135 ملین سال قبل ڈائنوسار کو زمین کا حکمران تصور کیا جاتا تھا جس کی وجہ ان کا خوفناک اور ہیبت ناک دکھائی دینا تھا- شاید آپ اس بات سے واقف نہ ہوں کہ لاکھوں یا کروڑوں سال پہلے ہمارے سیارے پر ڈائنوسار سے بھی
کئی زیادہ خطرناک اور خوفناک جانور بھی پائے جاتے تھے جو آج بھی اگر موجود ہوتے تو یقیناً دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا- ایسے ہی چند زمانہ قدیم سے تعلق رکھنے والے چند خوفناک اور خطرناک جانوروں کا ذکر ہے ہمارے آج کے اس آرٹیکل میں-
Dakosaurus
لاکھوں سال پرانے اس خوفناک جانور کا
ڈھانچہ سب سے پہلے جرمنی میں دریافت کیا گیا- یہ ایک خوفناک سمندری جانور تھا جس کے دانت انتہائی بڑے تھے- ماہرین کے مطابق اس جانور کی لمبائی 4.5 میٹر تک ہوا کرتی تھی- ابتدا میں اس جانور کا تعلق ڈائنوسار سے بتایا گیا تاہم بعد میں ماہرین نے اس
غلط فہمی کو دور کیا اور اسے ایک علیحدہ جانور کے طور پر متعارف کروایا گیا-
Helicoprion
اس سمندری مخلوق کو Spiral Saw بھی کہا جاتا ہے- اس خوفناک مخلوق کے دانت گولائی میں اور تین کونوں کے حامل تھے- اس مچھلی کی مختلف اقسام کے جتنے بھی ڈھانچے دریافت
ہوئے ان سب کے تقریباً ایک جیسے ہی دانت تھے- اس جانور کی تاریخ بھی تقریباً 290 ملین سال پرانی ہے- ایک اندازے کے مطابق یہ مچھلی 3 سے 4 میٹر تک طویل ہوا کرتی تھی-
Madtsoia
ایسے لوگ جنہیں سانپوں سے ڈر لگتا ہے ان کے لیے یقیناً اگر یہ مخلوق آج کے دور میں ہوتی
تو ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوتی- زمانہ قدیم کی اس عجیب و غریب مخلوق کی لمبائی 15 سے 20 میٹر کے درمیان ہوا کرتی تھی- یہ ایک طرح کا خوفناک سانپ تھا جسے ارجنٹینا کا Eocene بھی کہا جاتا ہے- کہا جاتا ہے کہ یہ سانپ اپنی غذا کے لیے ڈائنوسار کا انتخاب کرتا تھا-
Smilodon
اس عجیب و غریب اور لمبے دانتوں کے حامل چیتے کا ڈھانچہ فلوریڈا میں دریافت کیا گیا تھا- یہ چیتے اپنے شکار کو اپنے انہی دانتوں کو مدد سے ہلاک کیا کرتے تھے اور چیر پھاڑ کر اپنی غذا بناتے تھے- ان کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ یہ آجکل کے چیتوں کے مقابلے میں انتہائی
بڑے ہوا کرتے تھے- اس جانور کی تاریخ صرف 10 ہزار سال پرانی ہے-
Titanboa
یوں تو ہمارے اردگرد متعدد اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں لیکن یہ دنیا کا قدیم ترین دیوقامت سانپ تھا جو کہ 60 ملین سال قبل پایا جاتا تھا- اب تک دریافت ہونے والے سانپوں میں یہ سب
سے بڑا٬ سب سے لمبا اور سب سے وزنی سانپ ہے- ایک انداز کے مطابق ان سانپوں کی لمبائی 12.8 میٹر اور وزن 1,135 کلوگرام ہوا کرتا تھا-
Megalodon
یہ دنیا کی سب سے بڑی شارک مچھلی کی ایک قسم تھی جس کا اب دنیا سے خاتمہ ہوچکا ہے- زیرِ نظر تصویر سے بھی آپ انداز لگاسکتے ہیں کہ اگر یہ
مچھلی آج دنیا میں پائی جاتی تو کتنی بڑی تباہی کا سبب بن سکتی تھی- شارک کی یہ قسم تقریباً 20 ملین سال قبل پائی جاتی تھی- دریافت شدہ ڈھانچوں کے مطابق اس کی لمبائی 18 میٹر تک تھی- لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ اس کی ایک قسم آج بھی دنیا میں موجود ہے-
