اورنگ زیب کی وفات مغل حکومت کے زوال کا نقطہء آغاز تھا جو ہندوستان کی سیاسی بد امنی معاشی ومعاشرتی بد حالی اور اخلاقی ومذہبی بدنظمی کا آغاز ثابت ہوا-اورنگ زیب کی وفات کے بعد دس سال کے عرصے میں وراثت تخت کے بارے میں سات بار لڑائی
ہوئی جس سے زوال کی رفتار اور تیز ہو گئی-شہزادوں کی آپسی خانہ جنگی سے موقع پاکر مرہٹوں نے اپنی اس فوجی قوت وطاقت کو جمع کرنا شروع کردیا جس طاقت کا اورنگ زیب قلع قمع کرچکے تھے شہزادوں کی ناعاقبت اندیشی سے مرہٹوں کو سنبھلنے کا موقع مل گیا- شہزادوں اور ان کے
بعد والے بادشاہوں کی غفلت کی وجہ سے مغل حکومت کے خلاف تین دشمن طاقتیں تیار ہو چکی تھیں:
1 مرہٹے
- 2 سکھ
- 3 جاٹ
یہ تینوں آزاد طاقتیں موقع بموقع دلی (دہلی) اور اس کے اطراف میں لوٹ مار کرتے رہتے تھے-
مرہٹوں نے 1741 سے 1751 تک بنگال اور بہار میں 4 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی قتل
عام اور لوٹ مار کی۔
مرہٹوں کی طاقت میں اتنا زور پیدا ہوگیا تھا کہ انہوں نے اکثر ہندوستان کو فتح کرلیا تھا اور مرہٹوں نے لال قلعہ پر بھی قبضہ کرلیا تھا-
مرہٹوں نے طاقت کے نشے میں عوام پر ظلم و زیادتی شروع کر دی تھی، اس زمانے میں مرہٹوں کی ہنگامہ آرائیوں سے ہندو مسلمان
سب ہی پریشان تھے-
بنگال کے مشہور شاعر گنگا رام بنگال پر ان کے حملوں اور لوٹ مار کا حال لکھتے ہیں کہ:
"مرہٹوں نے دیہاتوں کو لوٹنا شروع کر دیا تو کچھ لوگوں کے انہوں نے ہاتھ ناک اور کان کاٹ لئے اور کچھ کو مار ڈالا خوبصورت عورتوں کو رسیوں سے باندھ کر لے گئے اور ان عورتوں
کی اجتماعی عصمت دری کرتے تھے”
جدوناتھ سرکار نے بھی مرہٹوں کے زنا کے معاملہ میں شہرت کا اعتراف کیا ہے-
مرہٹون نے عوام سے چوتھ نامی جبری ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا تھا یہ ٹیکس صرف اس لئے تھا کہ جو اس ٹیکس کو ادا کریگا وہ مرہٹوں کے حملوں اور لوٹ مار سے
محفوظ رہے گا-
جب مرہٹوں نے لال قلعے پر قبضہ کرلیا تو اس قدر لوٹ مار کی کہ دیوان خاص کی سونے کی چھت کو اترواکر سونے کے سکے بنوالئے اور اسی طرح نظام الدین اولیاء کے مزار اور مرقد محمد شاہ پر جو سونے کی شمع دان اور عود سوز تھی اس کو منگواکر سکے بنوا لئے تھے-
مرہٹے طاقت کے نشہ میں یہ نعرہ لگانے لگے کہ ہم کو دلی کی جامع مسجد کے منبر پر مہادیو کی مورتی نصب کرنی ہے-
مرہٹوں کی بڑھتی سرکشی سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے نواب نجیب الدولہ کو اپنے خطوط کے ذریعہ آگاہ کیا-
نواب نجیب الدولہ شاہ ولی اللہ کے خاص عقیدت مندوں
میں سے تھا، نواب نجیب الدولہ نے نجیب آباد میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا تاکہ شاہ ولی اللہ کے طریقے کی تعلیم واشاعت ہو، نجیب آباد شہر جو ضلع بجنور میں واقع ہے اس کو نواب نجیب الدولہ نے 1740ء میں آباد کیا تھا-
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے نواب نجیب الدولہ کو مرہٹوں کے زور
کو کم کرنے کی طرف متوجہ کیا اور جنگ کی صورت میں اپنے مکاشفہ مراقبہ اور رؤیت صالحہ کی بنیاد پر فتح کی بشارت بھی دی-
ان اضطرابی حالات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ایک فوجی اتحاد قائم کیا جس میں شاہ ولی اللہ نے نواب نجیب الدولہ کے ذریعہ احمد شاہ ابدالی کو شریک
ہونے کی دعوت دی اور نواب نجیب الدولہ نے ہر طرح کی مدد کا وعدہ کیا-
احمد شاہ ابدالی کو بھارت کے مسلمانوں کو مرہٹوں کے ظلم و زیادتی سے نجات دلوانے اور مرہٹوں کی طاقت کو ختم کرنے کے لئے فوجی اتحاد میں شرکت کی درخواست کی تھی جس کو احمد شاہ ابدالی نے
قبول کر لیا تھا –
احمد شاہ ابدالی نے وعدہ کے مطابق یکم نومبر 1760ء کو پانی پت کے میدان میں ڈیرے ڈال دئے تھے
اس فوجی اتحاد میں احمد شاہ ابدالی، نواب نجیب الدولہ، نواب شجاع الدولہ، حافظ رحمت خاں، سعد اللہ خان و دیگر امراء وجرنیل شریک تھے-
نواب نجیب الدولہ پانی
پت کی جنگ میں مقدمۃ الجیش کے افسر تھے-
ادھر مرہٹے طاقت کے نشے میں اپنی فتح کو یقینی سمجھتے ہوئے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ پانی پت کے میدان میں پہنچ گئے-
14 جنوری 1761ء بروز بدھ 6 جمادی الاولیٰ 1174 کی صبح میں دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے میدان جنگ
میں داد شجاعت دینے کو تیار تھیں-
یہ جنگ طلوع آفتاب سے لے کر ظہر کے وقت تک چلی جس میں دوطرفہ بہادروں نے داد شجاعت دی، لیکن نواب نجیب الدولہ کی فوج نے جو جنگی کارنامے انجام دیئے وہ قابل داد تھے، جس کی وجہ سے احمد شاہ ابدالی کی فوج کا دبدبہ مرہٹوں پر ابتدائے
