کچھ سمجھ نہیں آتا کہ انسان کہاں جائے۔ بچپن سے دیکھا کہ ابو نے آفس سے آنا۔تو امی نے لپ اسٹک لگا کر پرفیوم لگ کر ریڈی ہو جانا۔ ساتھ میں ہم بھی چیک ہوتے تھے۔ منع کیا ہوا تھا کہ ابو کے آتے ہی لڑنا نہیں ہے
کوئی فرمائش نہیں کرنی ہے۔ پیار سے ملنا ہے اور ان کو نہا دھو کر فریش ہونے دینا
پھر ان سے کوئی فرمائش یا ہوم وورک کی بات کرنی ہے۔
امی نے باقاعدہ سکھایا ہمیں کہ ہر بات کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ منوانے کا۔ سکون سے ۔ پیار سے۔ ابو بہت غضے والے مانے جاتے تھے مگر ہم نے کبھی امی ابو کو اونچی اواز میں بات کررے نہیں دیکھا تھا۔ امی ہی ہر فیصلہ کرتی تھیں اور ابو سے منوانا
ان کا ہی کام تھا۔
امی سارے کاموں سے گیارہ بجے فارغ ہو جاتی تھیں۔ صفائی والی سے صفائی۔ کپڑے واشنگ مشین میں۔ اور پھر کسی دوست کے گھر یا فون پر گپیں۔زیادہ کام نہیں ہوتا تھا۔دوپہر کو سوتی بھی تھیں۔ مہینے میں کئی بار دوستوں کی گیدرنگ بھی ہوتی تھی۔ اور گرمیوں کی چھٹیوں میں پھوپھو بمع
فیملی آ کر رہتی تھیں۔ اکثر چاچو بھی رہتے اور راتوں کو تاش کی گیم چلتی لیٹ نائٹ تک۔ خالہ، ماموں اور نانی بھی اتے تھے۔ابو کی ایک عام سی پرائیویٹ جاب تھی۔ سب بچے پرائیوٹ سکولوں میں پڑھ رہے تھے۔۔ہاتھ تنگ ہی دیکھا ہم نے مگر نہ گھر میں ٹینشن ہوتی تھی نہ کھچ کھچ۔ اور یہی ہم نے سیکھا۔
ایسا ہی گھر بنانے کا خیال تھا میرا بھی جب شادی ہوئی۔ ایسا ہی اپنے شوہر کا خیال رکھا۔ جس قدر ہو سکا۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ اپنی بیٹی کو کیا سکھانا ہے؟ یہاں ایک نے یہی باتیں کی ہیں تو سب لوگ اس کا مزاق اڑا رہے ہیں ۔۔۔کل کو میری بیٹی بھی ایسے بولے گی تو اس کا مزاق اڑے گا یا اس کو
کہوں کہ ایسا نہ کرے یا کرتی رہے مگر لوگوں کے سامنے کچھ اور بولا کرے۔
کیوں ہم ان تمام عورتوں کا مزاق اڑا رہے ہیں جو آج بھی اپنی مرضی سے اپنے گھر کو ایک پرسکون گوشہ بنا رہی ہیں۔ اپنے شوہر کی خدمت میں خوش ہیں۔ جو جاب کرنا چاہتی ہیں۔۔۔جو کچھ اور کرنا چاہتی ہیں۔۔۔کریں۔۔۔مگر باقیوں
کو زلیل تو نہ کریں۔ کیوں اس بات کا مزاق اڑایا جا رہا ہے۔ کیوں ان لاکھوں عورتوں کی خدمت کو رولا جا رہا ہے جو اپنے شوہر کی خوشی کو آج بھی مقدم رکھتی ہیں۔ رہنے دیں لوگوں کو خوش ہونے دیں۔
بس اپنے بیٹوں کو بتائیں سکھائیں کہ عورت پر یہ فرض نہی ہے بلکہ اس کا احسان ہے۔ اور بیٹی کو بھی۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ایک فرینڈ کا شوہر ہر بار اپنے دوستوں میں بیگم کو بلاتا ہے۔۔۔۔اور کسی نہ کسی بات پر اس کو خوب سناتا ہے۔ وہ حسین، پڑھی لکھی اکلوتی بیٹی۔۔ہنس ہنس کر ٹال دیتی ہے۔۔۔سوری بول دیتی ہے۔۔۔باہر آ کر رو دیتی ہے۔ کہتی ہے طلاق لی تو ماں مر جاے گی دکھ سے۔
میاں نے کہا ساڑھی پہنو۔ اور پینڈو عورتوں کی طرح بڑا بلاوز پہن کر میری بے عزتی نہ کروانا۔
چھوٹا بلاوز اور وہ اتنی حسین۔۔۔سب نے تعریفیں کیں۔ گھر ا کر میاں نے خوب شامت لائی کہ کیوں فلاں فلاں تمہیں ایسے دیکھ رہا تھا۔ ہر بار ایسا ہوتا تھا۔
ایک بہت زہین, حسین MBA دوست۔۔۔کینسر کے مریضوں کے لیے کنسرٹ کرا کر پیسے جمع کرتی تھی۔ عشق ہو گیا۔۔اس بندے نے برقع پہنایا۔۔۔ہر 15 منٹ بعد رپورٹ کرتی کہاں ہے کیا کر رہی ہے۔ مارکیٹ سے انے میں دیر ہو جاتی تو 45 منٹ تک گالیاں دیتا۔۔کہیں جانے کی اجازت لینے کے لیے 20 20 منٹ منتیں کرتی۔
*امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ اپنے بیٹے کو شادی کی پہلی رات 10 نصیحتیں کیں۔*
امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:
"میرے بیٹے! تم گھر کا سکون حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اپنی بیوی کے معاملے میں ان 10 عادتوں کو نہ اپناؤ۔ لہذا ان کو غور سے سنو اور عمل کا ارادہ کرو۔
👈 1- عورتیں تمہاری توجہ چاہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ تم ان سے واضح الفاظ میں محبت کا اظہار کرتے رہو لہذا وقتاً فوقتاً اپنی بیوی کو اپنی محبت کا احساس دلاتے رہو اور واضح الفاظ میں اسکو بتاؤ کہ وہ تمہارے لئے کس قدر اہم اور محبوب ہے اور اس کا وفادار ہے ۔
👈 3- عورتوں کو سخت مزاج اور ضرورت سے زیادہ محتاط مردوں سے کوفت ہوتی ہے لیکن وہ نرم مزاج مرد کی نرمی کا بیجا فائدہ اٹھانا بھی جانتی ہیں لہذا ان دونوں صفات میں اعتدال سے کام لینا تاکہ گھر میں توازن قائم رہے اور تم دونوں کو ذہنی سکون حاصل ہو۔