Quetzalcoatlus
یہ دنیا کا
سب سے بڑا اڑنے والا جانور تھا- دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جانور دانت نہیں رکھتا تھا جبکہ اس کی گردن غیرمعمولی حد تک طویل تھی- اس کے علاوہ اس جانور کے پر بھی غیرمعمولی حد تک پھیلے ہوا کرتے تھے اور ان پروں کے ساتھ اس جانور کی لمبائی تقریباً 16 میٹر تک تھی-
Sarcosuchus
یہ سپر مگرمچھ
40 فٹ تک لمبا تھا اور ہر شے کو اپنی غذا بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا- یہ مگرمچھ تقریبا 112 ملین سال قبل پائے جاتے تھے- اس مگرمچھ کی باقیات سب سے پہلے فرانسیسی تحقیق دانوں نے صحارا صحرا سے 1946 سے 1959 کی تحقیق کے دوران دریافت کی تھیں- ان مگرمچھوں کا وزن تقریباً 8 ٹن ہوا کرتا تھا-
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
شیخ ابن النر غب یمنی کی عادت تھی کہ ہمیشہ اپنے وطن سے سفر کرکے اول حج ادا کرتے اور پھر زیارت روضہ رسول ﷺ کیلئے حاضر ہوتے تھے۔ دربار کی حاضری کے وقت والہانہ اشعار قصیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﷺ کے صاحبین حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم کی شان
میں لکھ کر روضہ اقدس کے سامنے پڑھا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ وہ حسب عادت قصیدہ پڑھ کر فارغ ہوئے تو ایک رافضی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ آج میری دعوت قبول کیجئے۔ حضرت شیخ نے تواضع کی بناء پر اتباع سنت کی نیت سے دعوت قبول کر لی آپ کو اس کا
حال معلوم نہ تھا کہ وہ رافضی ہے اور حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم کی مدح کرنے سے ناراض ہے،
آپ حسب وعدہ اس کے مکان پر تشریف لے گئے مکان میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنے دو حبشی غلاموں کو، جن کو پہلے سے سمجھا رکھا تھا، اشارہ کیا، وہ دونوں اس اللہ
سعودی عرب میں کھجوروں اور چشموں کا ایک ایسا نادر و نایاب گاؤں موجود ہے جو اپنے دامن میں دو ہزار سال کی تاریخ رکھتا ہے۔ سعودی عرب میں مدینہ منورہ کے علاقے ‘یبنع النخل’ میں 2 ہزار سال پرانا ایک ایسا تاریخی گاؤں موجود ہے جو پانی کے کنوؤں، چشموں اور کھجوروں
کے لیے مشہور ہے۔ اس گاؤں میں میٹھے پانی کے 99 چشمے ہیں۔یہاں پر اسلام کے ابتدائی دور اور اس سے قبل کے دور کی کئی کہانیاں، واقعات، آثار اور باقیات دیکھنے کو ملتی ہیں جو اپنے ناظرین کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ 1400 سال قبل تک شام سے
حجاز کی طرف آنے والے تجارتی قافلے اسی علاقے سے گزرتے تھے اور ظہور اسلام کے بعد یہ علاقہ تجارتی اور حجاج کرام کے قافلوں کی گزرگاہ بن گیا۔
اس گاؤں کے تاریخی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے سعودی فوٹو گرافر اور
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮧُ اور ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ رضی اللہ عنہما