جنگ سے ہی قائم ہو گیا تھا-
اس جنگ میں مرہٹوں کو بری طرح شکست ہوئی تھی- اسی جنگ میں مرہٹوں کے 27 بڑے سردار مارے گئے-
اس جنگ نے مرہٹوں کی طاقت کو ایسا تباہ و برباد کیا کہ اس کے بعد وہ کبھی میدان جنگ میں فتح حاصل نہ کر سکے-
اس جنگ میں لاکھوں کی تعداد میں سپاہی
مارے گئے جن میں اکثریت مرہٹوں کی تھی--
مشہور ہندوستانی مؤرخ ڈنگا سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کی پوری زندگی ملک کی بہتری میں صرف ہوئی اور وہ افغان ہی نہیں خطے کے دیگر
مسلمانوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔
احمد شاہ ابدالی کا مقبرہ قندھار میں ہے۔ بعض تذکروں میں لکھا ہے کہ ابدالی کرشماتی شخصیت کا حامل تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے اس دور میں قبیلوں کے مابین کئی جھگڑوں کو اپنے تدبر اور فہم سے نمٹایا اور ایک مضبوط ملک کی بنیاد رکھی۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
جُلیبیب رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی تھے، نہ مالدار تھے، نہ کسی معروف خاندان سے تعلق تھا۔صاحبِ منصب بھی نہ تھے۔ رشتہ داروں کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی۔ رنگ بھی سانولا تھا۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ کی محبت سے سرشار تھے۔بھوک کی حالت میں پھٹے
پرانے کپڑے پہنے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوتے، علم سیکھتے اور صحبت سے فیض یاب ہوتے۔
ایک دن اللہ کے رسول ﷺ نے شفقت کی نظر سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:۔ "جلیبیب! تم شادی نہیں کرو گے"۔
جلیبیب رضی اللہ عنہُ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ جیسے آدمی سے بھلا کون شادی کرے گا؟
اللہ کے رسول ﷺ نے پھر فرمایا" تم شادی نہیں کرو گے"۔ اور وہ جواباً عرض گزار ہوئے کہ اللہ کے رسول ﷺ! بھلا مجھ سے کون شادی کرے گا؟ نہ مال نہ جاہ و جلال!!۔
اللہ کے رسول ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی ارشاد فرمایا : "جلیبیب ! تم شادی نہیں کرو گے؟"۔
جواب میں انہوں نے پھر وہی کہا: اللہ کے
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! قیامت کب آئے گی؟ ''
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے،نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟ ''
اس شخص نے عرض کِیا:
'' یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
میں حاضر ہوں۔ ''
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
'' تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ ''
اس نے عرض کِیا:
'' یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! نہ تو میں نے بہت زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اور نہ ہی بے شمار روزے رکھے ہیں مگر اِتنی بات ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبّت رکھتا ہوں۔ ''
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سُن کر فرمایا:
'' ( قیامت کے دن ) انسان اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبّت کرتا ہے اور تیرا حشر بھی اسی کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ تجھے محبّت ہے۔ ''
راوی کہتے ہیں کہ:
''
ایک دن حضرت ابوہریرہ رضی اللّہ عنہُ حضور نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو مسجد میں نہ پا کر بے تاب ہو گئے اور شوقِ دِید میں نِکلے دریافت کِیا تو کسی نے پہاڑ کی طرف اِشارہ کِیا وہاں گئے تو چرواہا بکریاں
چَرا رہا تھا اس سے پوچھا کہ میرے آقا صلی اللّہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو کہیں دیکھا ہے؟ اس چرواہے نے کہا میں تیرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو تو نہیں جانتا اِتنا جانتا ہوں کہ اس غار میں تین دن رات سے کوئی اس قدر درد و سوز سے سجدے میں گریہ و زاری کر رہا ہے کہ میری
بکریوں نے ہی نہیں بلکہ تمام چرِند و پرِند نے کھانا پینا ہی چھوڑا ہُوا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللّہ عنہُ نے فرمایا کچھ جانتا ہے کیا الفاظ بول رہا ہے؟ تو چرواہے نے کہا
می کند با گریہ ہر ساعتی نالہء یااُمّتی یااُمّتی
ہر گھڑی یااُمّتی یااُمّتی کی پُکار کر رہا ہے
مریخ پر میکرو لیول کی زندگی کے شواہد نہیں ملتے اور شاید اگر کبھی ملیں گے تو وہ یا تو فاسلز کی صورت میں یا پھر شاید نہ ہی ملیں... اگر سیارہ مریخ پر میکرو لیول کی زندگی ہوتی تو اس کا ثبوت کافی عرصہ پہلے ہی مل جاتا...
