#پولیس_کو_عزت_دو
آصف محمود | ترکش | روزنامہ 92 نیوز
تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ میرے دامن سے مگر یہ سوال لپٹا ہے کہ ہنگاموں میں جو تین پولیس اہلکار شہید ہو گئے وہ کس کے خون کا صدقہ ہیں؟
بے نیازی دیکھیے ، لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز کے ترجمان مظہرحسین صاحب نے میڈیا کو بتایا کہ تین پولیس اہلکار شہید ہو گئے ہیں ، ایک کا نام خالد،دوسرے کا نام ایوب ہے جب کہ تیسرے کی شناخت نہیں ہو سکی۔کسی محکمے کی جانب سے اپنے شہداء کے ساتھ اس سے ز یادہ بدسلوکی کی کوئی مثال
اگر موجود ہو تو میرے لیے یہ بریکنگ نیو ز ہو گی۔
ڈی آئی جی نے کلام کرنا ہی گوارا نہیں کیا ، گویا ایک معمولی سا مسئلہ تھا ، ترجمان پر چھوڑ دیا ۔اور ترجمان کی چشم خوباں کی بے نیازیاں دیکھیے انہوں نے کس ارزانی سے کہہ دیا تیسرے کی شناخت نہیں ہو سکی۔
ایک انسانی وجود فرض کی ادائیگی میں جان سے گزر گیا اور اس کے اپنے محکمے کا ترجمان ارشاد فرما رہا ہے مرنے والے کی شناخت نہیں ہو سکی۔میر صاحب نے کہا تھاـ:
داغ رہنا دل و جگر کا دیکھ
جلتے ہیں اس طرح کباب کہاں
بے اعتنائیاں دیکھیے۔تیسرا نام ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
ابھی بھی ایک عام آدمی الجھن میں ہےکہ پولیس کے شہداء کی تعداد دو تھی یا تین۔ وزیر اعلی کے مطابق بھی تین اہلکارشہید ہوئے اور ڈی آئی جی آپریشن کےترجمان کے مطابق بھی یہ تعداد تین تھی۔شہید اگردو تھے اور تین بتائے گئے تب بھی نا اہلی ہے
اور اگر یہ تین تھے مگر محکمے کو تیسرےکانام معلوم نہیں تھا
، تب بھی یہ نا اہلی اور سفاکی کا انچھر تھا جو محکمے کے ترجمان کی زبان سے ادا ہوا اور سارا ماحول آلودہ کر گیا۔
یہ تین لوگ کون تھے۔ کیا یہ ریاضی کے بے روح ہندسے تھے ؟
ایسا نہیں ہے۔ یہ جیتے جاگتے انسانی وجود تھے
گھروں میں کوئی ان کی راہ دیکھتاہوگا۔ کتنے خواب ہوں گے جن کی ڈوری سے یہ بندھے ہوں گے۔شہید ہونے والے ایک اہلکار کی کی عمرانسٹھ برس تھی۔کیاعجب وہ ساری رات جاگ کر ریٹائر منٹ اور پنشن کاحساب کرتا ہو،اورکیامعلوم اس کی بیٹیوں کی کتنی ہی خوشیاں ان پیسوں کےانتظار میں خزاں اوڑھے بیٹھی ہوں
۔ دھول سے اٹی سڑکوں پر ڈیوٹی دیتے دیتے اس کے بال سفید ہو گئے اور بدلے میں اسے کیا ملا؟۔ ڈی آئی جی نے کلام کرنا ہی اپنی توہین سمجھی اور ترجمان کو آگے کر دیا۔ ترجمان بولا بھی تو کیا بولا: تیسرے شہید کی شناخت معلوم نہیں
وطن عزیز میں سیاسی تحریکیں ہوں یا مذہبی ،ان کا متن اپنے حاشیے سے مختلف ہوتا ہے
عنوان حسین ہوتے ہیں مگر مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہ تحریکیں بالادست طبقات کے شطرنج سے ز یادہ کچھ نہیں ہوتیں۔دکھ تو یہ ہے کہ ان میں انسانوں کو پیادوں کی استعمال کیا جاتا ہے
جو جان سے گزر جائے وہ صرف ہندسوں کی صورت گنے جاتے ہیں
۔ تین #مر جائیں تو شناخت بھی صرف دو کی ہو پاتی ہے۔
یہ سوال آج تک حل طلب ہے کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ، قاضی حسین احمد صاحب نے کیوں دھرنا دیاتھااور اس دھرنے میں جو کارکنان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کیا کسی نے مڑ کر کبھی
