انسانیت کی قدرومنزلت ان لوگوں کے نزدیک ا س طرح کی تھی۔ انسانوں کی آنکھیں نکالنا ، زبان کاٹنا، کھال کھینچنا اور زندہ جلادینا، رومیوں کی عام سزائیں تھیں۔ ایک مرتبہ جب رومیوں نے روسیوں کو شکست دی تو قیدیوں کے ہاتھ کاٹ کر ان کے ہار بنائے اور ان ہاروں سے قسطنطنیہ کی فصیل کو سجایا۔
ایک موقع پر جب اسلامی فوج کو شکست ہوئی تو رومیوں نے مسلم اسیران جنگ کو سمندر کے کنارے لٹا کر ان کے پیٹ میں لوہے کے بڑے بڑے کیل ٹھونک دئیے تاکہ بچے کھچے مسلمان جب جہازوں پر واپس آئیں تو اس منظر کو دیکھیں۔
قیصر باسل دوم(963 ء تا 1025ئ) نے بلغاریہ پر فتح حاصل کی تو پندرہ ہزار اسیران جنگ کی آنکھیں نکال دیں اور ہر سو قیدیوں کے بعد ایک قیدی کی ایک آنکھ رہنے دی تاکہ وہ ان اندھوں کو گھروں تک پہنچا سکیں۔
غلاموں کی تجارت زوروں پر تھی۔ فرانس کی حریت پسند خاتون جون آف آرک انگریزوں کے ہتھے چڑھی تو اسے سر بازار زندہ جلا دیا گیا۔ علم اور عالم دشمنی میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ زوال رومہ (476ئ) کے بعد پاپائیت برسر اقتدار آگئی تھی اور 1546)ئ) تک سیاہ سفید کی مالک رہی ۔ پوپ مذہبی
ادب کے بغیر تمام اصناف ِعلم کا دشمن تھااور جہاں کہیں کوئی عالم یا فلسفی یا مفکر سر اٹھاتا، اسے کچل دیتا تھا۔ اس دور میں مدارس حکماً بند تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں کتابیں نذر آتش ہوئیں ۔ کئی علماء پوپ کی علم دشمنی کے ہاتھوں قتل ہوئے اور یورپ پر ہر طرف جہالت کی تاریکی چھاگئی۔
یونان کی ایک لڑکی ہائے پیشا 414)ئ) نے ا سکندریہ سے فلسفے کاعلم حاصل کیااور ممتاز فلسفی بن گئی۔ اسکندریہ کے بشپ سائزل نے اس لڑکی کو کافرہ قرار دیااور ایک روز جب وہ فرائض ِ تدریس سرانجام دینے کے لیے اپنی درس گاہ کی طرف جا رہی تھی، سائزل کے بھیجے ہوئے چند سنگدل راہبوں نے اسے پکڑ لیا
پہلے اسے ننگا کرکے بازار میں گھسیٹا پھر اسے گرجے میں لے گئے ۔ وہاں تیز کٹر سے اس کی کھال کھرچی ، پتھر سے اس کا سر پھوڑا ، لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور انہیں آگ لگا دی۔ گلیلیو (1642ئ) اٹلی کا وہ مشہور ہئیت دان جس نے دور بین ایجاد کی تھی، جب اس نے کاپر نیکی (1543 ئ) کے نظام شمسی کی
تائید کی تو پوپ نے اسے گرفتا ر کر کے مذہبی عدالت کے سامنے پیش کیا۔ اس نے وہاںڈر سے توبہ کرلی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اس نے اپنی کتاب ’’نظام عالم ‘‘ شائع کر دی جس پر اسے جیل میں پھینک دیا گیا ۔ جہاں وہ دس سال تک انتہائی دکھ اٹھانے کے بعد فوت ہوگیا۔
اہل یورپ کی کتب سوزی بھی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ بریفالٹ کہتا ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں راہبوں کی علمی سرگرمیاں یہ تھیں کہ وہ یونان و روما کی کتابیں جلا کر ان کی جگہ مسیحی اولیاء کی داستانیں لکھ دیتے تھے۔ چونکہ اس زمانے میں کاغذ نایاب تھا اور اس کی جگہ چرمی جھلی استعمال ہوتی تھی۔
