پاکستان میں حکومت کی طرف سے کرونا کی ویکسینیشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس وقت چین کی بنی ہوۂی ویکسین SINOVAC کی منظوری دی ہے ڈریگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان [ DRAP ] نے۔
یہ دو انجکش کی صورت لگاۂی جاتی ہے۔ پہلے انجکشن کے 28 دن بعد دوسرا انجکشن۔
دوسری ادویات کی طرح اس ویکسین
1/5 👇
کے بھی کچھ ضمنی اثرات [ side effect ] ہیں
انجکشن کی جگہ پر
1۔ درد
2۔ سرخی ماۂل نشان
3۔ ابھار [ swelling ]
جسمانی
1۔ تھکاوٹ کا احساس
2۔ سر درد
3۔ ہلکا بخار
4۔متلی
5۔پٹھوں میں درد
6۔سردی لگنے کا احساس
علاج/حل
1۔انجکشن کی جگہ پر ٹھنڈے اور گیلے کپڑے سے ٹکور
2/5 👇
2۔ بازو کا زیادہ استعمال یا ورزش
3۔ پانی زیادہ مقدار میں پینا
4۔ ہلکے کپڑے پہنا
5۔ درد/بخار کی دوا کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ
مندرجہ ذیل صورت میں ڈاکٹر سے رابطہ ضروری ہے
1۔ اگر بازو پر درد اور سرخی ماۂل نشان 24 گھنٹے بعد بھی برقرار رہتا ہے یا زیادہ ہو جاتا ہے
3/5 👇
2۔ اگر جسمانی علامات [ side effects ] کچھ دن تک برقرار رہتے ہیں
نوٹ
1۔ ان جسمانی علامات [ side effects ] کی وجہ سے آپ کی روز مرہ کی کام کی روٹین متاثر ہوسکتی ہے
2۔ ویکسین کا کورس مکمل ہونے کے دو ہفتے آپ کے جسم میں کرونا کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو جاۓ گی اس سے پہلے
4/5 👇
آپ کرونا سے ہرگز محفوظ نہیں ہیں
یہ سب طبی معلومات اب تک کی ریسریج اور CDC سے منظور شدہ ہیں مزید ریسریچ میں جو جو معلومات ملیں گی آپ سے شعیر کرنے کی کوشش کی جاۓ گی
آج 19 مارچ مشہور فسانہ نگار حجاب امیتاز علی کا یوم وفات ہے
حجاب امتیاز علی 4 نومبر 1908 کوحیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سید محمد اسماعیل نظام دکن کے فرسٹ سیکریٹری تھے اور والدہ عباسی بیگم اپنے دور کی نامور ناول نگار خاتون تھیں
حجاب امتیاز علی نے عربی، اردو اور
1/4
موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور مختلف ادبی رسالوں میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ابتدا میں وہ حجاب اسماعیل کے نام سے لکھا کرتی تھیں اور ان کی تحریریں زیادہ تر تہذیب نسواں میں شائع ہوتی تھیں جس کے مدیر امتیاز علی تاج تھے۔ 1929 میں امتیاز علی تاج نے اپنا مشہور ڈرامہ انار کلی
2/4
انار کلی ان کے نام سے منسوب کیا اور 1934 میں یہ دونوں ادبی شخصیات رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ شادی کے بعد حجاب مستقلاً لاہور کی شہری بن گئیں اور حجاب اسماعیل سے حجاب امتیاز بن گئیں۔
حجاب امتیاز علی نے بے شمار افسانوی مجموعے اور ناولٹ یادگار چھوڑے
3/4
ایک بار موٹر ساۂیکل پر جاتے ہوئے راستے میں سامنے کتا اگیا
اس کو بچانے کے چکر میں کنٹرول میری گرفت سے نکل گیا اور میں سواری سمیت سڑک کی بغل والے نالے میں گر گیا
بڑی مشکل کے بعد جیسے تیسے میں نالے سے باہر نکلا تو دیکھا ایک خوبصورت خاتون اپنی کار روکے میری طرف دیکھ رہی تھی
1/5
انہوں نے پوچھا "کہیں لگی تو نہیں"
"نہیں،نہیں"میں نے جواب دیا.
"میرا گھر نزدیک ہی ھے" انہوں نے کہا "چلو کپڑے صاف کرلو ،اپ کو زیادہ زخم اے ھیں یا نہیں یہ بھی چیک کر لیتے ھیں"
میں نے جواب دیا "اپ کا بہت بہت شکریہ میں ضرور اپ کے ساتھ چلتا لیکن میری بیوی ناراض ہو جائےگی"
2/5
اپ بالکل ٹینشن نہ لیں میں ایک ڈاکٹر ھوں،چلئے" انہوں نے زور دے کر کہا
"میں دیکھنا چاہتی ھوں کے کہیں اپ کو فریکچر تو نہیں ھوا ھے"
در حقیقت وہ اک خوبصورت اور اچھے اخلاق کی خاتون تھیں اور میں نا نہیں کر پایا
میں نے کہا "ٹھیک ھے میں آ رہا ھوں لیکن مجھے یقین ھے کے میری بیوی
3/5
ماسٹر صاحب اسکول سے واپس گھر آۓ،نہا دھو کر کھانا کھانے بیٹھے اور ایک دو نوالوں کے بعد ہی اپنی بیوی سے یہ کہہ کر اچار مانگا کہ
" سالن اچھا نہیں ہے، کوئ ذائقہ ہی نہیں ہے "
بیوی نے اسے اپنی بےعزتی سمجھا اور بدلہ لینے کے لیے غصے میں آکر
کوویڈ ہیلپ لائن فون کرکے ایمبولینس
1/4
کو بلوالیا کہ میرے شوہر کو "کھانے کا ذائقہ نہیں آرہا"
ھاسپٹل والے ماسٹر صاحب کو ایمبولینس میں ڈال کر لے گۓ اور قرنطینہ میں ڈال دیا۔
ڈاکٹرز آۓ اور پہلا سوال کیا کہ آپکا کس کس سے رابطہ ہوا تھا؟
ماسٹر صاحب نے پرسکون انداز میں جواب دیا
1.میری بیوی
2.میری ساس
2/4
3. میرے سسر 4. میرے دونوں سالے 5. میری تینوں سالیاں 6. میرے تینوں ہم زلف
7. اور خالہ نسرین جنہوں نے میرا رشتہ کروایا تھا
اب یہ سارے لوگ بھی کوویڈ ھسپتال میں اپنے اپنے بیڈ پر بیٹھے ماسٹر صاحب کو خونیں نگاہوں سے گھور رہے ہیں
اور
3/4
بزرگ صحافی محمد رفیق ڈوگر کی کتاب " ڈوگر نامہ " میں لکھا ہوا ایک واقعہ
" یک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزتی کردی۔کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے
1/5
جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی
2/5
بے عزتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لئے مجھے جیل بھیج دو۔
پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑگیا. گورنر نے تھانے میں فون کیا
3/5
یہ زبان ریختہ کی پہلی غزل ہے جو امیر خسرو نے لکھی ہے جس کا پہلا مصرع فارسی میں ہے اور پھر دوسرا مصرع ہندوی میں۔ یہ ایک انتہائی مشہور غزل ہے اور عام طور سے اسے قوالی کے طور پر بھی گایا جاتا ہے
نیچے تھریڈ میں ملاحظہ فرماۂیں
1/4
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
2/4
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
3/4