سلطنت عمان کا سلطان قابوس بن سعید کا پروٹوکولز کے بارے میں اپنا خاص نظریہ تھا۔ وہ زندگی بھر کسی شخصیت کے استقبال کیلیئے ہوائی اڈے نہ گئے۔ مگر ان کی یہ عادت اُس وقت ٹوٹ گئی جب انہوں نے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما کا ہوائی اڈے پر جا کر استقبال کیا۔
حکومتی اراکین اور
عہدیداران اس بات پر حیران و پریشان تو تھے ہی صحافیوں کیلیئے بھی یہ سب کچھ انوکھا اور حیرت و تعجب کا سبب بن گیا تھا۔
سلطان قابوس انڈین صدر سے اس کے جہاز میں کرسی پر سے اٹھنے سے پہلے ہی جا کر گلے ملے، اس کے ساتھ ہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جہاز سے نیچے اترے، جب کار کے نزدیک پہنچے تو
ڈرائیور کو اتر جانے کا کہا، خود جا کر کار کا دروازہ کھولا، مہمان کو بٹھایا اور خود ہی کار چلا کر مہمان کو اپنے محل میں لائے۔
بعد میں جب صحافیوں نے اس بارے میں سلطان سے سبب پوچھا تو انہوں نے جواباً بتایا: میں ایئرپورٹ پر انڈیا کے صدر کے استقبال کیلیئے ہرگز نہیں گیا۔
میں ایئرپورٹ پر اس وجہ سے گیا ہوں کہ میں نے بچپن میں انڈیا کے شہر پونا کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کی ہے۔ جناب شنکر دیال شرما اس وقت میرے استاد ہوا کرتے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ زندگی کیسے گزارنی ہے اور زندگی میں آنے والے مشاکل اور مصائب کا کیسے سامنا کرنا ہے۔
اور میں آج تک حتی المقدور کوشش کرتا ہوں کہ جو کچھ اُن سے پڑھا اور سیکھا ہے اسے عملی زندگی میں نافذ کروں۔
تو یہ تھی ایک استاد کی قدر و منزلت جو سلطان کے اپنے پروٹوکول نظریات سے انحراف کا سبب بنی تھی۔
آج بھی ایسے عجائب نظر آ جاتے ہیں اگر کوئی دیکھنے والا بنے تو:
کچھ دن پہلے کی بات ہے جب روسی صدر پوٹین کو اپنے استقبال میں کھڑے لوگوں کے ہجوم میں اپنی ایک استانی نظر آ گئی۔ پوٹین نے سارے گارڈز، حفاظتی عملے اور حفاظتی حصار بالائے طاق رکھ کر سیدھا استانی کو جا کر گلے لگایا اور وہ رو رہی تھی۔ خلقت کے ہجوم میں استانی کو ساتھ لیکر باتیں کرتے اور
چلتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ پوٹین اپنی استانی کے ساتھ نہیں کسی ملکہ کے پہلو میں چل رہا ہے۔
اُستاد کی عزت و منزلت اور قدر و قیمت کی ایک تاریخ ہے۔ تاریخ سے ایک ورق ملاحظہ کیجیئے: مامون الرشید چھوٹا سا تھا تو اس کے استاد نے آتے ہی مامون کو بلا وجہ ایک ڈنڈا جڑ دیا۔
مامون نے درد سے بلبلاتے ہوئے اُستاد سے پوچھا: کیوں مارا ہے مجھے یونہی بلا وجہ؟ استاد نے کہا: چُپ، خاموش ہوجا۔ مامون اس بلاوجہ چھڑی مارنے کے بارے میں جب بھی استاد سے پوچھتا تو استاد کہتا: خاموش۔
بیس سال کے بعد یہی مامون جب خلیفہ وقت بن بیٹھا تو اسے اپنے ذہن پر نقش وہ بلاوجہ کی
مار یاد آ گئی اور اس نے اپنے استاد کو بلوا بھیجا۔ استاد کے آنے پر مامون نے پوچھا: جب میں چھوٹا تھا آپ نے مجھے ایک بار کیوں بلا وجہ مارا تھا؟ استاد نے پوچھا: تو ابھی تک وہ مار نہیں بھولا کیا؟ مامون نے کہا: اللہ کی قسم میں تو کبھی بھی نہ بھولوں گا۔
