رحمت للعالمین
رحمت : وہ عطیہ جو کسی کی ظاہری و باطنی کمیاں پوری کر دے
محمد آج سے 1389 سال پہلے وفات پا گئے اسلیے وہ اس تعریف پہ پورا نہیں اترتے یہ قرآن کا لقب ہے محمد کا نہیں
ہم نے للعالمین کی ظاہری و باطنی کمیاں پوری کرنے والے عطیہ کے سوا آپکی طرف کچھ ارسال نہیں کیا @usmanjaun
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْـرَكَ (94/4)
کسی بھی آیت کا مفہوم سمجھنے کا اصول یہ نہیں کہ ایک آیت مضمون سے علیحدہ کریں اور اپنی مرضی کے معانی پہنا دئیے جائیں۔
جب آپ سورۃ الشرح کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہاں نبی کریم کی جدوجہد کے ابتدائی دنوں کی سختیوں پھر آہستہ آہستہ اس میں بہتری آنے اور
سختیوں بھرا زمانہ گزارنے کے بعد ملنے والے آسائش کو نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے ڈٹ جانے کا حکم ہے
اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۗ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (33/56)
بلاشبہ اللہ اوراسکی کائناتی قوتیں ربط/کمیونیکیٹ (يُصَلُّوْنَ) کرتے ھیں خبر دینے والے سے (النَّبِيِّ) اے لوگو جو ایمان لائے ھو
تم بھی اس سے رابطہ (کمیونیکیٹ) کرو اور اسے (قرآن کو) تسلیم کرو جیسے (پیغمبر) تسلیم کرتا ھے۔
یصلون کا ایک مطلب تائید و نصرت حاصل ہونا بھی ہے۔
سورۃ الاحزاب آیت 56 ہے عربی متن میں کوئی لفظ ایسا نہیں جسکا ترجمہ عربی زبان کے کسی بھی اصول کے تحت درود کیا جا سکے اور
میرے موجودہ علم کے مطابق درود اسماعیل بخاری کی ایجاد ہے جو نبی کریم کے 178 سال بعد پیدا ہوا تھا اس سے پہلے امت مسلمہ درود کے کونسیپٹ سے واقفیت نہیں تھی اور براہ راست قرآن سے متصادم ہے
جہاں ایک طرف بخاری محمد کی آل کا زکر کرتا ہے جو سب جانتے ہیں کہ بیٹے سے چلتی ہے اور قرآن کے مطابق محمد کسی مرد کے باپ نہیں۔
عید میلاد النبی کیوں منائی جاتی ہے ؟
اس پر اعتراض کرنے والوں میں ناچیز سرفہرست ہے
کیا اللہ نے حکم دیا ؟
جواب ھے نہیں ؟
کیا نبی نے حکم دیا ؟
نبی کی اتنی جرات ھی نہیں کہ سورۃ یونس آیت 15 اور المائدہ آیت 44 45 47 اور 48 کی روشنی میں خلاف قرآن کوئی حکم دے
میلاد دین کا جزو بھی نہیں
اور آخری بات یہ کہ جب ثابت ہے کہ 12 ربیع الاول محمد کی برسی کا دن ہے تو پھر ایسے عظیم انسان کے یوم وفات پہ جشن منانے کا کیا مطلب ہے ؟
یہی کہ جان چھٹی، مصیبت مغروں لتھی، اس دن اپنے کنجر خانے کرنے میں آزاد ہوئے تھے۔
کل جو کچھ میلاد کے نام پہ ہوا بہتر اس پہ مکمل پابندی عائد کی جائے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
نیچے دی گئی آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ خود ہی واضح فرما رہے ہیں کہ "یاجوج و ماجوج" محاورہ ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے والے طاقتور طبقات کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ہر قوم میں اسکے یاجوج ماجوج موجود ہوتے ہیں اور وہ بڑے بلند مناصب سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
انہیں وہاں سے بزور طاقت کھینچ کر باہر لا پھینکنا ہوتا ہے تب ہی قوم دوبارہ ترقی اور مرفع الحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے
يَّنْسِلُوْنَ (21/96)
اور ممنوع ہو جاتا ہے ایسی بستی پر جسے ہم نے ہلاک کر دیا یعنی پستی میں گرا دیا ہو (اھلکناھا) کہ وہ اپنے سابقہ مقام پر واپس آسکے (یرجعون ) جب تک کہ ایسا نہ ہوجائے کہ انکے تمام فسادی لوگوں [یاجوج و ماجوج] پر فتح پا لی گئی ہو (فُتحت) اور انہیں تمام
کیا آپ نے کبھی غامدی، شیخ محمد، طارق جمیل، شہنشاہ نقوی، مرزا مسرور، تقی عثمانی جیسے مذہبی فراڈیوں کو قرآنی قوانین بیان کرتے سنا ھے ؟
ان میں سے کسی نے بتایا ہو کہ غیر قرآنی نظام حکومت شرک ھے، سیاسی جماعتیں شرک ہیں، فرقہ بندی شرک ھے، سرمایہ داری نظام حرام ھے،جاگیر داری نظام حرام ھے
اللہ کی پیدا کردہ کسی بھی شے اور اس کے ماحصل پر ذاتی ملکیت حرام ھے، زائد از ضرورت مال مستحقین کے لیے کھلا رکھنا ھے، یتامیٰ کی سرپرستی فرض ھے، مساکین کے روزگار کا بندوبست کرنا فرض ھے، بنی نوع انسان کے لیے زرائع نشوونما فراہم کرنا فرض ھے، قوانین خداوندی کی آگاھی حاصل کرنا اور
