”شخصیت“
ایسا منظر جو میرے علاوہ اور بھی ملنے والے کافی لوگوں کے زہنوں میں ضرور محفوظ ہوگا۔
ملتان کے پاک گیٹ کے بازار میں ایک شوروم آفس ٹاٸپ کمرے میں ایک قدآور اور وجیہہ آدمی سگریٹ سلگائے اپنے سامنے کورے کاغذوں کی تہہ جمائے حیران کن روانی سے لکھے چلا جا رہا ہے، اور سامنے
(1/13)
(2/13)
بازار سے گزرنے والا ہر وہ فرد انہیں حیرت سے دیکھتا ہے جو اس وجیہہ آدمی کے نام اور کام سے آگاہ ہے۔ان کی حیرانی میں ایک طرح کی سرشاری‘ تفاخر اور عقیدت بھی دکھائی دیتی ہے۔
یہ وجیہہ آدمی پیشہ کے لحاظ سے ایک قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ ریڈیو ملتان کے مشہور
(3/13)
سرائیکی ریڈیو ٹاک شو "جمہور دی آواز" کا اینکرپرسن بھی تھا۔۔ مگر یہ اس شخص کا اصل تعارف نہیں ہے بلکہ اسکا اصل تعارف جاسوسی ادب کی دنیا میں تہلکہ خیز افسانوی شہرت رکھنا تھا۔ پوری دنیا میں جہاں بھی اردو پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں ان کا نام ضرور پہنچا ہے۔ آج ہم بات
(4/13)
کررہے ہیں پاکستان کے اس ناول نگار کی جس کے ناول تین نسلیں پڑھ کر پروان چڑھی ہیں۔خاص طور پر اسی اور نوے کی دہاٸی والے نوجوان تو انکے ناولوں کے دیوانے تھے اور بےصبری سے نٸے ناول کا انتظار کیا کرتے تھے۔
اس ناول نگار کا نام مظہر نواز خان تھا مگر اردو ادب میں
(5/13)
انکا نام
”مظہرکلیم ایم اے “کے نام سے مشہور تھا اور انکی شناخت ”عمران سیریز“ سے عموماً کی جاتی ہے۔
آپ زٸی درانی پٹھان تھے اور آپکے آباٶ اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا جو وہاں سے ہجرت کرکے ملتان میں آکر آباد ہوۓ تھے۔
22 جولائی 1942ء میں ملتان کے ایک پولیس
(6/13)
آفیسر حامد یار خاں کے ہاں پیدا ہونے والے مظہر کلیم ایم اے نے اپنی تعلیم ملتان میں ہی حاصل کی۔
1965ء میں ان کی زندگی میں دو اہم موڑ آئے‘ ایک تو اس سال ان کی شادی برصغیر کے معروف شاعر علامہ اسد ملتانی کے ہاں ہوئی ، دوسرا یہ کہ انہوں نے ایک دوست کی فرمائش پر اپنی زندگی کا
(7/13)
پہلا جاسوسی ناول ’’ماکازونگا‘‘ لکھا۔ ان کے پہلے ناول نے جہاں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے وہیں مستقبل میں جاسوسی ادب کے ایک بڑے ادیب کی راہ بھی متعین کرگیا۔ اس کے بعد ان کا ہر ناول ایک معیار قائم کرتا چلا گیا اور ان کے قارئین کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی چلی گٸی۔
جاسوسی
(8/13)
ادب میں ابن صفی کے بعد مظہر کلیم ایم اے کو جو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی دوسرا کوئی بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکا ۔ابن صفی کے انتقال کے بعد مختلف لوگوں نے جعلی ناموں سے ابن صفی بننے کی کوشش کی۔
مظہر کلیم کے ایک دوست بی اے جمال جس نے ایک لاٸبریری اور پبلشنگ ہاٶس بنایا
(9/13)
ہوا تھا کی پریشانی سننے کے بعد مظہرکلیم نے اسے کہا کہ میں ناول لکھ دیتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ وہ میرے ہی نام سے چَھپے گا جس پر اس نے حامی بھرلی تو انہوں نے اپنا پہلا جاسوسی ناول ماکا زونگا لکھا جو افریقی قباٸل کے تناظر میں تھا یہ ناول چھپتے ہی مقبولیت کی بلندیوں پر
(10/13)
براجمان ہوگیا اسکے بعد انہوں نے پھر دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ عمران سیریز کا بھی آغاز کردیا۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں ابن صفی کے اس ’’عمران‘‘ کے کردار میں اپنے انداز سے ایسے رنگ بھرے کہ ابن صفی کا کردار ”عمران“منظر سے غائب ہی ہوگیا اور عمران سیریز
(11/13)
انکی بڑی وجہ شہرت بن گٸی۔ انہوں نے 600 سے زاٸد ناول لکھے اور سارے ہی مقبول ہیں۔
وہ ساٸنس کو اس انداز میں کہانیوں میں فٹ کرتے کہ وہ کہانی کا حصہ بن جاتی۔انکے ناول فحاشی سے پاک اور نوجوانوں کیلیے مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے ریڈیو کیلیے بھی ڈرامے لکھے جن میں سے ایک سراٸیکی
(12/13)
ڈرامہ ” آدھی رات کا سورج“ بہت زیادہ مقبول ہوا تھا۔۔
اسی کے ساتھ بچوں کے لیے بھی انہوں نے 5 ہزار سے زاٸد ناول اور چھوٹی کہانیاں لکھیں جن میں چلوسک ملوسک سیریز، آنگلو بانگلو سیریز، فیصل شہزاد سیریز اور چھن چھنگلو سیریز زیادہ مشہور ہوئیں۔
انکے لکھے ناول پاکستان کے علاوہ
(13/13)
بھارت میں بھی بہت زیادہ مقبول تھے۔
آپ 26 مئی 2018ء کو ملتان میں انتقال کرگٸے۔
چاچاافلاطون بقلم خود #قلمکار
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
میں ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے متعلق انتہائی تشویش کا شکار ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’مریم نواز میں دو بڑی خوبیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ بڑی لیڈر ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں اور دوسری یہ کہ نواز شریف ان کے والد ہیں‘‘۔ یہاں تک تو قابل برداشت ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ (1/5)
(2/5)
بھی لکھ دیا کہ مریم نواز کو جو بات اچھی نہ لگے اس کے لئے اپنا کان بند نہیں کرتیں بلکہ دوسروں کی زبان بند کردیتی ہیں۔ مخالفین مریم کو آئرن لیڈی بھی کہتے ہیں کیونکہ جیل میں وہ فرائنگ پین سے کپڑے آئرن کیا کرتی تھیں۔ مریم کی سیاسی ٹریننگ میاں نواز شریف نے خود کی ہے اسی لئے
(3/5)
مریم نواز کی سیاست میں عوام کو نوے کی دہائی کے نواز شریف نظر آتے ہیں۔ بلاول مردوں کا بے نظیر بھٹو اور مریم نواز عورتوں کی نوازشریف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بلاول کے متعلق لکھا ہے کہ بلاول کی اردو اور پاکستان کی اکانومی میں یہ قدر مشترک ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے بہتر ہو پر ہوتی
#Swat
” یہ ایک یہودی تھا جو سکائی ویز ہوٹل میں رکا ہوا تھا شام کا وقت تھا شور مچا اور میں وہاں چلا گیا تب تک اس کا ہوٹل والے اسے چھڑوا گئے تھے اور وہ بازار کی طرف بھاگ گیا میں اور میرے ایک دوست نے اس کا پیچھا کیا اسے خور بازار میں پکڑ لیا میں نے اسے پکڑا میں نے اس کا بیگ ⬇️
کھینچا لیکن اس نے مزاحمت کی میں نے اسے چپیڑے ماری لوگوں نے اسے پھر مجھ سے چھڑوا لیا یہ رکشے میں وہاں سے چلا گیا لیکن ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے بازار کے پرلے کنارے پر پھر پکڑ لیا ہم نے تو پھر مارنا شروع کیا تو لوگوں نے پھر چھڑوا لیا لوگ مجھ سے ثبوت مانگ رہے تھے میں نے ⬇️
کہا ثبوت میرے پاس ہے لیکن لوگ نہ مانیں اور اس سے انہوں نے اسے چھڑوا لیا اور پھر میں نے ایس ایچ او کو فون کیا ایس ایچ او صاحب آئے اور موبائل میں ڈال کے اسے تھانے لے گئے ہم بھی ساتھ ساتھ تھانے پہنچ گئے اس شخص نے قرآن شہید کیا تھا اس شخص نے قرآن شہید کیا تھا اس نے 25 دن⬇️
خواتین پر تہمت و بہتان جیسی غلاظت پھینکنا غلیظ منافقین کا پرانا ہتھکنڈا ہےجو رٸیس المنافقین عبداللہ بن ابی سے لیکر جنرل ایوب خان ،فرزند جنرل ضیاالحق(نواش ریف) سے ہوتا ہوا موجودہ جنرل تک تقریباً ایک طرز پر جاری ہے۔عبداللہ بن ابی نے پاک بی بی ام المومنین حضرت عاٸشہؓ پر بہتان (1/4)
(2/4)
درازی کی۔ جنرل ایوب نے بانی پاکستان قاٸداعظم رح کی سگی چھوٹی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر الیکشن لڑنے کی وجہ سے غلیظ ترین الزامات کی بوچھاڑ کرواٸی۔ جنرل ضیا کے سیاسی تخم نواش ریف نے ذوالفقار بھٹو کی صاحبزادی بےنظیر بھٹو کے الیکشن لڑنے پر ایڈٹ شدہ ننگی تصاویر بذریعہ ہیلی کاپٹر
(3/4)
جگہ جگہ پھینکواٸی۔ جب عمران خان سیاسی میدان میں اترا تو اسکی بیوی جماٸمہ کے خلاف اسقدر پروپیگنڈے کیےگٸے کہ انکی طلاق تک ہوگٸی۔ اور اب عمران خان کو جُھکانےکیلیے موجودہ غلیظ جنرل ٹولا اسکی بیوی #BushraBibi پر ن لیکی سوشل میڈیا کو قابو میں کرکے اسقدر بہتان اور غلیظ پروپیگنڈے
آٸی ایس پی آر نے انتہاٸی پیشہ وارانہ انداز میں میڈیا ٹاک کرتے ہوۓ فرمایا کہ
” پاک فوج کا بٹگرام میں انتہاٸی پیچیدہ اور مشکل ریسکیو آپریشن مکمل“
اب زرا یہ اصل حقاٸق پڑھیے اور کمپنی کے ان دلالوں پر لعنت بھیجنا ہرگز نہ بھولیے
”میرا تعلق چونکہ بٹگرام سے ہے اس لیے آج کے واقعے ⬇️
کا اصل منظرنامہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں, الائی ضلع بٹگرام کی تحصیل ہے جس کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہے, یہ ایک دور افتادہ اور پہاڑی علاقہ ہے جو کہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن سہولیات زندگی خاص کر سڑکیں اور پل نہ ہونے کی بنا پر یہاں کے باشندے دو پہاڑوں کے درمیان ⬇️
اس طرح کے چیئر لفٹ لگا کر اس کے زریعے سفر کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات کی چیزیں سپلائی کرتے ہیں, اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک گھنٹوں کا سفر چند منٹوں میں کٹ جاتا ہے دوسرا جب بارش کے وقت ندیوں میں طغیانی کی وجہ سے زمینی راستے بند ہوجاتے ہیں تو لوگ انہی چیئر لفٹ کے زریعے ⬇️
سلطنت بنو امیہ اور سلطنت پاکستان کے وساٸل ، جگہ اور وقت مختلف ضرور ہیں لیکن تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی رہتی ہے۔
جس وقت عبد الملک بن مروان کی خلافت کی بیعت ہوئی تھی اسی وقت اس کے دو بیٹوں ولید اور سلیمان کی ولی عہدی کی بیعت بھی ہوئی تھی ۔جس کا سیدھا سادا مطلب یہ تھا کہ (1)
(2) عبدالملک کی خلافت کے بعد ولید خلیفہ بنے گا اور اس کے بعد سلیمان بنے گا ۔
ولید نے اپنے دور خلافت میں چاہا کہ اپنے بھائی سلیمان کو معزول کر کے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ولی عہد نامزد کر دے ۔ جس پر حجاج بن یوسف نے ولید کے اس منصوبے میں اس کی حمایت کی ۔حجاج کی حمایت بہت معنی
(3) رکھتی تھی کیونکہ وہ عراق اور مشرقی اضلاع کا گورنر تھا اور جتنا رقبہ اس کے زیر انتظام تھا، وہ کم و بیش نصف مملکت تھی ۔ گویا اس حمائت کا مطلب یہ تھا کہ حجاج اپنے زیر انتظام علاقوں میں عبدالعزیز کی ولی عہدی کی بیعت کی حمائت کرے گا ۔یہ کوئی خفیہ منصوبہ نہیں تھا، بلکہ اس کی
کیا ہم سب بھی کوفی ہیں؟؟؟
”کوفہ کسی ایک جگہ کا نام نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں ظلم ہے اور اس پر چپ رہنے والے موجود ہیں، وہ جگہ کوفہ ہے“ یہ الفاظ واقعہ کربلا کے شاہد اور مظلوم حضرت امام علی ابن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہ کے ہیں۔
اہل کوفہ وہ بے حس ٹولہ تھا جو ایمان کی
(1/5)
(2/5)
کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بزدلی کی وجہ سے کوفی کہلایا۔
اپنے تمام تر تنوع کے باوجود کوفہ اپنے بہادروں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بزدلوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ ایک استعارہ بن گیا ہے بے حسی اور بے عملی کا۔ یہ ظالموں کے گروہ کا نام نہیں ہے، بلکہ اس ظلم پر چپ رہنے والے
(3/5)
مجمعے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسے سماج کی شکل ہے جہاں کسی ایک مظلوم گروہ کو ایک ظالم گروہ مسلسل ظلم کا نشانہ بناتا ہے، لیکن اس ظلم سے نفرت کے باوجود لوگ تماشائی بنے اپنی اپنی عافیت گاہوں میں دبکے رہتے ہیں۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخاطَب بھی یہی لوگ تھے،