اللہ عزوجل نے اپنے اس برگزیدہ بندے یعنی علی بن ابی طالب ؓکوگوناگوں اوصاف وکمالات سے نوازاتھا،انکی شخصیت میں جامعیت وہمہ گیری نمایاں نظرآتی تھی،اس چیزکامختصرتذکرہ درجِ ذیل ہے
شجاعت وبہادری کے لحاظ سے حضرت علی ؓ کی شخصیت کاجائزہ لیاجائے توہم دیکھتے ہیں کہ میدانِ کارزارمیں وہ ہمیشہ پیش پیش نظرآتے رہے،رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ،ہرموقع پرحضرت علیؓ شریک رہے بلکہ پیش پیش رہے
اورجرأت وشجاعت کے بے مثال کارنامے دکھاتے رہے…سوائے غزوۂ تبوک کے (سن ۹ ہجری میں ) کیونکہ اُس موقع پرآپ ﷺ نے تبوک کی جانب روانگی کے وقت مدینہ میں حضرت علیؓ کواپنے اہلِ بیت کی حفاظت وخبرگیری کی ذمہ داری سونپی تھی،
تب حضرت علیؓ نے عرض کیاتھاکہ : یَا رَسُولَ اللّہ، ھَل تُخَلِّفنِي فِي النِّسَائِ وَ الصِّبیَان؟یعنی’’اے اللہ کے رسول!کیاآپ مجھے عورتوں اوربچوں میں چھوڑے جارہے ہیں ؟‘‘
(۲) یعنی’’اے علی!کیاآپ کویہ بات پسندنہیں کہ آپ کی میرے ساتھ وہی نسبت ہوجوہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی…؟ ہاں البتہ یہ کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہے‘‘۔
(۳)الغرض غزوۂ تبوک کے موقع پرخودرسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت علی بن ابی طالب ؓ شریک نہیں ہوئے تھے…جبکہ اس کے سواباقی ہرغزوے میں آپؓ شریک رہے ،بلکہ پیش پیش رہے ،اورشجاعت وجرأت کے بے مثال جوہردکھاتے رہے۔
خصوصاً(سن سات ہجری میں )غزوۂ خیبرکے موقع پرحضرت علیؓ کاکردارہمیشہ ناقابلِ فراموش تصورکیاجاتارہے گا…جب اسلامی لشکرکی وہاں آمدکے موقع پرخیبرکے یہودی قلعہ بندہوکربیٹھ گئے تھے،محاصرہ کافی طول پکڑچکاتھا،
آخرایک روزرسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’لَاُعطِیَنَّ الرّایَۃَ غَداً رَجُلاً یُحِبَّ اللّہَ وَ رَسُولَہٰٗ وَ یُحُبُّہُ اللّہُ وَ رَسُولُہٗ‘‘
یعنی ’’کل میں جھنڈاایسے شخص کوعطاء کروں گاجواللہ اوررسول سے محبت کرتاہے ٗ اوراللہ اوررسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں ‘‘ #حیدرکرار_شیرخدا
رضی اللہ عنہ #سرمایہ_زیست ⬇️
ظاہرہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ بہت بڑی خوشخبری تھی ،اوربہت بڑی گواہی تھی اُس شخص کے بارے میں کہ جسے کل علم سونپاجاناتھااورسپہ سالاری وقیادت کی ذمہ داری جس کے حوالے کی جانی تھی …
اس کے حق میں یہ بہت بڑی گواہی تھی کہ وہ’’ اللہ اوررسولؐ سے محبت کرتاہے، نیزاللہ اوررسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں ‘‘۔
چنانچہ لشکرمیں موجودبڑے بڑے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وہ رات اسی آرزو میں گذاری کہ
کاش کل صبح رسول اللہ ﷺ میرانام پکاریں …اورجب صبح کاسورج طلوع ہوا، تورسول اللہ ﷺ کی آوازگونجی’’أینَ عَلي؟‘‘ یعنی ’’علی کہاں ہیں ؟‘‘ تب حضرت علی ؓ حاضرِخدمت ہوئے ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے انہیں عَلَم (جھنڈا) عطاء فرمایا،
نیزفتح اورخیروبرکت کی دعائیں دیتے ہوئے انہیں رخصت فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ اسلامی لشکرکی قیادت کرتے ہوئے دشمن کی جانب پیش قدمی کرنے لگے،آمناسامناہوا،
کافی سنسنی خیزاوراعصاب شکن قسم کی جنگ لڑی گئی۔
اس موقع پریہودی فوج کی قیادت ’’مرحب‘‘نامی شخص کررہاتھا ٗجس کابڑارعب اوردبدبہ تھا،اورجس کی بہادری کے بڑے چرچے تھے…مزیدیہ کہ وہ اُس دورکابڑانامی گرامی پہلوان بھی تھا۔
چنانچہ اس نے انتہائی غروروتکبرکے ساتھ حضرت علی ؓ کوللکارا،جواب میں حضرت علی ؓ نے اس پرایسابھرپوروارکیاکہ غروروتکبرکاوہ پتلا… پلک جھپکتے میں ہی زمیں بوس ہوگیا،
خلاصۂ کلام یہ کہ تمام غزوات کے موقع پر ٗ بالخصوص’’غزوۂ خیبر‘‘کے موقع پرحضرت علی بن ابی طالب ؓ کی خدمات ٗجرأت وشجاعت ٗاورجذبۂ سرفروشی یقیناتاریخِ اسلام کاسنہری باب ہے۔
ترمذی شریف میں ارشادِ نبوی ہے:
’’بہترین دعاء وہ ہے جو یوم عرفہ میں مانگی جائے۔ میں نے اورمجھ سے پہلے انبیاء نے جو دعائیں کی ہیں، ان میں سے افضل دعاء یہ ہے :
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ
’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اوراسکا کوئی شریک نہیں سارے جہاں کی بادشاہی اورہر قسم کی تعریف اسی کیلئے ہے اوروہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
حجاج کو چاہئے کہ یہ دعاء اورایسی ہی قرآن وسنت سے ثابت شدہ ومسنون دعائیں مانگیں ۔ مذکورہ دعاء کے علاوہ اس دن کیلئے کوئی مخصوص دعاء ثابت نہیں جبکہ طواف اور سعی کی طرح عرفات کی دعائوں کی بھی مطبوعہ کاپیاں بکتی ہیں ،
[1] میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے اور دوسری جگہوں میں اس دن روزہ رکھنا کار ثواب ہے اور عیدین میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا
حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی ہدایت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ صدیق ہوجاتا ہے اور جھوٹ بدکاری کی طرف اور بدکاری دوزخ کی طرف لے جاتی ہے
سمرہ بن جندبؓ روایت کرتے ہیں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ شخص جس کو تم نے معراج کی رات میں دیکھا تھا
اندھے پر لنگڑے پر بیمار پر اور خود تم پر ( مطلقاً ) کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے
1 #حیدرکرار_شیرخدا
رضی اللہ عنہ #سرمایہ_زیست @Gu_143
2
النور۔ 61
یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو
یا اپنے دوستوں کے گھروں سے تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ ۔ پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کر لیا کرو ، #حیدرکرار_شیرخدا
رضی اللہ عنہ #سرمایہ_زیست @Gu_143