اس کے مطابق ذاتی زندگی سے لے کر حکومت چلانے تک تمام معاملات دیکھنا فرض ھے۔
کسی نے بتایا کہ خارج از قرآن کسی بھی بات کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ کسی نے بتایا کہ
ہمارے عہد کے شیعہ سنی قادیانی دیوبندی وہابی بریلوی اور اہلحدیث سمیت تمام فرقے اسلام سے اپنی وابستگی کے باوجود الگ الگ خانوں میں جی رہے ہیں۔ ان کا ملی مفاد الگ، ان کی کتابیں الگ، ان کے علماء الگ، ان کی نماز الگ حتی کہ مساجد بھی الگ الگ ہیں۔ کون سی مسجد کس مسلک کی ہے اس کا اندازہ
اس مسجد میں پائی جانے والی دینی کتب سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ذرا باریک بینی سے دیکھئے تو یہ حقیقت چھپائے نہیں چھپتی کہ مسجدیں ہوں یا مدرسے، بظاہر ان پر دینداری کا کتنا ہی ملمع کیوں نہ چڑھا ہو اور ان کے میناروں سے اللہ اکبر کی صدا کیوں نہ سنائی دیتی ہو دراصل یہ تنگ نظری، تعصب
اور فرقہ بندی کے قلعے بن کر رہ گئے ہیں جہاں خدائے واحد کی عبادت کے بجائے اپنے اپنے فرقوں اور مسلکوں کا علم بلند کیا جا رہا ہے اور انکے متعلق قرآن کے احکامات درج ذیل آیات ہیں (1) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے باہمی تفرقہ پیدا کر لیا اور عذابِ خداوندی کے مستحق قرار پا گئے
میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا۔
احمد یار خان بریلوی
(جاء الحق : ١/٢٣٦)
سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافلِ میلاد نہیں منعقد کیں بجا ہے۔
غلام رسول سعیدی بریلوی
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
مروجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اصل نہیں ہے اس کی ابتداء چھٹی صدی عیسوی میں ھوئی سب سے پہلے مصر میں نام نہاد شیعوں نے یہ جشن منایا (الخطط اللمقریزی 490/1)
یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی ایک مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وھی بارھوں دن
معین کرنا بعد میں ھوا ھے یعنی چھٹی صدی کے آخر میں"
عبد السمیع رامپوری بریلوی
(انوار ساطعہ 159)
خود طاھر القادری صاحب اپنی کتاب "میلاد النبی" میں لکھتا ھے کہ صحابہ 12 ربیع الاول کو میلاد نہیں مناتے تھے بلکہ غمگین رھتے تھے کیونکہ جب ان کی زندگی میں 12 ربیع الاول کا دن آتا تو
شیعہ سنی قادیانی دیوبندی وہابی بریلوی اور اہلحدیث سمیت تمام فرقوں کے نام قرآن کا پیغام
(1) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے باہمی تفرقہ پیدا کر لیا اور عذابِ خداوندی کے مستحق قرار پا گئے ایمان لانے کے بعد فرقہ بندی کفر ہے۔ (105/106_3)
(2) تم ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور بانہوں میں باہیں ڈال کر حوادثِ زمانہ کا مقابلہ کرو۔ (3/200)
(3) جن لوگوں نے دین میں فرق پیدا کر لئے‘ رسولؐ کا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ (6/159)
(4) ایسی مسجد کی تعمیر جس سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہوتا ہو‘ کفر ہے۔ا س میں کسی کو قدم تک نہیں رکھنا چاہئے۔ (107/108_9)
جب انسان اس زمین سے اگایا گیا تو نہ تیری کا جھگڑا تھا نہ میری کا رونا۔ جدھر سے جو چاہتا ہاتھ بڑھاتا اور پھل توڑ کر پیٹ بھر لیتا کیونکہ تب تک زمین صرف اللہ کی ملکیت تھی اور اس کی تمام پیداوار انسانوں اور دیگر مخلوقات کی خوراک اور دیگر ضروریات کے لئے کھلی تھی پھر انہی انسانوں میں
سے چند ایک نے ایک فرقہ بنا کر طاقت حاصل کی اور وسائل و محاصل پیداوار پر روک لگانا شروع کر دیا اور یہیں سے بھوکے انسانوں سے خوراک کے بدلے بیگار لینے کا آغاز ہوا اور غلامی/نوکری کے تصور نے جنم لیا۔ یہیں سے قبائل کی سرداری نظام تشکیل پایا۔ اب سردار کو، ان بھوکوں ننگوں جن کے
محاصل پیداوار چھین کر وہ اپنے خزانے بھرتا تھا، کی نظروں میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے کچھ خطرات نظر آئے تو اس نے اپنے اردگرد کچھ پہلوان نما لوگوں کو خوراک و مراعت کے بدلے اپنی حفاظت پر رکھ لیا اور اس طرح لٹھ بردار فوج کے تصور نے جنم لیا مگر یہ جسمانی طور پر تو سردار کی