حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہے کہ میں نے توحید اپنے پڑوسی کے ذریعے سیکھی پوچھا گیا وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔ ایک دِن میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا قرآن شریف کی تلاوت کر رہا تھا پڑوس سے لڑنے جھگڑنے کی آواز آئی میں نے جب غور سے سنا تو پتہ چلا کہ بیوی اپنے شوہر
سے جھگڑ رہی تھی یہ کہہ کر کہ۔۔۔۔۔۔۔میں نے تمہارے خاطر کئی تکلیفیں برداشت کی، بھوکے رہ کر بھی دِن گزارے، ہمیشہ سادہ لباس پہنا، ہر دکھ سکھ میں تمہارا ساتھ دیا اور میں اب بھی تمھارے خاطر ہر دکھ ہر تکلیف برداشت کرنے کیلئے تیار ہوں۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر تم یہ چاہو کہ
میرے سوا کسی اور سے نکاح کرلو تو پھر میرا تمھارے ساتھ گزار نہیں ہو سکتا پھر میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں رہ سکتی۔۔۔۔۔۔۔میں نے جب یہ باتیں سنی اور پھر قرآن پر نظر ڈالی تو قرآن مجید کی یہ آیت میرے سامنے آئی "اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغۡفِرُ اَنۡ يُّشۡرَكَ بِهٖ
وَيَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰ لِكَ لِمَنۡ يَّشَآءُ ۚ " اِس آیت میں "اللّٰہ" اپنے بندوں سے فرماتے ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔ اے بندے جو بھی گناہ لے کر آئے گا میں چاہوں گا تو سب گناہ معاف کر دوں گا لیکن اگر میری محبت میں کبھی کسی کو شریک بنائے گا تو پھر میرا تیرا گزارا نہیں ہو سکتا۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
سلطان احمد سنجر سلجوقی ، سلجوق سلطنت کے ایک عظمت و شان والے بادشاہ اور سلجوق خاندان کے چھٹے سلطان اور سلطان الپ ارسلان کے پوتے تھے۔
ان کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے :
احمد سنجر بن ملک شاہ اوّل بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق بن دقاق۔
ان کی والدہ ایک لونڈی تھی اور اُن کا نام تاج الدین خاتون الصفریہ تھا، جو سلطان ملک شاہ بن الپ ارسلان کی غلام تھی۔
سلطنت :
ملک شاہ سلجوقی کا تیسرا بیٹا تھا اس کی حکومت خراسان ، غزنی ، خوارزم اور ماوراءالنہر تک پھیلی ہوئی تھی۔
اور اس کا نام
کظبہ ، مین ، ایران ، آرمینیا ، آذر بائیجان ، موصل ، دیار ربیعہ ، دیار بکر اور حرمین تک پڑھا جاتا تھا۔
1092ء میں خراسان پر قابض ہوا اس کے بعد فارس کا بادشاہ بھی تسلیم کیا گیا، سلطان سنجر نے غزنوی خاندان کے بادشاہ بہرام شاہ کو خراج گزار بنا لیا علاؤ الدین
امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک شخص اپنے دوست کے پاس گیا اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا.....،
دوست نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا کہ مجھ پر چار سو درہم قرض ہیں؛ دوست نے چار سو درہم اس کے حوالے کر دیے اور روتا ہوا (گھر کے اندر) واپس آیا!
