بزرگ صحافی محمد رفیق ڈوگر کی کتاب " ڈوگر نامہ " میں لکھا ہوا ایک واقعہ
" یک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزتی کردی۔کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے
1/5
جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی
2/5
بے عزتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لئے مجھے جیل بھیج دو۔
پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑگیا. گورنر نے تھانے میں فون کیا
3/5
لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔بات وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو
4/5
نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔ اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے’’شورش نے میری عزت بچالی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘
5/5
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یہ زبان ریختہ کی پہلی غزل ہے جو امیر خسرو نے لکھی ہے جس کا پہلا مصرع فارسی میں ہے اور پھر دوسرا مصرع ہندوی میں۔ یہ ایک انتہائی مشہور غزل ہے اور عام طور سے اسے قوالی کے طور پر بھی گایا جاتا ہے
نیچے تھریڈ میں ملاحظہ فرماۂیں
1/4
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
2/4
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
3/4
کسی اسلامک بینک کے ایک شریعہ ایڈوائزر ایک دفعہ گاڑی چلانے کے دوران موبائل فون پر باتیں کرتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گئے
پولیس والے نے پوچھا چلان کروں یا 500 چائے پانی کا خرچہ دیں گے؟
مفتی صاحب نے پولیس والے کو بولا کہ جرمانے کی ضرورت نہیں ہے اور رشوت لینے اور دینے والے
1/5 👇
دونوں جہنمی ہوتے ہیں مگر میں اسکا ایک اسلامی حل نکال سکتا ہوں
پولیس والا حیرت سے کھڑا منہ تکتا رہا
مفتی نے اپنی گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میں تمھیں 500 میں بیچتا ہوں۔۔ بولو قبول ہے؟
پولیس والے نے مفتی کو گھور کر دیکھا اور سوچا کہ یہ ہزاروں کی گھڑی
2/5 👇
مولوی 500 میں بیچ رہا ہے فائدہ میرا ہی ہے۔یہ سوچتے ہی پولیس والے نے فوراً پیسے نکال کر مولوی کے ہاتھ میں دیے اور بولا لاؤ دو گھڑی۔
مولوی مسکرا کر بولا کہ صبر کرو ابھی اسلامی ٹرانزیکشن مکمل نہیں ہوئی۔اس ٹرانزیکشن میں گھڑی کے مالک اب تم ہو لیکن استعمال کنندہ
مومن خاں مومن کا اصل نام محمد مومن تھا۔وہ دہلی کے کوچہ چیلان میں 18جنوری 1801 میں پیدا ہوئے وہ حکیم، ماہرِ نجوم اور ممتاز غزل گو شاعر تھے تعلق ایک کشمیری گھرانے سے تھا 14مئی 1852 کو ان کا دہلی انتقال ہو گیا
مومن خاں مومنؔ کے چند منتخب اشعار پیش کرتا ہوں
1/3 👇
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
2/3 👇
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
سوز غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا
آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
3/3