انٹر نیشنل میڈیا اور پاکستانی میڈیا میں فرق۔۔
---------------------------------------------------------------
تمام ممالک کا میڈیا اپنے ملکوں میں کی خارجہ پالیسی کو فالو کرتا ہے۔ مثلآ 1- اسرائیلی بیانیہ کہ فلسطینی مسلمانوں کی پاکستان مدد کر رہا ہے۔ اس کا میڈیا کور کر رہا ہے۔
2- انڈیا کی حکومت کا کہنا کہ پاکستان کشمیر اور انڈیا کے اندر دخل اندازہ کر آیا ہے۔ اپنے میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ 3- افغانستان میں مجاہدین کی مدد پاکستان کر تا ہے۔امریکہ کا میڈیا اپنے ملک کی خارج پالیسی کے ذریعے اچھالتا ہے۔۔
پاکستانی میڈیا کی اکثریت بھی دشمن ممالک
کی پالیسی پہ عمل پیرا نظر آرہی ہے۔ پاکستانی ریاست کی فارن پالیسی کو کبھی پرموٹ نہیں کیا۔ اپنے ہی قومی اداروں کے خلاف تابڑ توڑ حملے کر کے دشمن کے بیانیہ کو تقویت پہنچانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ وقت آ گیا یے۔ کہ ہم اپنی ریاست سے پیار کریں۔ جس میں رہ کر ہر طرح کی سہولیات میسر
میسر ہیں۔ پاکستان کے میڈیا ہاؤسز کو اپنی پالیسی پہ نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اور ایسے افراد کو مواقع مہیا کرنا چاہئے۔ جو انٹرنیشنل حالات کو سمجھتے اور ملک و قوم سے پیار کرتے ہوں۔
پاکستان زندہ باد۔پاکستسن پائندہ باد
# قلمکار
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
قومی مفاد کے تحفظ والا لیڈر ضدی یا قومی ہیرو ؟
-----------------------------------------------------------------
انگریزی سے آزادی کے حصول کے وقت پاکستان کا مقدمہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ لڑ رہے تھے۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ویول نے قائد اعظم کو ،مڈائل پر گفتگو کیلئے
دفتر آنے کی دعوت دی۔ گفتگو کےدوران لارڈ ویول نے قائد اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔کہ انڈیا میں اگر ایک ( ہندو ) ڈپٹی گورنر ہو سکتا ہے تو دو بھی ہو سکتے ہیں۔ قائد اعظم زیرک سیاستدان اور وکیل تھے ۔ انگریز کی بات کا مطلب سمجھ گئے۔ کہ انہیں خریدنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ قائد اعظم
بغیر جواب دینے اٹھے اور باہر چل دیئے۔لارڈ ویول باہر گیٹ تک ایا۔ قائد اعظم نے فرمایا۔اگر دوبارہ بات چیت کرنی ہو۔تو میرے دفتر تشریف لانا۔ لارڈ ویول نے اس ملاقات کا اپنی کتاب میں حوالہ دیتے ہوے لکھا۔کہ قائد اعظم ایک " ضدی " سیاست دان تھے۔ کیونکہ قائد اعظم نے قومی امانت کا تحفظ کیا۔
پاکستان کی ترقی کا سفر اور عوامی رد عمل ۔۔۔۔
---------------------------------------------------------------
ریاست پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آئی تو پاکستان کے وسائل کیا تھے اور آج کیا ہیں ؟ تو ریاست پاکستان کی ترقی کا اندازہ لگانے میں آسانی رہے گی۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے۔ کہ
پاکستان کو متحدہ ہندوستان کے اثاثہ جات میں سے کچھ بھی نہیں ملا۔ مزید برآں لٹے پٹے مہاجرین ،انڈین علاقوں سے پاکستان تشریف لائے تو رہائش کا بندوبست، کھانے پینے کی زمہ داری میں ،، مقامی لوگوں نے اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہاتھ بٹایا. دفاتر میں نہ میز کرسی اور نہ ہی سٹیشنری تھی۔
یہی حال تعلیمی اداروں کا تھا۔ دفاعی اداروں کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔۔۔1970 تک 80٪ گھروں میں بجلی نہیں تھی۔ جہاں تھی وہاں گرمی کے تدارک کیلئے، سیلنگ پنکھے تھے۔ سفر کیلے سائیکل اور گھروں میں فون کا ہونا امارت کی نشانی تھی. آج الحمدللہ ہمارے ہر شہری کے پاس موبائل فون، کار
پاکستان دنیا کا بہترین ملک ،تصویر کا صحیح رخ۔
-----------------------------------------------------------------
پاکستان کی بابت منفی پراپیگنڈے کی جنگ عروج پر ہے۔ جس میں ہمارا میڈیا صف اول کا رول ادا کر رہا ہے۔ اس سے پہلے غیر ممالک کا میڈیا اور مختلف تنظیمیں سروے کے ذریعے باقر
کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ کہ پاکستانی طلباء ( برطانیہ و دیگر مغربی ممالک میں) لوکل کمیونٹی کے علاؤہ ، ہندو ،سکھ اور دوسری اقلیتوں سے بہت پیچھے ہیں۔ جبکہ حقائق اس کے منافی تھے۔
نیو ورلڈ آرڈر کے بعد ہندوؤں کو پاکستانیوں پر ترجیح دینے کی پالیسی اپنائی گئی۔ اس کے باوجود
پاکستانی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہے ہیں۔
گلف نیوز میں شائع ہونے والے چند حقائق جو کوئی مغربی نیوز ایجنسی یا تنظیم شائع نہیں کرے گی۔ 1- کیمبرج کے O & A level امتحانات میں پاکستانی طلبا کے ٹاپ کرنے کا ریکارڈ ابھی تک قائم ہے 2- پاکستان ان 11 ممالک کی صف میں شامل ہے۔جو
غیر ملکی انویسٹمنٹ کیلئے وزیراعظم کی دلچسپی۔۔ @ImranKhanPTI@SHABAZGIL
------------------------------------------------------------------
بیرونی دنیا میں عمران خان کی شہرت ایک محنتی، دیانتدار اور دلیر انسان کی ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد ، پاکستان میں غیر ملکی انویسٹمنٹ لانے کے
لئے شفافیت اور سرخ فیتہ کا خاتمہ اور بورڈ آف انویسٹمنٹ میں چیرمین شپ کیلئے بہترین شخص ہارون شریف کا انتخاب کیا۔ ان کے مستعفیٰ ہونے کے بعد آنے والے افراد بھی عہدہ سے مستعفیٰ ہونے۔ ۔۔
بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ذریعے غیر ملکی انویسٹمنٹ لانے کیلئے ضروری ہے۔ کہ
پرائم منسٹر ہاؤس میں ، بورڈ آف انویسٹمنٹ کیلئے ایک مستقل چیر ہو۔ جو بورڈ اور وزیراعظم میں رابط کی زمہ دار ہو۔
وزیراعظم کی مصروفیات اور غیر ملکی انویسٹر کو accommodate کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سلسلہ میں جلد فیصلہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ # قلمکار
برطانیہ،مقامی حکومت ، نظام صحت عامہ قسط 2..
-----------------------------------------------------------------
مریض کو ہیلتھ سنٹر میں ڈاکٹر چیک کرنے کے بعد دوائی پریسکرایب کرتے ہیں۔ جو مقامی کیمسٹ سے حاصل کی جاتی ہیں۔ 16 سال کی عمر تک، پنشنرز، کام نہ کرنے والے اور فل ٹائم سٹوڈنٹس
کو مفت جبکہ کام کرنے والے اور کاروباری افراد کو دوائیوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔۔۔۔ہستال میں قیامبکےبدورسن بھی مفت دوا اور رہائش کی سہولتیں میسر ہیں۔
ہیلتھ سنٹرز اور ہسپتالوں میں میڈل سٹاف کے ہمدردانہ تویہ سے مریض کی آدھی تکلیف دور ہو جاتی ہے۔ سٹاف کی ٹریننگ اور سزا و جزا کا
انتظام ہے۔ مختلف ڈیپارمنٹسچکی آپس میں کوارڈینیشن مثالی ہے۔ 8 گھنٹہ ڈیوٹی مریض کی دیکھ بھال اور آرام دہ بنانے کیلئے مختصص ہوتی ہے۔
ہیلتھ کیئر کا انتظام نیشنل ٹرسٹ کے زمہ داری ہے۔ جس میں مینیجمینٹ ایکسپرٹ مقامی ٹرسٹ کا CEO ہوتا ہے۔ جو اپنے عملہ اور کلینیکل عملہ ( میڈیکل سٹاف ) کے
برطانیہ، مقامی حکومتیں۔بنیادی صحت عامہ کا نظام
------------------------------------------------------------------
برطانیہ میں بنیادی صحت عامہ کی سہولتیں ڈاکٹرز سرجری ، جو اجکل ہیلتھ سنٹر کہلاتی ہے۔ کو فراہم کر رہی ہیں۔محکمہ ہیلتھ ہر شہری کو ہیلتھ کارڈ ایشو کرتا ہے۔ جس پر اس کا
نام ، تاریخ پیدائش اور پتہ درج ہوتا ہے۔ شہری اپنے نزدیکی ہیلتھ سنٹر میں رجسٹر ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کی بیماری کی صورت میں، ہیلتھ سنٹر میں اپائنٹمنٹ لے کر ڈاکٹر سے مل سکتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس مریوض کا ہیلتھ ریکارڈ ہوتا ہے۔ جو کلینیکل رپورٹ clinical report کی شکل میں سابقہ ریکارڈ ظاہر
کرتا ہے۔ کس دن،وقت ، بیماری کی تشخیص اور تجویز کردہ دوائ کی شکل میں ہوتا ہے۔ مزید چیک اپ کیلئے ڈاکٹر ہسپتال کو ریفر کرتے ہیں۔ ہسپتال کا ریکارڈ بھی ہیلتھ سنٹر کو مل جاتا ہے۔ جو اس کے ریکارڈ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔۔
ایمرجنسی اور ہیلتھ سنٹر بند ہونے کی صورت میں