#WomenEducation
There is a saying, “You educate a man; you educate a man. You educate a woman; you educate a generation”.
Nature has divided human beings into two genders and both are given responsibilities which suit them.
🔻🔻
Along with assigning the responsibilities, nature has very clearly stated the rights of both on each other. Before we debate on role of women, let’s see how God created woman in the first place. In the beginning when it came to the creation of woman,
🔻🔻
God found that he had exhausted all the solid materials in the making of man. In this dilemma after profound meditation, He did as follows; he took the rotundity of the moon, curves of the creepers, the clinging of tendrils, the trembling of grass, the slenderness of weeds,
🔻🔻
the bloom of flowers, the lightness of leaves, the glances of deer, clustering rows of bees, the joyous gaiety of moonbeams, the timidity of hare, the vanity of the peacock, the softness of zephyr, the hardness of diamond,
🔻🔻
the sweetness of honey, the cruelty of tiger, the warm glow of fire, the coldness of snow, the chattering of jays, the hypocrisy of the crane and compounding all these together he made women.
Ironically Pakistan especially rural areas are primarily male dominant
🔻🔻
and working women are looked down upon with contempt and scorn. The role of Pakistani women in their families revolves around well-established conventions of male supremacy and female sub ordinance. Female population of our country is greater than male population.
🔻🔻
If such a big portion of population is kept behind then it’s difficult to progress and we will lag behind the developed countries. Here the complete responsibility lies with the men to educate and encourage women to step forward and play their constructive role.
🔻🔻
Women are not only for home-making and child-bearing but they must also be given chance to put their hands a little forward in building up of a good solid society. A good solid society is a good harbinger of development.
Thanks for reading till this end.....
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
CONVERSATION BETWEEN ME AND GOD
God: Hello. Did you call me ?
Me: Called you? No. Who is this?
God: This is GOD. I heard your prayers. So I thought I will chat.
Me: I do pray. Just makes me feel good. I am actually busy now. I am in the midst of something.
🔻🔻
God: What are you busy at? Ants are busy too.
Me: Don't know. But I can't find free time. Life has become hectic. It's rush hour all the time.
God: Sure. Activity gets you busy. But productivity gets you results. Activity consumes time. Productivity frees it.
🔻🔻
Me: I understand. But I still can't figure out. BTW, I was not expecting U to buzz me on instant messaging chat.
God: Well I wanted to resolve your! Fight for time, by giving U some clarity. In this net era, I wanted to reach you through the medium you are comfortable with.
🔻🔻
پشاور بورڈ کے 1098 کے 3ایٹمی دھماکوں کے بعد ۔۔۔۔۔
ملاکنڈ بورڈ نے
1098 کے 5 ایٹمی
دھماکے کر کے
پشاور بورڈ کی توپوں کو خاموش کرادیا۔۔۔۔😅
👇👇
پھر
مردان بورڈ نے
میدان میں کود
کر 1100 کا 1 ھائیڈروجن بم
اور 1098کے کئی ایٹمی دھماکے کرکے
ساتھ ہی ساتھ 1096 کے
کلسٹر بموں کی بارش کردی
جس پر
تمام بورڈز کی توپوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کرادیاگیا
👇👇
لیکن اج پنجاب کے بورڈز نے 1100 کے 100 سے زائد ہائیڈروجن بم اور 1098 کے بےشمار دھماکے کر کے پاکستانی دوسرے بورڈز کے علاوہ دنیا کو کو بھی پیچھیے چھوڑ دیا ہے 😜😜😜
👇👇
ذرا حوصلے سے پڑھیں
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
دورِ حاضر کی سیاست نے جہاں پاکستانیوں کو تبدیلی کے آنے کی نوید سنائی، وہیں بغیر سوچے سمجھے بولنے کے رواج کو عام کیا
🔽🔽
سوال یہ ہے کہ بھٹو، جنرل ضیاء الحق، اور جنرل مشرف کے ادوارِ حکمرانی میں کیا یہ گالم گلوچ، برے نام سے پکارنا، اؤے اور تم جیسے الفاظ استعمال ہوتے تھے؟
اگر ہوتے بھی تھے، تو کبھی کبھار اور خطاب کرنے والے کے لیے باعث شرمندگی قرار دیئے جاتے.
🔽🔽
لیکن عصرِ حاضر میں یہ بات مشاہدے میں ہے کہ بے تُکی گفتگو، بُرے ناموں سے پکارنا مخالف پارٹی کے حامیوں کو چڑانے اور نیچا دکھانے کے لیئے خصوصی طور پر تواتر سے رواج پکڑ چکا ہے.
پٹواری، جیالا، نونی، یوتھیا جیسے القابات دینا اب معیوب بات نہیں سمجھی جاتی.
🔽🔽
ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی غربت کیوں ھے؟
جواب ملا
میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا لوگوں نے شور مچا رکھا ھے
آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے
🔰
ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے
(سلیٹ) پر سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا کنکر) استمعال کرتے تھے۔
اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے
🔰
اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے
کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا
🔰
ضلع راجن پور کے شہر کوٹ مٹھن سے اگر چاچڑاں شریف کی جانب جائیں تو بے نظیر برِج پر چڑھنے سے پہلے دائیں ہاتھ پر ایک کچا راستہ مڑتا ہے جہاں دریا پار کرنے کے لیئے ایک عارضی پل قائم تھا۔ اِس پُل کے نزدیک حفاظتی بند کے ساتھ ایک حیران کُن منظر آپ کو اپنی جانب متوجہ کرے گا
🔰🔰
۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے یہاں ماضی میں کوئی بحری جنگ لڑی گئی ہو اور دشمن اپنے جہاز چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو۔ یہاں آپ کو لہلہاتے اور سر سبز کھیتوں کے کنارے کیچڑ میں دھنسا ہوا ایک دیو ہیکل لوہے کا بحری جہاز نما ڈھانچہ نظر آئے گا، یہ "انڈس کوئین" ہے۔
🔰🔰
سابقہ ریاست بہاول پور کا "ستلج کوئین" جس سے کچھ دور ایک سٹیمر اور دو کشتیاں بھی اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہیں
اس کی مکمل تاریخ کے لیئے ہمیں ماضی کا چکر لگانا ہو گا۔ برِصغیر میں جب برٹش راج قائم ہوا تو سندھ سے پنجاب تک پُختہ سڑک اور ریلوے لائن نہ ہونے کی وجہ سے
🔰🔰