جس کی قیمت کافی زیادہ تھی اس لیے یہ راہب جھلی پر لکھی ہوئی کتابیں کھرچ ڈالتے اور ان پر اپنے مطلب کی تحریریںلکھ ڈالتے۔ پاپائے اعظم گریگوری (540 ء تا 604 ء ) سائنس ، تاریخ ، ادب اور دیگر علوم کا دشمن تھا ۔ اور دینیات یا دعائوں کے سوا کسی اور صنف کو برداشت نہیں کر تا تھا۔
اس نے رومی سیاستدان و خطیب سسرو اور مورخ لیوی کی سب کتابیں تلف کر ڈالیں۔ ایک دفعہ اسے خبر پہنچی کہ وی آنا ( آسٹریا کے دارالحکومت) کے لاٹ پادری نے کسی ادبی موضوع پر ایک مقا لہ پڑھا ہے تواسے لکھا: ’’ ہمیں خبر ملی ہے کہ جس کے ذکر سے ہمیں شرم آتی ہے کہ تم نے کوئی ادبی مقالہ پڑھا ہے۔
مجھے امید ہے کہ تم مجھے لکھو گے کہ تمہیں ان لغویات سے کوئی سروکار نہیں۔ ‘‘ انگلستان میں چوتھی صدی عیسوی میں راہبوں کے گروہ جا بجا گھومتے نظر آتے تھے۔ یہ جہاں کہیں بھی کوئی کتاب یا آرٹ کا کوئی نمونہ پاتے اسے جلا دیتے۔
طرابلس میں اس دور کی عظیم ترین لائبریری تھی جس میں کتابوں کی تعداد تیس لاکھ تھی ۔ ایک مرتبہ جب صلیبی لشکر اس شہر میں پہنچا تو کتب خانہ کو آگ لگا دی ۔ تما م کتب جلا ڈالیںاور مسلمانوں کی چھ سو سالہ محنت کو تباہ کر دیا۔
جاگیرداروں کے قلعے ڈاکوئوں کے اڈے تھے جو مسافروں پر چھاپے مارتے اور زر فدیہ وصول کرنے کے لیے انہیں پکڑ لاتے تھے۔ حصول زر کے لیے وہ مختلف طریقے استعمال کرتے تھے۔ مثلاََ آدمی کے پائوں کے انگوٹھوں کو رسی سے باندھ کر اسے الٹا لٹکا دیتے تھے اور گرم سلاخوں سے جسم کو داغٖتے یا گرہ دار
رسی کو سر کے گرد لپیٹ کر پوری طاقت سے مروڑتے تھے۔ یورپ میں سڑکیں نہ تھیں ۔ ذرائع نقل و حمل بیل گاڑیاں ، خچر اور گدھے تھے۔ جنگلوں اور پہاڑوں میں ایسے ڈاکو رہتے تھے جو آدم خور بھی تھے۔ وبائیں عام تھیں ، صرف دسویں صدی میں دس تباہ کن قحط اور تیرا وبائیں پھوٹیں
اور لوگ مکھیوں کی طرح ہلاک ہوئے۔ ان کے پادری فریب اور جعلسازی سے کام لیتے تھے۔ پوپ جنت کی راہداریاں اور گنا ہ کے پرمٹ (اجازت نامے) فروخت کیا کرتا تھا۔ عوام کے لیے سود لینا حرام تھالیکن پوپ کا بینک لوگوں کو بھاری شرح سود پر قرض دیتا تھا۔
عوام گور پرست اور مجسمہ ساز تھے اور علماء عشائے ربانی ، کرامات اولیاء رہبانیت اور تصرفات روح کی بحثوں میں الجھے رہتے تھے۔ بطور گبن! اتنے طویل تاریخی زمانے میں بدی کی یہ کژت اور نیکی کی یہ قلت کہیں او ر نظر نہیں آتی ۔
سی ایس ایس کا 2021 کا نتیجہ 2.11فیصد رہا' 2019 ' 2020 میں یہ ڈھائی فیصد تھا' 2017 اور 2018 میں یہ تین فی صد تھا۔۔ سوال یہ پے کہ اگر یہ امتحان اتنا ہی قیمتی ہے۔۔اس کو پاس کرنے والے دنیا کے قابل ترین ' عالم فاضل لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ دوڑ گزشتہ 75 سالوں سے ہے
تو پھر یہ ملک ترقی کیوں نہ کر سکا ؟ قومی تو چھوڑیں یہ بین الاقوامی زبان میں منعقد ہونے والے اس امتحان نے پاکستان کو عالمی سطح پر کتنا وقار دیا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی کام چور ' حیلہ ساز ' بدعنوان' دو نمبر' احساس کمتری کا شکار' اپنی اقدار و ثقافت کے اظہار میں
کم مائیگی کا شکار دنیا کی بدترین اشرافیہ غلامی کی زبان میں منتخب ہو کر پاکستان کا اداروں کا نظم و نسق سنبھالنے والی یہی قابل ترین اشرافیہ ہے!
یاد رہے !
