حضرت سعد بن سعنہ رضی اللہ عنہ جو پہلے ایک یہودی عالم تھے انہوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ کھجوریں خریدی تھیں۔ کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ اُنہوں نے بھرے مجمع میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی تلخ و ترش لہجے میں سختی کے ساتھ تقاضا
میں بہت ہی مالدار آدمی ہوں میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں اپنا آدھا مال رسول ﷺ کی امت پر صدقہ کرتا ہوں ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺩﺍﻣﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﮯ۔
ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﺓ ﺝ۱ ﺹ۲۳ ﻭ ﺯﺭﻗﺎﻧﯽ ﺝ۴ ﺹ۲۵۳
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
1965ء کی جنگ ختم ہونے کے چند ماہ بعد مدینہ منورہ میں ایک عمر رسیدہ پاکستانی خاموش بیٹھا آنسو بہاتے ہوئے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ یہ پاکستانی 11 ستمبر 1965ء کو سیالکوٹ پھلورا محاذ پر شہید ہونے والے کوئٹہ انفنٹری سکول کے انسٹرکٹر میجر ضیاء الدین عباسی
(ستارہ جراُت) کے والد گرامی تھے۔ میجر ضیاء الدین عباسی کے ٹینک کو دشمن کی توپ کا گولہ لگا جس سے وہ شہید ہوگئے۔ جب صدر ایوب خان کی طرف سے میجر عباسی شہید کے والد اپنے شہید بیٹے کو بعد از شہادت ملنے والا ستارہ جرات وصول کر رہے تھے تو ایوب خان
نے ان سے ان کی کوئی خواہش پوچھی، تو انہوں نے عمرہ کی خواہش کا اظہار کیا جسے ایوب خان نے فورا” قبول کر لیا۔ شہید میجر ضیاءالدین عباسی ستارہ جرات کے والد جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلام کے سامنے بیٹھے آنسو بہا رہے تھے تو خادم مسجد نبوی وہاں آئے اور
مدینہ کا بازار تھا، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے. ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا. غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا. تاجر کا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی
نہیں دکھا رہا تھا ---تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے. اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا, اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا بیچ دے گا --- مدینہ
کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے. تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا. اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی --- مکہ سے ابو حذیفہ
فتح مکہ کے ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مکان کی دیوار سے ٹیک لگائے اپنے کسی غلام کے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے اور وہ مکان ایک کافرہ عورت کا تھا ۔اس نے جب حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ( ﻣُﺒﺎﺭﮎ ) ﺳُﻨﯽ ﺗﻮ ﺑُﻐﺾ ﻭ
ایک غریب دیہاتی، بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں، انگوروں سے بھری ایک رکابی کا تحفہ پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا۔ کملی والے آقا نے رکابی لی، اور انگور کھانے شروع کیئے۔ پہلا دانہ تناول فرمایا اور مُسکرائے۔ اُس کے بعد دوسرا دانہ کھایا اور پھر مُسکرائے۔ اور وہ بیچارہ غریب
دیہاتی،،،، آپ کو مسکراتا دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال صحابہ سارے منتظر، خلاف عادت کام جو ہو رہا ہے کہ ہدیہ آیا ہے اور انہیں حصہ نہیں مل رہا۔۔۔ سرکار علیہ السلام، انگوروں کا ایک ایک دانہ کر کے کھا رہے ہیں اور مسکراتے جا رہے ہیں۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔۔۔۔ آپ نے
انگوروں سے بھری پوری رکابی ختم کر دی۔۔ اور آج صحابہ سارے متعجب!!!! غریب دیہاتی کی تو عید ہو گئی تھی۔۔۔۔ خوشی سے دیوانہ۔۔۔ خالی رکابی لیئے واپس چلا گیا۔صحابہ نہ رہ سکے۔۔۔۔ ایک نے پوچھ ہی لیا، یا رسول اللہ؛ آج تو آپ نے ہمیں شامل ہی نہیں کیا؟ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم
یہ Bagworm Moth کی تصویر ہے۔ یہ کیڑوں کی دنیا کا ایک وہ نایاب کیڑا ہے جو فن تعمیر کا ماہر ہے۔ جونہی یہ کیڑا آپنے انڈے سے باہر آتا ہے یہ آپنے اردگرد سلک کوکون کی چادر لیپٹ لیتا ہے اس چادر کے اندر یہ اتنی دیر تک رہتا ہے جب تک یہ جوان نا ہو۔
آپنی زندگی کو دوسرے شکاری جانوروں
سے محفوظ بنانے کی خاطر یہ کیٹر پیلر آپنی سلک کوکون کو مزید مضبوط کر لیتا ہے ان چھوٹی چھوٹی درختوں کی ٹہنیوں سے یا جو کچھ بھی اسے میسر ہو آپنے آس پاس کے ماحول سے۔ جب اس کا یہ ڈھانچہ یا لاگ ہاوس تیار ہوتا ہے تو اسے cases کہتے ہیں جس کی وجہ
سے یہ moth زیادہ تر "case moths” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ان ٹہنیوں کو بڑھی خوبصورتی سے کاٹتا ہے آپنے منہ سے اور اس لاگ ہاؤس کی صورت میں ایک دوسرے سے جوڑ دیتا ہے اوپر نیچے آپنے جسم کے اوپر۔۔۔
اس موٹھ کے یہ cases جب تیار ہو جاتے ہیں تو
ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی ملکہ زبیدہ بنت جعفر فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آئیں۔ انہوں نے جب اہل مکہ اور حُجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں سخت افسوس ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم
دے کر ایک ایسا فقید المثال کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
ملکہ زبیدہ کی خدمت کے لئے ایک سو نوکرانیاں تھیں جن کو قرآن کریم یاد تھا اور وہ ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ ان کے محل میں سے قرات کی آواز شہد کی مکھیوں کی
بھنبھناہٹ کی طرح آتی رہتی تھی۔
ملکہ زبیدہ نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ میں ایک نہر نکلوانے کا ارادہ کیا۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر