والدین کے اکلوتے بیٹے اور دو بہنوں کے اکلوتے پڑھے لکھے بھائی جنید کا اپنے محلے کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہو گیا. ہاتھا پائی ہوئی اور کچھ گالیوں کا تبادلہ بھی ہوا.جنید گھر آیا اور اپنے کمرے میں بیٹھ گیا. اس نے اپنے دشمن کو مارنے کا فیصلہ کر لیا اور الماری سے پستول نکال لیا. 👇
اچانک اسے اپنے ایک دوست کی نصیحت یاد آ گئی. دوست نے اسے ایسا کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے 30 منٹ کے لئے واردات کے بعد کی صورتحال تصوراتی طور پر دیکھنے کا کہا تھا.
👇
جنید نے تصور میں اپنے دشمن کے سر میں تین گولیاں فائر کر کے اسے ابدی نیند سلا دیا. ایک گھنٹے بعد وہ گرفتار ہو گیا. 👇
گرفتاری کے وقت اس کے والدین اور دو بہنیں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں. اس کی ماں بے ہوش ہو گئی. مقدمہ شروع ہوا تو گھر خالی ہونا شروع ہو گیا. ایک کے بعد ایک چیز بکتی گئی. 👇
بہنوں کے پاس تعلیم جاری رکھنا ناممکن ہو گیا اور ان کے ڈاکٹر بننے کے خواب مقدمے کی فائل میں خرچ ہو گئے.بہنوں کے رشتے آنا بند ہو گئے اور ان کے سروں میں چاندی اترنے لگی. 👇
جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہر ہفتے والدین اور بہنیں ملاقات کے لئے جاتے. بہنوں کا ایک ہی سوال ہوتا کہ بھیا اب ہمارا کیا ہو گا؟ ہم اپنے بھائی کے بستر پر کسے سلائیں گی؟ ہم بھائی کے ناز کیسے اٹھائیں گی؟ 👇
بھائی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا. فیصلے کا دن آیا اور جنید کو سزائے موت ہو گئی. سزائے موت کی تاریخ مقرر ہو گئی. 25 منٹ گزر چکے تھے اور جنید کے جسم پر لرزہ طاری ہو چکا تھا. 👇
جیل میں وہ اپنی موت کے قدم گن رہا تھا اور گھر میں والدین اور بہنیں اپنے کرب اور اذیت کی جہنم میں جھلس رہے تھے. جنید کی آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھ دی گئیں اور اسے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا گیا. 👇
29 منٹ ہو چکے تھے. پھانسی گھاٹ پر پیر رکھتے ہی 30 منٹ پورے ہو گئے. جنید پسینہ پسینہ ہو چکا تھا. اس کے جسم میں کپکپی طاری تھی. 👇
اس نے پستول واپس الماری میں رکھ دیا. اس نے میز سے اپنی بہنوں کی دو کتابیں اٹھائیں اور بہنوں کے پاس گیا. بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری پیاری بہنو تمہارے پڑھنے کا وقت ہو گیا ہے. 👇
خوب دل لگا کر پڑھو کیونکہ تمہیں ڈاکٹر بننا ہے.
چند ماہ بعد جنید ایک بینک میں اچھی پوسٹ پر ملازم ہو گیا. جنید کی دونوں بہنیں ڈاکٹر بن گئیں. 👇
وہ ایک کامیاب اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں. ان 30 منٹ کی تصوراتی واردات اور 30 منٹ کے مقدمے کی کارروائی نے ایک پورے گھر کو اجڑنے سے بچا لیا. 👇
آپ اپنی زندگی میں یہ 30 منٹ اپنے لئے ضرور بچا کے رکھئیے گا، یہ 30 منٹ کی تصوراتی اذیت آپ کو زندگی بھر کی اذیت سے بچا لے گی!
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دلہن نے گھر میں داخل ہوتے ہی تنقیدی نظروں سے گھر کا معائنہ کیا، چہرہ پر کسی قسم کا تاثر نہیں تھا، گھر کیا تھا، ایک کچی چاردیواری تھی، جس میں کچی پکی اینٹوں کو جوڑ کر ایک چھوٹا سا کمرہ نما بنا لیا گیا،
👇
چھت کھجور کے پتوں کی تھی، جس سے چھن چھن کر روشنی کمرے میں آرہی تھی، کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں تھی، دیوار کو کاٹ کر کمرے کا ایک مدخل بنا لیا گیا تھا،
👇
کمرے کے فرش پر کھجور کے پتوں کا ایک گدّا بچھا ہوا تھا،گرہستی کے نام پر مٹی کی ایک ہنڈیا، ایک آبخورہ اور طاق پر ایک لکڑی کا پیالہ رکھا تھا۔👇
ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔
چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے میاں کا ہے۔ 👇
قریب کے کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔ شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیــــں۔ 👇
جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیــــں۔ وہ بزرگوار آن کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔
شیخ کامل نے کہا؛ 👇
مرد قلندر کرنل امام رحمتہ اللہ علیہ ۔۔
دنیا کی گوریلا جنگوں کے عہد ساز کردار اور ملت اسلامیہ کے عظیم مجاہد کرنل امام کا تعلق اسی دھرتی سے ہے ،👇 #حقیقیت_شناس
اور جہاد افغانستان میں افسانوی کردار کا روپ دھارتے ہوئے کرنل امام کے آفاقی نام سے ممتاز ہوئے ، ساڑھےتین سال کی عمر میں یتیم ہوجانےوالے غیر معمولی صفات کےحامل کرنل امام بچپن سےہی نمازی پرہیزگاراورتہجد گزار تھے،جولائی 1966میں کمیشن حاصل کیااورجلدہی SSG منتخب کرلئےگئے👇 #حقیقیت_شناس
4 اپریل 1944 کو موضع چتال میں غلام علی تارڑ کے ہاں جنم لینے والے سلطان امیر نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث دنیائےحرب و ضرب میں تہلکہ مچا کر دکھ دیا،سپر پاور سویت یونین کو شکست وریخت سے دوچار کیا،👇 #حقیقیت_شناس