استاد نے مسکراتے ہوئے مامون کو دیکھا اور میں جانتا تھا کہ تو ایک نہ ایک دن مسلمانوں کا خلیفہ بنے گا۔ اور میں نے تجھے جان بوجھ کر بلا سبب پیٹا تھا تاکہ تو یاد رکھ لے کہ "مظلوم کبھی بھی نہیں بھولا کرتے"۔
استاد نے مامون کو دوبارہ نصیحت کرتے ہوئے کہا: کبھی کسی پر ظلم نہ کرنا۔ ظلم ایک آگ ہوتی ہے جو مظلوم کے دل میں کبھی بھی نہیں بُجھتی چاہے جتنے بھی سال کیوں نہ گزر جائیں۔
سی ایس ایس کا 2021 کا نتیجہ 2.11فیصد رہا' 2019 ' 2020 میں یہ ڈھائی فیصد تھا' 2017 اور 2018 میں یہ تین فی صد تھا۔۔ سوال یہ پے کہ اگر یہ امتحان اتنا ہی قیمتی ہے۔۔اس کو پاس کرنے والے دنیا کے قابل ترین ' عالم فاضل لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ دوڑ گزشتہ 75 سالوں سے ہے
تو پھر یہ ملک ترقی کیوں نہ کر سکا ؟ قومی تو چھوڑیں یہ بین الاقوامی زبان میں منعقد ہونے والے اس امتحان نے پاکستان کو عالمی سطح پر کتنا وقار دیا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی کام چور ' حیلہ ساز ' بدعنوان' دو نمبر' احساس کمتری کا شکار' اپنی اقدار و ثقافت کے اظہار میں
کم مائیگی کا شکار دنیا کی بدترین اشرافیہ غلامی کی زبان میں منتخب ہو کر پاکستان کا اداروں کا نظم و نسق سنبھالنے والی یہی قابل ترین اشرافیہ ہے!
یاد رہے !
کہ مقابلے کا امتحان لارڈ میکالے نے قابلیت جانچنے کے لئے وضع نہیں کیا تھا۔۔صرف اس امتحان کی قابلیت کا
عمران خان کا یہ بیان کہ 'دہشتگردی کی وجہ اسلام نہیں بلکہ نسل پرستی ہے' سرخوں کے سروں پر بم کی طرح پھٹا ہے۔ وزیرستانی سرخے خاص کر پی ٹی ایم اس پر چیخ رہے ہیں۔
عمران خان نے مغربی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ اسلام نہیں بلکہ نسل پرستی ہے۔ طالبان تحریک پشتون ہے اور افغانستان سے دگنے پشتون پاکستان میں رہتے ہیں۔ امریکی حملہ ہوا تو پاکستانی پشتونوں کی ہمدردیاں افغان پشتونوں کے ساتھ تھیں۔
پھر جب پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا تو کچھ پشتون ہمارے خلاف ہوگئے۔
عمران خان نے کچھ غلط نہیں کہا۔ تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان 90 فیصد پشتون ہیں۔ ملا عمر سے ہیبت اللہ اخوندزادہ تک اور بیت اللہ محسود سے نور ولی محسود تک دونوں طالبان تحریکوں کی لیڈر شپ ہمیشہ پشتون رہی
انسانیت کی قدرومنزلت ان لوگوں کے نزدیک ا س طرح کی تھی۔ انسانوں کی آنکھیں نکالنا ، زبان کاٹنا، کھال کھینچنا اور زندہ جلادینا، رومیوں کی عام سزائیں تھیں۔ ایک مرتبہ جب رومیوں نے روسیوں کو شکست دی تو قیدیوں کے ہاتھ کاٹ کر ان کے ہار بنائے اور ان ہاروں سے قسطنطنیہ کی فصیل کو سجایا۔
ایک موقع پر جب اسلامی فوج کو شکست ہوئی تو رومیوں نے مسلم اسیران جنگ کو سمندر کے کنارے لٹا کر ان کے پیٹ میں لوہے کے بڑے بڑے کیل ٹھونک دئیے تاکہ بچے کھچے مسلمان جب جہازوں پر واپس آئیں تو اس منظر کو دیکھیں۔
