شہر کے بِیچ میں جامع مسجد کے دروازے کے سامنے رِیحان کا چائے کا ہوٹل ہے۔اس کا ہوٹل خُوب چلتا ہے۔اس نے ہوٹل کی دِیوَار پَر پچاس اِنچ کی ایل سی ڈی لگارکھی ہے جس پر سارا دن لوگ فلمیں دیکھتے ہیں۔ ہندی،انگریزی،چائنیز وغیرہ،رات دس بجے کے بعد والے شو
بالغ افراد کے لئے ہوتے ہیں۔ ریحان کو فلموں کی کافی جانکاری ہے۔ ہارر،رومانوی، تاریخی،آرٹ ہر طرح کی فلموں کا وسیع علم ہے۔
ریحان پانچ وقت کا نمازی بھی ہے۔جیسے ہی اذان ہوتی ہے وہ دکان چھوٹے لڑکے کو سَونپ کر مسجد کا رُخ کرتا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ پنجگانہ نماز کی
بدولت ہی اس کے کاروبار میں برکت ہے۔یُوں ریحان کا سارا دن فلموں میں اور پانچ مرتبہ کچھ منٹ مسجد میں گزرتے ہیں۔مگر تمام لوگوں کاماننا ہے کہ ریحان ایک نیک اورنمازی پرہیزگار آدمی ہے۔
مسجد کے امام کا نام مولوی "حافظ عبدالسبحان" ہے۔
پچیس سال کا خُوب رُو بارِیش نَوجوَان ،
تَازہ تَازہ درس نظامی کرکےآیا ہےاورمسجد میں بِلَا معاوضہ امامت و تدریس سنبھالی ہے۔
نماز پڑھانے اور بچوں کو درس دینے کے بعد مسجد سے ملحق حُجرے میں جا بیٹھتاہے اور کتابوں میں کھوجاتا ہے۔ کل عصر کی نماز کے بعد مولوی صاحب کا چائے پِینے کا مُوڈ ھُوا تو مولانا صاحب
کے دل میں خیال آیا کیوں نا آج اپنے ریحان بھائی کے ہوٹل سے چائے پِی جائے ۔ مسجد کے صدر دروازے پر ھوٹل ھے۔ چنانچہ وہ حجرے کا کواڑ لگا کر چپل پہنے ہوٹل میں داخل ہُوئے۔ تمام فِلم بِین جو پِیشاب روکے، آنکھیں پھاڑے فلم میں مَست تھے،مولوی صاحب کو دیکھ کر
یُوں چونکے جیسے کوئی خَلَائی مخلُوق ہوٹل میں داخل ہو گئی ہو ۔ مولوی صاحب نے چائے کا کہا اور ایک کونے میں بیٹھ کر رِسَالہ پڑھنے لگ گئے، تِیسری آنکھ سے دیکھنے والےکوصاف معلوم پڑتا تھا کہ اس وقت ہوٹل میں مُجرِم فقط ایک ذات تھی۔ یعنی "مولوی حافظ
عبدالسبحان صاحب"۔
چائے پِینے کے بعد حُجرے میں لَوٹ آئے۔ نماز مغرب کی اذان دے کر مولوی صاحب مُصَلّٰئِ امامت تک تشریف لائے تومقتد یوں کے چِہرے یُوں بدلے ہُوئے تھے جیسے کُوفہ والوں کے حضر ت مسلم بن عقیل کو دیکھ کر بدلے تھے ۔ اطراف میں بات پَھیل چُکی تھی کہ
مولوی صاحب فلمیں بہت دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز جائزنہیں۔مولوی صاحب کی چُھٹی کروا دی گئی۔
عشاء کے وقت جب مولوی"حافظ عبدالسبحان" صاحب اپنا سامان سمیٹے مسجد سے نکل رہے تھے تو ریحان بھائی کے ہوٹل میں بیٹھے چَاچَا شریف نے ریحان کو پکارتے ہوئے کہا :
"اچھا کیا مولوی حافظ عبدالسبحان صاحب کی چُھٹی کروادی، ایسے مولو یوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہے اور ہم مسلمانوں کی عزت نہیں ہے ۔" ریحان نے ہاں میں ہاں مِلائی اور پِھر سے سب دوبارہ فلم میں مَگَن ہو گئے۔
سبق:- یہ ہے ہمارے معاشرے کا حال، ریحان سارا دن فلمیں دیکھنے اور
دکھانے والا نیک ہے اور مولوی صاحب پانچ منٹ چائے پینے گئے تو بہت بڑے گناہ گار ھوگئے۔۔۔۔۔۔ اللّٰه پاک هم سب كو هدايت عطا فرمائے ... آمین ثم آمین یارب العالمین۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! قیامت کب آئے گی؟ ''
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے،نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
'' قیامت کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟ ''
اس شخص نے عرض کِیا:
'' یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں حاضر ہوں۔ ''
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
'' تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ ''
اس نے عرض کِیا:
'' یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
نہ تو میں نے بہت زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اور نہ ہی بے شمار روزے رکھے ہیں مگر اِتنی بات ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبّت رکھتا ہوں۔ ''
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سُن کر فرمایا:
'' ( قیامت کے دن ) انسان اس کے ساتھ