بیوی نے کہا کہ اگر ان درہموں سے تجھے اتنی محبت تھی تو دیے کیوں؟
اس نے کہا کہ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ مجھے اپنے دوست کا حال اس کے بتائے بغیر کیوں نہ معلوم ہو سکا حتی کہ وہ میرا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو گیا-
(انظر: احیاء العلوم الدین، اردو، ج3، ص843)
امام غزالی مزید لکھتے ہیں کہ دوستی کو نکاح کے تعلق کی طرح تصور کرنا چاہیے کیوں کہ اس میں بھی حقوق ہیں- جو چیز ضرورت اور حاجت سے زائد ہو اسے بنا مانگے اپنے دوست کو دے دے؛ اگر اسے مانگنے اور کہنے کی نوبت آئے تو یہ دوستی کے درجے سے خارج ہے-
امیر العزیز محمد ایوبی ،ایوبی سلطان ظاہر غازی کے بیٹے اورعظیم سلطان فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے تھے-
1216 میں آپ کے والد الظاہر غازی کا 45 سال کی عمر میں انتقال ہوا توآپ کی عمر صرف 3 سال تھی اور مجبوراً آپ کو والد کی جگہ تخت سنبهالنا پڑا-
آپ کی والدہ کا نام داٸفہ خاتون (Dayfa Hatun) تھا جو عظیم سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھاٸی عادل غازی کی بیٹی تھی- العزیز کی ایک بہن بھی تھی-
اتنی کم عمری میں آپ سلطنت کے امور چلا نہیں سکتے تھے لہذا ایک کمیٹی تشکیل دی گٸ جس میں شہاب الدین
طغرل کو آپ کا مشیر اور وزیر مقرر کیا گیا-17سال کی عمر تک پہنچنے پر العزیز نے سلطنت کا مکمل کنٹرول حاصل کیا-
آپ نے اپنے قلیل دور حکومت میں کٸ شاندار مساجد ، قلعے، اور مدارس بنواٸیں-بدقسمتی سے مملوک سلطان الکامل اور حلب کی مشترکہ فوج کے سلجوق
ہارون رشید کی بیوی زبیدہ رحمتہ اللہ بہت ہی دیندار صاحب علم و فضل خاتون تھیں ان کے محل میں ایک ہزار با ندیاں چو بیس گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول رہتی تھیں۔ ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں پانی کی شدید قلت ہو گئی اور پانی کا ایک مشکیزہ دس درہم سے لیکر ایک دینار تک بک گیا
حجا ج اکرام کو بہت تکلیف اٹھانی پڑی ۔ زیبدہ رحمتہ اللہ علیہا کو جب اس کی خبر ہوئی تو ان کو بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے اپنے انجنیروں کو جمع کر کے حکم دیا کہ کسی طرح مکہ مکرمہ کے لیے پانی کا بندوبست کرو اور پانی کے چشمے تلاش کرو چنانچہ انہوں نے کافی تگ و دو
سے ایک چشمہ طائف کے راستے میں اور دوسرا چشمہ نعمان وادی میں دریافت کیا۔ لیکن ان کا پانی مکہ مکرمہ تک پہنچانا بڑا جان جوکھوں کا کام تھا راستے میں پہاڑیاں تھیں جن کو کھودنا انتہائی دشوار تھا لیکن اس نیک خاتون نے حکم دیا کہ جتنا بھی خرچ ہو مکہ
سانپ ایک لمبا٬ لچکدار اور خطرناک جانور ہے- دنیا بھر میں سانپوں کی 2900 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے تقریباً 400 انتہائی زہریلی ہیں- سانپ چوہوں٬ پرندوں٬ چھوٹے ہرن٬ رینگنے والے جانوروں کے علاوہ انسان کو بھی اپنا
شکار بناتے ہیں- سانپ اپنے سر کے قطر سے دو گنا زائد بڑے جانور کو نگلنے کی صلاحیت رکھتا ہے- لیکن ہم یہاں ڈوئچے ویلے کے توسط سے جن سانپوں کا ذکر کرنے جارہے ہیں وہ دنیا کے انوکھے اور ریکارڈ بنانے والے سانپ ہیں-
سب سے زیادہ زہریلا سانپ
شمالی آسٹریلیا میں
پایا جانے والا ’اِن لینڈ ٹائی پین‘ نامی یہ سانپ دنیا میں سب سے زیادہ زہریلا سانپ ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ ایک مرتبہ ڈنگ مارنے پر جتنا زہر خارج ہوتا ہے، اُس سے تقریباً 100 لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔ اس سانپ کا زہر اعصابی نظام، خون اور عضلات کو متاثر کرتا ہے۔