کہ مقابلے کا امتحان لارڈ میکالے نے قابلیت جانچنے کے لئے وضع نہیں کیا تھا۔۔صرف اس امتحان کی قابلیت کا
عمران خان کا یہ بیان کہ 'دہشتگردی کی وجہ اسلام نہیں بلکہ نسل پرستی ہے' سرخوں کے سروں پر بم کی طرح پھٹا ہے۔ وزیرستانی سرخے خاص کر پی ٹی ایم اس پر چیخ رہے ہیں۔
عمران خان نے مغربی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ اسلام نہیں بلکہ نسل پرستی ہے۔ طالبان تحریک پشتون ہے اور افغانستان سے دگنے پشتون پاکستان میں رہتے ہیں۔ امریکی حملہ ہوا تو پاکستانی پشتونوں کی ہمدردیاں افغان پشتونوں کے ساتھ تھیں۔
پھر جب پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا تو کچھ پشتون ہمارے خلاف ہوگئے۔
عمران خان نے کچھ غلط نہیں کہا۔ تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان 90 فیصد پشتون ہیں۔ ملا عمر سے ہیبت اللہ اخوندزادہ تک اور بیت اللہ محسود سے نور ولی محسود تک دونوں طالبان تحریکوں کی لیڈر شپ ہمیشہ پشتون رہی
سلطنت عمان کا سلطان قابوس بن سعید کا پروٹوکولز کے بارے میں اپنا خاص نظریہ تھا۔ وہ زندگی بھر کسی شخصیت کے استقبال کیلیئے ہوائی اڈے نہ گئے۔ مگر ان کی یہ عادت اُس وقت ٹوٹ گئی جب انہوں نے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما کا ہوائی اڈے پر جا کر استقبال کیا۔
حکومتی اراکین اور
عہدیداران اس بات پر حیران و پریشان تو تھے ہی صحافیوں کیلیئے بھی یہ سب کچھ انوکھا اور حیرت و تعجب کا سبب بن گیا تھا۔
سلطان قابوس انڈین صدر سے اس کے جہاز میں کرسی پر سے اٹھنے سے پہلے ہی جا کر گلے ملے، اس کے ساتھ ہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جہاز سے نیچے اترے، جب کار کے نزدیک پہنچے تو
ڈرائیور کو اتر جانے کا کہا، خود جا کر کار کا دروازہ کھولا، مہمان کو بٹھایا اور خود ہی کار چلا کر مہمان کو اپنے محل میں لائے۔
بعد میں جب صحافیوں نے اس بارے میں سلطان سے سبب پوچھا تو انہوں نے جواباً بتایا: میں ایئرپورٹ پر انڈیا کے صدر کے استقبال کیلیئے ہرگز نہیں گیا۔
Hail and thunder storm and burial of Tipu Sultan, Mulla Omer and Dr A Q Khan
The burial of Tipu Sultan is described by many British Officers such as Lieutenant Richard Bayly of the 12th Regiment. According to Lieut. Bayly
I must relate the effects and appearance of a
tremendous storm of wind, rain, thunder, and lightning that ensued on the afternoon of the burial of Tippoo Saib. I had returned to camp excessively indisposed. About five o'clock a darkness of unusual obscurity came on, and volumes of huge clouds were hanging within
a few yards of the earth, in a motionless state. Suddenly, a rushing wind, with irresistible force, raised pyramids of sand to an amazing height, and swept most of the tents and marquees in frightful eddies far from their site. Ten Lascars, with my own exertions,
پاگل خان۔ ہٹلر خان۔ یوٹرن خان۔ زکوٰۃ خان۔کینسر خان۔ سونامی خان۔ یہودی خان۔ طالبان خان۔ اسٹیبلشمنٹ خان۔ مہنگائی خان یہ خان۔ وہ خان۔
کون ہے یہ بندہ جو اتنی ساری (آپس میں متضاد) برائیوں کا بیک وقت مجموعہ ہے؟ کیا کیا ظلم ڈھائے ہیں اس بندے نے اس ملک پر؟ 3 سالوں میں اس ملک کا
بیڑہ ہی غرق کردیا ہوگا جو اسے اتنے مختلف اور غلیظ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
اور کون ہیں اسے ان ناموں سے پکارنے والے؟ ملک و قوم کے وہ ہمدرد جنہوں نے ،70 سال سے اس ملک کو ترقی کا گہوارہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ؟ وہ زرداری 10فیصد جس نے کبھی بھوکی ننگی قوم کے پیسوں سے
گھوڑوں کو مربے نہیں کھلائے؟ وہ شریف خاندان جس نے قوم کی ہڈیوں سے گودہ تک نچوڑ کر دنیا بھر میں اربوں ڈالر کے کاروبار اور ایوان فیلڈ محل نہیں بنائے؟ وہ الطاف بھائی جس نے روشنیوں کے شہرمیں پچیس سال میں پچیس ہزار لاشیں نہیں گرائیں؟ وہ اسفندیار ولی جس نے پختون قوم کو اس کی تاریخ کے
*چین کی مدد سے ان منصوبوں کو پایا تکمیل تک پہنچایا جا رھا ھے*
👈 *1- کوہالہ ڈیم*
1024 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا اور 2024 میں مکمل ھو گا 39 ہزار ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے
👈 *2- مہمند ڈیم*
800 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا 2024 میں مکمل ھوگا اور 13 لاکھ ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے
👈 *3- دیامیربھاشا ڈیم*
6000 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا 66 لاکھ ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے 2028 میں مکمل ھو گا
👈 *4- داسوڈیم*
4300 میگا واٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ھے 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے فیز1 اس کا 2025 اور فیز2 اس کا 2028 میں مکمل ھو گا