ایک بوڑھی عورت گواہی دینے عدالت میں پیش ہوئی تو وکیل استغاثہ نے گواہ پر جرح شروع کی
مائی بشیراں، کیا تم مجھے جانتی ہو؟
مائی بشیرا: ہاں قدوس
میں تمہیں اس وقت سے اچھِی طرح جانتی ہوں جب تم ایک بچے تھے
تم جھوٹ بولتے ہو
لڑائیاں کرواتے ہو، اپنی بیوی کو دھوکہ دیتے ہو
طوائفوں کے پاس
1👇
بھی جاتے ہو
تم نے سپر مارکیٹ والے کے دس ہزار ابھی تک نہیں دئے
شراب پیتے ہو
جوا بھی کھیلتے ہو اور تمہارا خیال ہے کہ تم بہت ذہین ہو حالانکہ تمہاری کھوپڑی میں مینڈک جتنا دماغ بھی نہیں ہے
ہاں ہاں میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتی ہوں
وکیل ہکا بکا رہ گیا۔اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب
2👇
کیا پوچھے
گھبراہٹ میں اس نے وکیل دفاع کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا: مائی بشیراں تم اس شخص کو جانتی ہو؟
مائی بشیراں: اور نہیں تو کیا، جیسے میں عبدالغفور کو نہیں جانتی؟
ارے اسے اس وقت سے جانتی ہوں جب یہ ڈائپر میں گھومتا تھا اور سارا محلہ ناک پر ہاتھ رکھ کر اس سے دور بھاگتا تھا
یہ میری پیدائش سے پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا
لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے
مثلا
ہیڈ ماسٹر
فِیس
فیل
پاس وغیرہ
60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں
1👇
کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا" سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا
عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) اسکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی
سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی سکولوں میں
2👇
پیپر جبکہ سرکاری اسکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے
پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے
جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی اور جو ہم جماعت تھے وہ
ہمارا ايک دوست نشے کا عادی ہو گيا ہم چونکہ سمجھدار، پڑھے لکھے سيانے دوست تھے ہم اسے مجبور کرنے لگے کہ تمھیں يہ بری عادت چھوڑ دينی چاہئے، ورنہ ہم تمہارا ساتھ نہيں دے سکيں گے اور ہم تمہارے ساتھ نہيں چل سکيں گے
وہ بيچارہ ايک تو نشے کی
1👇
لعنت ميں گرفتار تھا، دوسرا وہ روز ہماری جھڑکياں سہتا تھا
جس کے باعث وہ ہم سے کنارہ کشی کرنے لگا
محمد نواز جلد ساز بڑے خوبصورت دل کا آدمی تھا ہر وقت مسکراتا رہتا تھا
گو وہ اقتصادی طور پر ہمارے دائرے کے اندر نہيں تھا مگر وہ خوشگوار طبيعت کا مالک تھا
اس نے ايک دن اس آدمی
2👇
(ہمارے دوست ) کا ہاتھ تھام کر کہا بھلے تم نشہ کرو اور جتنا مرضی کرو مجھ اس پہ اعتراض نہيں اور تو چاہے نشہ کرے يا نہ کرے ميں تمھیں چھوڑوں گا نہيں، تو ہمارا يار ہے اور يار ہی رہے گا
اس نے کہا کہ پنجابی کا ايک محاورہ ہے کہ يار کي ياری ديکھنی چاہيے، يار کے عيبوں کي طرف نہيں