ایک مسجد کا امام کام کے لئے برطانیہ کے شہر لندن گیا، جہاں لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد اور ایک ہی راستے پر بسوں میں سفر کرنا روزانہ گھر سے مسجد جانے والی بس کا سفر کرنا اس کا معمول بن گیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ بس ایک جیسی تھی اور بس ڈرائیور بھی وہی تھا۔
⬇️
ایک بار امام صاحب نے بس کے ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا اور باقی رقم لے کر ایک نشست پر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے ذریعہ دی گئی باقی رقم جیب میں ڈالنے سے پہلے اسے پتہ چلا کہ بیس قلم زیادہ ہیں۔ امام صاحب نے سوچنا شروع کیا اور پھر انہوں نے اپنے آپ سے کہا کہ وہ اترتے وقت ڈرائیور کو ان بیس
⬇️
قلموں کو واپس کردیں گے کیونکہ یہ اس کا حق نہیں ہے تب اس کے پاس ایک خیال آیا کہ اس چھوٹی سی رقم کو اتنا کم بھول جائیں۔ پیسوں کی کون پروا کرتا ہے؟ یہاں تک کہ اگر ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کما لے تو بھی اس کم رقم سے ان کی آمدنی میں کیا فرق پڑے گا؟
⬇️
اور میں نے یہ رقم اللہ کی طرف سے بطور انعام جیب میں ڈال دی اور میں خاموش رہا اور بس امام صاحب کے مطلوبہ اسٹاپ پر رک گیا امام صاحب نے اترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پینس واپس کردے اور کہا کہ یہ بیس قلم لے لو تم نے مجھے غلطی سے زیادہ دیا ہے ڈرائیور نے بیس پینس واپس لئے اور مسکراتے
⬇️
ہوئے امام صاحب سے پوچھا: کیا آپ اس علاقے میں مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے ایک طویل عرصے سے آپ کی مسجد میں آنا چاہتا ہوں میں نے جان بوجھ کر آپ کو بیس سے زیادہ پینس دیئے ہیں تاکہ میں اس معمولی رقم کے بارے میں اور امام صاحب کی طرح آپ کے رویہ پر تبصرہ
⬇️
کروں۔ جونہی وہ بس سے اترا تو اسے یوں لگا جیسے اس کی ٹانگیں کھو گئی ہیں۔ اس نے گرنے سے بچنے کے لئے کھمبے پر ٹیک لگایا۔ اس نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور پکارا۔ یہ ہوسکتا تھا۔ یہ کہ ہمیں اپنے اعمال پر لوگوں کے رد عمل کی کبھی پرواہ نہیں ہوتی لیکن یاد رکھنا کہ بعض اوقات لوگ
⬇️
صرف قرآن پڑھنے سے یا غیر مسلموں کے ذریعے ہی اسلام کے بارے میں جانتے ہیں ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور تشکیل دیتے ہیں۔ اگر ہم کسی کو اسلام قبول نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم اپنے کسی عمل کی وجہ سے اسلام سے نفرت نہ کریں۔ ہم مسلمانوں کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ
⬇️
سفید کپڑے پر داغ دور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے معاملات کو منظم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
تحریر اچھی لگی ہو تو ریٹویٹ ضرور کریں
مجھے فالو کریں اور فالو بیک حاصل کریں @Arshe530
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
آرمی کے پاس 2فل جنرل, 29لیفٹنٹ جنرل اور 194 میجر جنرل ہیں باقی نیچے بریگیڈئرکرنل لیفٹننٹ کرنل میجر کا حساب لگا لیں اس کے علاوہ ڈی جی آئی ایس پی آر جو کہ ایک کرنل رینک کی آسامی تھی اس پہ اب میجر جنرل لگایا جاتا ہے یعنی ٹویٹر چلانے کے لیئے
⬇️
بھی فوج جرنیل استعمال کرتی ھے ایک جرنیل سے لے کر بریگیڈیئر، لیفٹننٹ کرنل،میجر تک ہر ایک فوجی، پاکستانی عوام کو کتنےمیں پڑتا ھے کبھی اس بارے میں آپ نے سوچا ھے؟
(اوپر کی حرام کی کمائی کے علاوہ)
اگر حقیقت آپ کے سامنے آجائےتو
عوام کی آنکھیں کھل جائیں گی اور سیاستدان فرشتے لگنے
⬇️
لگیں گے. تنخواہ کے علاوہ مراعات جن میں دوران ملازمت مفت رہائشی بنگلہ، مفت بجلی، مفت پانی، مفت گیس، سی ۱۳۰ طیارے میں پورے ملک میں مفت سفری سہولت PIA اور ریلوے سے رعایتی ٹکٹ پر سفر کی سہولت نوکر (bat man) کی سہولت بریگیڈیئر اور اس سے اوپر والوں کے لیئے سٹاف کار بچوں کی آرمی پبلک
⬇️
بھارت میں شائع ہونے والی کتاب
”کالکی اوتار“ نے دنیا بھر ہلچل مچا دی ہے اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس "کالکی اوتار" کا تذکرہ ملتا ہے وہ آخری رسول محمد ﷺ بن عبداﷲ ہی ہیں
اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اب تک جیل میں ہوتا
⬇️
اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی مگر اس کے مصنف "پنڈت وید پرکاش" برہمن ہندو ہیں اور وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ہیں وہ سنسکرت زبان کے ماھر اور معروف محقق اسکالر ہیں
