#فوجی_دماغ
میرے والد صاحب 1971ء سے 1984ء تک پاکستان ائیر فورس بیس میں خطیب رہے، اس زمانے میں ہر سال بیس پر "سیرت کانفرنس" منعقد ہوتی، غالباََ 1980ء میں سیرت کانفرنس ہونے لگی تو سرکاری اجلاس میں طے کیا جانے لگا کہ بیس کے باہر سے کس بڑے عالم کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا
👇
جائے، والد صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا نام تجویز کیا جو منظور کر لیا گیا۔
کانفرنس کے دوران ڈائس پر مولانا اور بیس کمانڈر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، بیس کمانڈر نے مولانا سے اظہار تشکر کے طور پر کہدیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ بہت بڑے عالم اور شیخ الحدیث ہیں،
👇
مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ ہماری دعوت پریہاں تشریف لائے ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے فرمایا، مجھے بھی یہاں آکر بہت خوشی ہوئی ہے، باقی سچ یہ ہے کہ میں کوئی بڑا عالم یا شیخ الحدیث نہیں ہوں بلکہ ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔
کانفرنس کے اگلے روز بیس کمانڈر نے والد صاحب کو طلب کر
👇
لیا اور کہا، تمہاری جرات کیسے ہوئے سرکاری تقریب میں ایک طالب علم کو مہمان خصوصی بنوانے کی، والد صاحب سٹپٹا کر رہ گئے کہ یہ کیا کہا جارہا ہے، انہوں نے بیس کمانڈر سے پوچھا، کونسا طالب علم ؟ بیس کمانڈر نے کہا وہ سلیم اللہ خان جو رات کو یہاں تقریر کر کے گیا ہے، والد صاحب نے
👇
لاکھ سمجھایا کہ سر وہ بہت بڑے شیخ الحدیث ہیں لیکن بیس کمانڈر ایک ہی بات کہتا، "انہوں نے خود مجھے کہا کہ "سچ" یہ ہے کہ میں ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں"۔۔۔
خلاصہ یہ کہ والد صاحب کے خلاف ایک انکوائری کمیٹی بنادی گئی جو یہ تحقیق کرے کہ آنے والا، طالب علم سلیم اللہ خان تھا کہ
👇
شیخ الحدیث سلیم اللہ خان۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اہل علم خود کو از راہ انکسار "طالب علم" کہتے ہیں اور آنے والے مہمان نے بھی ایسا ہی کیا، فی الحقیقت وہ ایک بڑے شیخ الحدیث ہی ہیں۔ بیس کمانڈر نے رپورٹ پڑھنے کے بعد کہا، میں انکسار ونکسار نہیں جانتا سیدھی طرح کہو کہ
👇
شیخ الحدیث نے مجھ سے غلط بیانی کی۔
میں جب بھی ٹی وی چینلز پر ریٹائرڈ جرنیلوں کو سویلین امور میں "ماہرانہ" رائے دیتے دیکھتا ہوں تو مجھے 1980ء کا وہ فوجی دماغ ضرور یاد آتاہے۔

تحریر: رعایت الله فاروقی

آپ حساب لگا لو کہ ملک اور کپتان کس طرح چل رہے ہیں۔
بشکریہ
@AbbasBu32314316
🤐

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with سقراط

سقراط Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Urta_teer

6 Apr
کسی شہر مین ایک رقاصہ رہتی تھی، جسے ٹھیک سے ناچنا نہیں آتا تھا۔ اتفاق سے ایک روز اسے کسی دوسرے شہر جانا پڑا۔ اس شہر میں اس نے اپنے آپ کو ایک نامور رقاصہ مشہور کردیا۔ رقاصہ کو دعوت دی گئی۔ اس کے رقص سے محظوظ اور لطف اندوز ہونے کے لیے شہر کے شوقین اکھٹا ہوئے۔ وہ ٹھیک سے
ناچنا تو جانتی نہیں تھی، مرتی کیا نہ کرتی۔ ناچنے کے لیے کھڑی ہوگئی اور ناچار ناچنا شروع کیا، مگر ناچ نہ سکی۔ اپنے عیب کو چھپانے اور جھینپ مٹانے کے لیے اس نے کہا، ٹھیک سے ناچوں تو کیسے؟ یہ آنگن ٹیڑھا ہے۔ اس پر کسی نے فقرہ کسا، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔”
کہاوت کا مطلب ہے "نہ جاننے کی وجہ سے کوئی کام نہ ہوسکنا۔” یہ مثل اس جگہ بولتے ہیں جب کوئی شخص کسی کام میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے حیلے بہانے کرے یا اس سے کوئی کام نہ ہوسکے اور دوسرے پر الزام رکھے۔

اس کی زندہ مثال کپتان اور اس کی حکومت ہے جو لگ بھگ تین سال پورے کرنے کو ہے
Read 4 tweets
6 Apr
جنگل میں شیر نے حکم جاری کر دیا کہ آج سے ہر سینئر جانور جونیئر جانور کو چیک کر سکتا ہے بلکہ سزا بھی دے سکتا ہے
باقی جانورں نے تو اسے نارمل لیا پر چیتے نے خرگوش کو پکڑ لیا اور رکھ کے چپیڑ کڈ ماری
اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں نہیں پہنی
#پیرس_کی_ٹوپی
خرگوش بولا سر میرے کان لمبے ہیں اس لیے نہیں پہن سکتا
چیتے نے کہا اوکے جاؤ