جولائی 1965 میں مرینر 4 نامی خلائی جہاز نے مریخ کا پہلا کامیاب دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد مریخ کے قریب سے اڑان بھر کر اس کے بارے میں مفید معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ زمین کے ہمسائے سیارے مریخ پر اس کے بعد تسلسل سے خلائی مشنز بھیجے گئے جو اس کے بارے میں
دلچسپ معلومات فراہم کرتے رہے۔
لیکن یہ سب بھی اس ایک سوال کا جواب نہیں دے سکے جس کے ہم سب منتظر ہیں: کیا مریخ پر زندگی موجود ہے؟چلیے آپ کو ایک ایسی ٹیکنالوجی سے متعارف کرواتے ہیں جو ممکنہ طور پر ہمیں اس سوال کا جواب دے سکتی ہے۔
یہ اینالیٹیکل
لیبارٹری ڈرائر یا اے ایل ڈی نامی ایک جدید ڈبہ ہے۔ اس ڈبے میں تین قسم کے آلات موجود ہوتے ہیں جن کے ذریعے پتھر کے نمونوں میں حیاتیات کے کیمیائی فنگر پرنٹس ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ ایگزومارس یا ‘روزالنڈ فرینکلن’ نامی یہ چھ پہیوں والا روبوٹ 2021 میں مریخ کے ’
ایوب خان کے دور میں پاکستان پر کوئی قرضہ نہیں تھا ۔ پاکستان قرض لینے کے بجائے دینے والے ممالک میں شامل تھا ۔ اس دور میں پاکستان نے جرمنی جیسے ملک کو 120 ملین کا ترقیاتی قرضہ دیا ۔
ایوب خان نے جب اقتدار سنبھالا تو ڈالر 4 روپے کا تھا اور 11 سال بعد جب وہ چھوڑ کرگیا
تب بھی ڈالر 4 روپے کا ہی تھا۔
ایوب خان کے دور میں ایک چینی وفد پاکستان آیا تو حبیب بینک کی عمارت دیکھ کر حیران رہ گیا اور وہ پاکستان سے اسکا ڈیزائن لے کر گئے ۔ اس دور میں کراچی کا مقابلہ لندن اور نیویارک سے کیا جاتا تھا ۔
ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کی
شرح پاکستانی تاریخ کا ریکارڈ 9 فیصد تھی ۔ یہ شرح آج کے دور میں چین کی ہے ۔
بے روزگاری کی شرح 3 فیصد تھی جو پاکستان کی تاریخ میں کم ترین ہے ۔
جب ان کو اقتدار ملا تو قومی بچت جی ڈی پی کا 2.5 تھی ۔ ان کی اقتدار میں آمد کے بعد یہ 10.5 فیصد پر پہنچ گئی ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی
ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا
دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔
پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟
چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔
اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔
ایک مصری عالم کا کہنا تھا کہ مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیا سوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جو ایک کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا تھال میں کیا چیز ہے۔
" وہ بولی اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی۔"
پس اس نے مجھے شرمندہ کر ڈالا "
یہ ایک دن کا حکیمانہ قول نہیں بلکہ ساری زندگی کی دانائی کی بات ہے۔
" کوئی بھی چیز چھپی ہو تو اس کے انکشاف کی کوشش نہ کرو۔"
کسی بھی شخص کا دوسرا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں خواہ آپ کو یقین ہو کہ وہ
بُرا ہے یہی کافی ہے کہ اس نے تمہارا احترام کیا اور اپنا بہتر چہرہ تمہارے سامنے پیش کیا بس اسی پر اکتفا کرو۔
ہم میں سے ہر کسی کا ایک بُرا رخ ہوتا ہے جس کو ہم خود اپنے آپ سے بھی چھپاتے ہیں۔
" اللہ تعالٰی دنیا و آخرت میں ہماری پردہ پوشی فرمائے" ورنہ
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سفر پر جا رہے ہیں، جاتے جاتے سفر کے دوران کچھ بھوک لگی، وہ ہوٹلوں، ریسٹورینٹوں کا زمانہ تو تھا نہیں کہ بھوک لگی تو کسی ہوٹل میں گھس گئے اور وہاں جاکر کھانا کھا لیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تلاش کیا کہ آس پاس بستی ہو لیکن وہاں کوئی بستی
بھی نہیں، تلاش کرتے کرتے دیکھا کہ ایک بکریوں کا ریوڑ چر رہا ہے، خیال ہوا کہ اس بکری والے سے کچھ دودھ لے کر پی لیں تاکہ بھوک مٹ جائے، تو دیکھا کہ چرواہا بکریاں چرا رہا ہے اس سے جا کر کہا کہ میں مسافر ہوں اور مجھے بھوک لگی ہے، مجھے ایک بکری کا دودھ
نکال دو تو میں پی لوں، اور اس کی جو قیمت تم چاہو وہ میں تم کو ادا کر دوں۔
چرواہے نے کہا کہ جناب میں ضرور آپ کو دودھ دے دیتا، لیکن یہ بکریاں میری نہیں ہیں میں تو ملازم ہوں، نوکر ہوں بکریاں چرانے کے لئے مجھے میرے مالک نے رکھا ہوا ہے، اور جب تک اس سے اجازت نہ لے لوں اس وقت تک آپ