس لیے جب ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار لٹا کر برطانیہ میں جلا وطن ہوئے تو برطانیہ میں جس ہوٹل میں قیام کیا اس ہوٹل کا کرایہ ملکہ برطانیہ نے ادا کیا)۔
👇
پاکستانی فوجی افسر اور سیاست دان تھے۔
کہتے ہیں کہ برطانیہ کی ایک بہت ہی برے ہوٹل میں اپنے زندگی کے آخری ایام ایسے گزارے کہ ان کو اپنے گزر بسر کے لیےاس ہوٹل میں ویٹر کی نوکری کرنا پڑی، اور اسی ہوٹل میں وفات ہوئی، کوئی ان کی لاش لینے نہ آیا، جب پاکستان سے رابطے کیے گئے تو جواب
👇
ایک نکٹھو کو بیوی نے کام کاج کے لیے کہا.سست الوجود کے پاس اور تو کچھ نہ تھا ، ایک مرغی تھی اٹھائی اور بازار کو چل دیا کہ بیچ کے کاروبار کا آغاز کرے - راستے میں مرغی ہاتھ سے نکل بھاگی اور ایک گھر میں گھس گئی --- وہ مرغی کے پیچھے گھر کے اندر گھس گیا۔
مرغی کو پکڑ کے سیدھا ہوا ہی تھا کہ خوش رو خاتون خانہ پر نظر پڑی ..ابھی نظر "چار ہوئی تھی کہ باہر سے آہٹ سنائی دی۔ خاتون گھبرائی اور بولی کہ اس کا خاوند آ گیا ہے اور بہت شکی مزاج ہے ، اور ظالم بھی -
خاتون نے جلدی سے اسے ایک الماری میں گھسا دیا.
لیکن وہاں ایک صاحب پہلے سے "تشریف فرماء " تھے -
اب اندر دبکے نکٹھو کو کاروبار سوجھا ..آئیڈیا تو کسی جگہ بھی آ سکتا ہے - سو اس نے دوسرے صاحب کو کہا کہ :
"مرغی خریدو گے ؟"
اس نے بھنا کے کہا کہ یہ کوئی جگہ ہے اس کام کی ؟
"خریدتے ہو یا شور کروں ؟؟؟"
جہیز بنیادی طور پر ایک معاشرتی رسم ہے جو ہندوؤں کے ہاں پیدا ہوئی اور ان سے مسلمانوں میں آئی۔ خود ان کے ہاں اس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔اسلام نے نہ تو جہیز کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا کیونکہ عرب میں اس کا رواج نہ تھا۔ جب
ہندوستان میں مسلمانوں کا سابقہ اس رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کی۔ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر ظلم ہوتا ہے۔اگر
کوئی باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہے، تو یہ اس کی مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے۔ تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔سیدہ فاطمہ ؓ کو جو جہیز دیا گیا، وہ اس وجہ سے تھا کہ سیدنا علی نبی کریم ﷺ کے زیر پرورش تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے بیٹے
پرانے وقتوں کی بات ہے ایک ملک کا بادشاہ تھا جو بہت رحم دل اور انصاف پسند تھا، ملک میں ہر طرف خوشحالی کا راج تھا اور پڑوسی ملک بھی بادشاہ سے ڈرتے تھے، بادشاہ کی کوئی اولاد نہ تھی، خدا کا کرنا یوں ہوا کہ بادشاہ سخت بیمار ہو گیا اور کچھ عرصہ بعد وفات پا گیا۔ اس کا وارث نہ ہونے کی
👇
وجہ سے رشتے دار آپس میں لڑ پڑے فیصلہ مشکل ہو گیا کہ کون بادشاہ بنے گا، آخر کار قابینہ نے سب کی متفقہ رائے سے یہ فیصلہ دیا کہ جو شخص صبح طلوع آفتاب سے پہلے شہر میں داخل ہو گا اس کو بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ یہ خبر شہر کے داخلی دروازے کے پہرہ داروں تک پہنچا دی گئی اور ان کو حکم
👇
دیا گیا کہ جو بندہ سب سے پہلے آئے اسے دربار میں پیش کیا جائے۔ اگلی صبح طلوع آفتاب سے پہلے ایک بچارہ فقیر کہیں سے بھولا بھٹکا ادھر آ نکلا اور جیسے ہی شہر کے دروازے پر پہنچا، پہرے داروں نے اسے پکڑ لیا اس نے بہت منت سماجت کی کہ مجھے چھوڑ دو میں بس فقیر ہوں مگر پہرے دار اس کو
👇