اگلے دن فیر خرگوش چہل قدمی کر رہا تھا چیتے نے اسے بلایا اور رکھ کے ایک کان کے نیچے دی اور پوچھا ٹوپی کیوں نہیں پہنی
خرگوش نے روتے ہوے کہا سر کل بھی بتایا

#پیرس_کی_ٹوپی
تھا کہ کان لمبے ہیں نہیں پہن سکتا
چیتے نے کہا: اوکے گیٹ لاسٹ

تیسرے دن فیر چیتے نے سیم حرکت کی تو خرگوش شیر کے پاس گیا اور ساری کہانی بتائی ۔
شیر نے چیتے کو بلایا اور کہا ایسے تھوڑی چیک کرتے ہیں اور وی سو طریقے ہیں
جیسے تم خرگوش کو بلاؤ اور کہو جاؤ

#پیرس_کی_ٹوپی
Read 7 tweets
5 Apr
جنابِ سقراط

سقراط! نے جو دنیا کا پہلا فلسفی شمار کیا جاتا ہے، کوئی کتاب نہیں لکھی، کیونکہ وہ لکھنا نہیں جانتا تھا۔ سقراط انتہائی بدصورت تھا اور اس کے شاگرد نے اس کی مثال ایک ایسے مجسمے سے دی تھی۔ جو اوپر سے تو نہایت مضحکہ خیز ہوتا ہے، لیکن اس کے اندر دیوتا کی تصویر ہ
وتی ہے۔ سقراط کی ماں دایہ تھی جبکہ باپ مجسمہ ساز تھا۔سقراط کبھی پیسہ کمانے کے بارے میں سنجیدہ نہ تھا کیونکہ اس کی بیوی ہر وقت لڑتی رہتی تھی۔ سقراط نے اس کا کبھی برا نہیں مانا ...
سقراط کا ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھنے والا شاگرد کیٹو لکھتا ہے کہ :
" ایک روز میں سقراط کے گھر گیا تو دیکھا کہ سقراط مکان کی دہلیز پر بیٹھا تھا، اور اس کی بیوی اس کو برا بھلا کہہ رہی تھی سقراط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جب اسکی بیوی نے دیکھا کہ سقراط آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا تو وہ غصہ سے مکان کے اندر گئی اور پانی بھرا ہوا تسلا لا کر سارا
Read 23 tweets
4 Apr
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔
سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا
اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے
اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے
شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت
خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے آئی-پیڈ-III لے دے، میں بھی ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے امی ابو کی عیاشی لگی ہوئی۔ چلو ابو کا ٹیبلٹ تو آفیشل ہے پر امی نے جو دھوم مچائی ہوئی وہ۔ میں آئی-پیڈ-III لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد
Read 8 tweets
3 Apr
مالدیپ جو صرف 2 ماہ میں بدھ مت چھوڑ کر پورا مسلمان ملک ہوا !
مالدیپ بحر ھند میں واقع ایک سیاحتی ملک ہے، یہ ملک 1192 چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 200 جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے۔
مالدیب کی ٪100 آبادی مسلمان ہے جب کہ یہاں کی شہریت لینے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔
عجیب بات یہ ہےکہ مالدیب بدھ مت کے پیروکاروں کا ملک تھا صرف 2 ماہ کے اندر اس ملک کا بادشاہ،عوام اور خواص سب دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
یہ واقعہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے مالدیب کی سیاحت کے بعد اپنی کتاب میں لکھا ہے ابن بطوطہ ایک عرصے تک مالدیب میں بطور قاضی کام کرتے بھی رہے ہیں۔
وہ اپنی کتاب ' تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأمصار ' میں لکھتے ہیں کہ
مالدیب کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے اور حد درجہ توہم پرست بھی اسی بدعقیدگی کے باعث ان پر ایک عفریت (جن) مسلط تھا، وہ عفریت ہر مہینہ کی آخری تاریخ کو روشنیوں اور شمعوں کے جلو میں سمندر کی طرف سے
Read 9 tweets
2 Apr
ایک گاؤں میں ایک باپردہ خاتون رہتی تھیں، جن کی ڈیمانڈ تھی کہ شادی اس سے کریں گی جو انہیں باپردہ رکھے گا۔ایک نوجوان اس شرط پر نکاح کے لیے رضامند ہوجاتا ہے۔
دونوں کی شادی ہوجاتی ہے ۔ وقت گزرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک بیٹا ہوجاتا ہے ۔
ایک دن شوہر کہتا ہے کہ میں سارا دن کھیتوں
میں کام کرتا ہوں ۔ کھانے کے لیے مجھے گھر آنا پڑتا ہے جس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے تم مجھے کھانا کھیتوں میں پہنچا دیا کرو ۔
بیوی راضی ہوجاتی ہے۔
وقت گزرتے گزرتے ایک اور بیٹا ہوجاتا ہے
جس پر شوہر کہتا ہے کہ اب گزارا مشکل ہے تمہیں میرے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹانا پڑے
گا۔ یوں وہ باپردگی سے نیم پردے تک پہنچ جاتی ہے۔اور تیسرے بیٹے کی پیدائش پر اس کا شوہر مکمل بے پردگی تک لے آتا ہے۔
وقت گزرتا رہتا ہے یہاں تک اولاد جوان ہوجاتی ہے۔ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے شوہر ہسنے لگتا ہے۔بیوی سبب پوچھتی ہے۔
تو کہتا ہے کہ بڑا تو پردہ پردہ کرتی تھی آخر
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(