پنڈت وید پرکاش نے کالکی اوتار کی بابت اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور ومعروف محقق پنڈتوں کے سامنے پیش کیا
⬇️
جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں
برھمن پنڈت ویدپرکاش نے اپنی اس تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔ہندووں کی اہم مذہبی کتب میں
⬇️
عزت مآب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب
کچھ گستاخ اور زبان دراز آپکی ذات پر انگلیاں اٹھا رھے ہیں کہتے ہیں جنرل باجوہ بتائیں کہ انکے بیٹے نے صرف 22 سال کی کم عمر میں مین بلیوارڈ گلبرگ لاہور میں 13 ارب روپے مالیت کا شاندار عسکری ٹاور کھڑا کرلیا ھے
⬇️
یہ عاقبت نااندیش پوچھتے ہیں کہ جنرل باجوہ بتائیں کہ انکے بیٹے نے اتنی کم عمر میں اتنی بڑی رقم کیسےکمالی آپکی تنخواہ بھی اتنی نہیں کہ اس تنخواہ سے بچت کرکے 13 ارب روپے اپنے بیٹےکو دے سکیں۔ ان پیسوں کےذرائع بتا دیں ان پیسوں پر کتنا ٹیکس دیا گیا جنرل باجوہ صاحب آپ قوم کے
⬇️
سپہ سالار ہیں مجھ سےان لوگوں کی یہ گستاخی برداشت نہیں ہورہی۔ آپکی وجہ سے یہ ملک محفوظ ھے آپکی وجہ سے ہم رات کو چین کی نیند سوتے ہیں ملکی سلامتی کو پہلے ہی شدید خطرات لاحق ہیں اوپر سے یہ لوگ اسطرح کےسوال پوچھ کر دشمن کے آلہ کار بنتےنظر آرھے ہیں. آپکی محبت میں جب میں نے ان
⬇️
آج میں بازار جوتا خریدنے گیا
دُکان میں داخل ہُوا تو مردانہ ورائٹی کی جانب ایک خوبصورت چہرہ، سفید ٹوپی، سنّت سے سجھی داڑھی اور سفید لباس میں ملبوس انسان نے خوش آمدِید کہتے ہُوئے مختلف ڈیزائن دکھائے,
میں نے ان کا دینی حلیہ دیکھتے ہوئے
⬇️
پوچھا: آپ کا نام کیا ہے؟
میرا نام ریحان ہے۔
آپ کی تَعلِیم؟
دِینی تَعلِیم دَرسِ نظامی (فضیلت)، اور دُنیوی تَعلِیم بی اے تک۔
کتنا عرصہ ہوا یہاں کام کرتے؟
دو ماہ ہونے کو ہیں۔
آپ کو کوئی اور کام نہیں مِلا؟
اس کے جواب میں ریحان نے صرف وہی بات کہی جس کو میں نے انسانیت پر
⬇️
اجاگر کرنے کی سعادت حاصل کی ہے:
کہ ایک مدرسے میں معلّم کے پیشے سے منسلک تھے اور قریب کے مسجد میں امام بھی, الحمدللہ میں اپنی زندگی میں بہت خوش تھا. بس اس مہنگائی کے باعث گھریلو حالات سے مجبور ہو کر رزقِ حلال کی تلاش میں ایک امام اور مدرسے کا استاد ہونے کے ناطے اپنی تمام تر
⬇️
اکتوبر 2015 میں سدرن کمانڈ چیف جنرل ناصر جنجوعہ کی خصوصی 'کاوشوں' سے بلوچستان اسمبلی نے ریکارڈ آٹھ منٹوں میں DHA کوئٹہ ایکٹ پاس کیا، جسے اگلے ہی روز گورنر کی توثیق بھی مل گئی۔
اس قانون میں 45 ہزار ایکڑ اراضی DHA کو دیکر اسے 'مخصوص ایریا' قرار دیدیا۔
⬇️
جس سے شہریوں میں شدید مایوسی و بےچینی پھیل گئی۔
قانون عدالت میں چیلنج ہوا، بلوچستان ہائیکورٹ کا پانچ رکنی فل کورٹ بنچ سماعت کیلئے بیٹھا۔ گذشتہ دسمبر میں عدالت نے اس قانون کی بعض شقوں کو خلاف آئین قرار دیدیا، جس سے DHA کوئٹہ میں جاری ترقیاتی کام رک گئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ DHA
⬇️
ایک غیر سرکاری ادارہ ھے لوگوں کی زمین ایکوائر کرنے کا اختیار صرف وفاقی یا صوبائی حکومت کے پاس ہے جو کسی غیر سرکاری سوسائٹی کو نہیں دیا جسکتا مذکورہ قانون کے ذریعے حکومت نے لینڈ ایکوزیشن، ڈویلپمنٹ اور میونسپل جیسے اختیارات DHA کو دیکر الٹا سرکاری اداروں کو DHA کے ماتحت کردیا ھے
⬇️
ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچ گیا،وہاں جھونپڑی تھی اس جھونپڑی میں رہنے والے شخص نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی، وہ غریب جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے، مسافر سمجھ کر خدمت کی، بادشاہ بہت خوش ہوا، جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور کہا:
⬇️
تم مجھے نہیں جانتے ہو کہ میں بادشاہ ہوں۔یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو جب کبھی کوئی ضروت ہوگی ہمارے محل میں آجانا دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا بادشاہ چلا گیا کچھ دن بعد اس کو کوئی ضروث پیش آئی تو وہ دیہاتی محل
⬇️
کے دروازے پر پہنچے کہا بادشاہ سے ملنا ہے دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی کہنے لگا نہیں مل سکتے مفلس وقلاش آدمی ہے اس دیہاتی شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی اب جو دربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی
⬇️