قیصر باسل دوم(963 ء تا 1025ئ) نے بلغاریہ پر فتح حاصل کی تو پندرہ ہزار اسیران جنگ کی آنکھیں نکال دیں اور ہر سو قیدیوں کے بعد ایک قیدی کی ایک آنکھ رہنے دی تاکہ وہ ان اندھوں کو گھروں تک پہنچا سکیں۔
Hail and thunder storm and burial of Tipu Sultan, Mulla Omer and Dr A Q Khan
The burial of Tipu Sultan is described by many British Officers such as Lieutenant Richard Bayly of the 12th Regiment. According to Lieut. Bayly
I must relate the effects and appearance of a
tremendous storm of wind, rain, thunder, and lightning that ensued on the afternoon of the burial of Tippoo Saib. I had returned to camp excessively indisposed. About five o'clock a darkness of unusual obscurity came on, and volumes of huge clouds were hanging within
a few yards of the earth, in a motionless state. Suddenly, a rushing wind, with irresistible force, raised pyramids of sand to an amazing height, and swept most of the tents and marquees in frightful eddies far from their site. Ten Lascars, with my own exertions,
پاگل خان۔ ہٹلر خان۔ یوٹرن خان۔ زکوٰۃ خان۔کینسر خان۔ سونامی خان۔ یہودی خان۔ طالبان خان۔ اسٹیبلشمنٹ خان۔ مہنگائی خان یہ خان۔ وہ خان۔
کون ہے یہ بندہ جو اتنی ساری (آپس میں متضاد) برائیوں کا بیک وقت مجموعہ ہے؟ کیا کیا ظلم ڈھائے ہیں اس بندے نے اس ملک پر؟ 3 سالوں میں اس ملک کا
بیڑہ ہی غرق کردیا ہوگا جو اسے اتنے مختلف اور غلیظ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
اور کون ہیں اسے ان ناموں سے پکارنے والے؟ ملک و قوم کے وہ ہمدرد جنہوں نے ،70 سال سے اس ملک کو ترقی کا گہوارہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ؟ وہ زرداری 10فیصد جس نے کبھی بھوکی ننگی قوم کے پیسوں سے
گھوڑوں کو مربے نہیں کھلائے؟ وہ شریف خاندان جس نے قوم کی ہڈیوں سے گودہ تک نچوڑ کر دنیا بھر میں اربوں ڈالر کے کاروبار اور ایوان فیلڈ محل نہیں بنائے؟ وہ الطاف بھائی جس نے روشنیوں کے شہرمیں پچیس سال میں پچیس ہزار لاشیں نہیں گرائیں؟ وہ اسفندیار ولی جس نے پختون قوم کو اس کی تاریخ کے
*چین کی مدد سے ان منصوبوں کو پایا تکمیل تک پہنچایا جا رھا ھے*
👈 *1- کوہالہ ڈیم*
1024 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا اور 2024 میں مکمل ھو گا 39 ہزار ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے
👈 *2- مہمند ڈیم*
800 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا 2024 میں مکمل ھوگا اور 13 لاکھ ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے
👈 *3- دیامیربھاشا ڈیم*
6000 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا 66 لاکھ ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے 2028 میں مکمل ھو گا
👈 *4- داسوڈیم*
4300 میگا واٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ھے 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے فیز1 اس کا 2025 اور فیز2 اس کا 2028 میں مکمل ھو گا