خیر اسی سوال کا دوسرا اہم
جز یہ ہے کہ اگر مریخ پر زندگی ہے تو شاید وہ مائیکرو لیول کی زندگی ہے... یعنی کہ چھوٹے بیکٹیریاز، وائرسز کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہاں پر زندگی موجود ہے... لیکن اس کی بھی صورتیں ہیں پہلی تو یہ کہ اگر کسی زمانہ میں مریخ کی سطح پر پانی بہتا رہا تھا تو پھر ایسا کیا ہوا کہ اس
کا سارا پانی دونوں پولز پر جمع ہوکر برف بن گیا؟
اگر کبھی مریخ کی سطح پر پانی بہتا رہا ہے تو وہاں پر کم از کم پودوں کے فاسلز تو موجود ہونے چاہیئے... جبکہ فلحال کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت نہیں ملا... لیکن عین ممکن ہے کہ عنقریب کچھ چونکا دینے والے شواہد انسان کو ضرور ملیں...
بغداد کے قریب ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کے کھنڈرات سے الیکٹرک بیٹری کی دریافت ہوئی۔ یہ بیڑی دراصل پیلے رنگ کی مٹی سے بنے 6 انچ لمبے ایک گلدان کی صورت میں تھی۔ یہ گلدان 1933ء میں بغداد کے قریب جنوب مشرق میں خوجت رابہ Khujut Rabu کے
مقام سے کھدائی کے دوران ایک بڑی تعداد میں برآمد ہوئے،جنہیں آثارقدیمہ کے ماہرنے اسے عام گلدان سمجھ کر بغداد میوزیم میں رکھ دیا۔
1936ء میں بغداد میں ہی آثارِ قدیمہ کے جرمن ماہر انجینیر ولہیم کونِگ Wilhelm Konig نے جب اس کا بغور مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی
عام گلدان نہیں بلکہ الیکٹرک بیڑی ہے، جس میں 60 فیصد قلعی کا آمیزہ Asphalt کی تہہ کے ساتھ تانبے کا سلنڈر بھی موجود تھا جس پر تیزاب کی ملمع کاری کی گئی تھی اور ایک لوہے کی سلاخ گزار کر تانبے کے سلنڈر میں پہنچائی گئی تھی۔ ولہیم کونِگ نے اسے بغداد بیٹری کا نام دیا
بعد میں ولہیم کونِگ
تفسیر روح البیان میں ایک قصہ منقول ہے کہ شہر بخارا میں ایک سنہار کی مشہور دکان تھی اس کی بیوی خوبصورت اور نیک سیرت تھی ایک سقاء( پانی لانے والا)اس کے گھر تیس سال تک پانی لاتا رہا بہت بااعتماد شخص تھا ایک دن اسی سقاء نے پانی ڈالنے کے بعد
اس سنہار کی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر شہوت سے دبایا اور چلاگیا عورت بہت غمزدہ ہوئی کہ اتنی مدت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسی دوران سنہار کهانا کهانے کے لئے گھر آیا تو اس نے بیوی کو روتے ہوئے دیکھا پوچھنے پر صورتحال کی خبر ہوئی تو
سنہار کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بیوی نے پوچھا کیا ہوا سنہار نے بتایا کہ آج ایک عورت زیور خریدنے آئی جب میں اسے زیور دینے لگا تو اس کا خوبصورت ہاتھ مجھے پسند آیا میں نے اس اجنبیہ کے ہاتھ کو شہوت کے ساتھ دبایا یہ میرے اوپر قرض ہو گیا تها لہٰذا سقاء نے تمہارے ہاتھ کو