حضرت علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر مسکرانے لگے
حضرت علی رضی اللہ عنہما نے پوچھا آپ کیوں مسکرا رہے ہیں
بارہ سال کا ایک بچہ ہاتھ میں تلوار پکڑے تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک طرف لپکا جارہا تھا۔ دھوپ بھی خاصی تیز تھی، بستی میں سناٹا طاری تھا، یوں
لگتا تھا جیسے اس بچے کو کسی کی پروا نہیں۔ لپکتے قدموں کا رخ بستی سے باہر کی طرف تھا، چہرہ غصے سے سرخ تھا,
آنکھیں کسی کی تلاش میں دائیں بائیں گھوم رہی ہیں، اچانک ایک چٹان کے پیچھے سے ایک سایہ لپکا۔ بچے نے تلوار کو مضبوطی سے تھام لیا۔ آنے والا سامنے آیا تو بچے کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔ ہاتھ میں تلوار اور چہرے پر حیرت اور مسرت کی جھلملاہٹ دیکھ کر آنے
والے نے شفقت سے پوچھا:
" میرے پیارے بیٹے! ایسے وقت میں تم یہاں کیسے؟"
بچے نے جواب دیا : " آپ کی تلاش میں۔"
اس بچے کا نام زبیر رضی اللہ عنہ تھا۔ باپ کا نام عوام اور ماں کا نام صفیہ رضی اللہ عنھا تھی- یہ بچہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم
حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک بار گھر تشریف لائے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے یہ سوت کاتا ہے آپ اسے بازار لے جائیے اور بیچ کر آٹا لے آئیے تاکہ حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) کو روٹی کھلاؤں حضرت علی وہ سوت بازار لے گئے اور اسے چھ درہم میں بیچ دیا، پھر ان پیسوں
کا کچھ خریدنا چاہتے تھے کہ ایک سائل نے صدا کی مَنْ یُّقْرِضُ اللّٰہُ قَرْضًا حَسَنًا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ روپے اس سائل کو دے دیئے
.تھوڑی دیر کے بعد ایک اعرابی آیا جس کے پاس بڑی فربہ ایک اونٹنی تھی وہ بولا اے علی! یہ اونٹنی خریدو گے؟ فرمایا پیسے پاس
نہیں اعرابی نے فرمایا ادھار دیتا ہوں یہ کہہ کر اونٹنی کی مہار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دے دی اور خود چلا گیا۔
اتنے میں ایک دوسرا اعرابی نمودار ہوا اور کہاعلی رضی اللہ عنہ اونٹنی دیتے ہو؟ فرمایا لے لو اعرابی نے کہا تین سو نقد دیتا ہوں یہ
امریکہ میں کلے ہانڈی ریسٹورنٹ کھولنے کا اشارہ مجھے ایک رات بحالت خواب ملا تھا کہ میرے ریسٹورینٹ میں مٹی کی ہانڈیوں میں کھانا پک بھی رہا ہے اور لوگ مٹّی کے برتنوں میں کھانا کھا بھی رہے ہیں اور پھر اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیۓ مسلسل ایک سال کی
پلاننگ ، کنسلٹنٹس کے ساتھ اس کے بزنس پلانز، ریسٹورنٹ کی اس کے نام کی مطابقت کے ساتھ تزئین، اور پاکستان بنفس نفیس جا کر وہاں 20 دن مسلسل سفر، چھوٹے چھوٹے قصبوں میں دستکاروں کے گھروں میں جا کر ان سے برتنوں اور لکڑی کی مصنوعات کی ڈیزائننگ جیسے
مراحل سے گزرنے کے بعد پاکستان بھر سےساری مصنوعات کی ایک وئیر ہاؤس میں ان کو یکجا کرنا ، ان کی نازکی کے لحاظ سے مخصوص پیکنگ ، پاکستان کسٹم کلیئرنس اور کنٹینر کی روانگی ، نیو یارک امریکن کسٹم سے کنٹینرکی کلیرنس کا مرحلہ ، پھر کسٹم ایجنٹ کی کال آی کہ