ان کے اہل خانہ سے پوچھا کہ تم پر کیا بیت رہی ہے
طاہر القادری صاحب کے پرچم تلے جو کارکنان جان سے گئے ان کا خوں بہا کدھر گیا؟نوا زشریف صاحب کے کاررواں میں ایک بچہ کچلا گیا تو داماد جی نے فرمایا یہ شہید جمہوریت ہے
۔ سوال یہ ہے کہ یہ شہید جمہوریت کا منصب کارکنان کے لیے ہی کیوں؟ اپنی بار پلیٹ لیٹس کے نوحے کیوں بلند کیے جاتے ہیں؟
؟
پولیس کا معاملہ یہ ہے کہ شطرنج پر جب بھی کبھی کوئی بساط بچھائی جائے اور کسی بھی عنوان کے تحت بچھائی جائے یہ محکمہ ہر واردات کا #قتیل ہوتا ہے
۔مقاصد حاصل ہو جانے پر جب فریقین اور قائدین چمکتے دمکتے چہروں کے ساتھ ’ معاملہ ‘ ہو جانے کی نوید سناکر قوم سے داد پا رہے ہوتے ہیں تو پولیس کے لاشے وہاں حرف اضافی ہوتے ہیں
۔ ان شہیدوں کو نہ کوئی روتا ہے نہ کوئی یاد کرتا ہے۔ حتی کہ ان کے اپنے محکمے کے ترجمان کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جو اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اس کا نام کیا تھا۔اسے بس کیمروں کے سامنے آ کر کارروائی ڈالنے کی جلدی ہوتی ہے
۔
پولیس سے ہم لوگوں کو اکثر شکوے رہتے ہیں اور وہ کچھ غلط بھی نہیں لیکن کیا کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ ہم نے اس محکمے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔کبھی دل کی آنکھ سے اس کانسٹیبل کو دیکھیے جو سڑک کنارے موسم کی سختیاں جھیلتے جھیلتے وقت کی دھول بن چکا ہے
۔چھوٹے شہروں کو چھوڑیے ، اسلام آباد کا عالم یہ ہے کہ جگہ جگہ ناکے ہیں ۔ ان ناکوں پر پولیس اہلکار وں کے لیے کسی سائے ، پنکھے اور حتی کہ پانی تک کا انتظام نہیںہوتا۔ بارش برس پڑے تو بے چارے درختوں کے نیچے جا چھپتے ہیں۔
آٹھ آٹھ گھنٹے ٹریفک سگنلز اور ناکوں پر ڈیوٹی دینے والوں کے لیے آج تک کسی نے واش روم بنانےکی ضرورت محسوس نہیں کی
ریڈزون کی دہلیز پر شام کو پولیس اہلکار لوگوں سے لفٹ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ سارا دن وہ اشرافیہ کی سیکیورٹی کی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں اور واپسی پر لوگوں سے لفٹ مانگتے رہتے ہیں
۔محکمے کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ انہیں باوقار طریقے سے پک اینڈ ڈراپ ہی دے دے۔ان کی عزت نفس ہر رو ز سڑکوں پر پامال ہوتی ہے
یہ داخلی خطروں کی فرنٹ لائن پر کھڑے ہوتے ہیں۔ دہشت گردی ہو یا قانون شکنی ، سماج کے اندر پہلا وار ان کے سینے پر ہوتا ہے
۔لیکن ان کو بدلے میں کیا ملتا ہے؟یہ زخمی ہو جائیں تو علاج کی سہولت نہ ہونے
کے برابر ہے۔ یہ شہید ہو جائیں تو ان کے بچوں اور اہل خانہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان کے لیے کوئی نظمیں نہیں لکھتا۔ ان کے لیے کوئی نغمے نہیں ہیں۔ان کے شہداء کے اعزاز میں معاشرے میں کہیں کوئی تقریب نہیں ہوتی
۔
کبھی پولیس لائنز جائیے اور دیکھیے یہ کس حال میں رہتے ہیں۔ تھانوں کا بجٹ کون کھا جاتا ہے ، معلوم نہیں۔لیکن یہ معلوم ہے وہ تھانوں تک نہیں پہنچتا۔افسران کے ا ن کے اہل خانہ سمیت مزے ہیں ۔ پولیس فائونڈیشن کے عنوان سے کرپشن کی جو کہانیاں ہیں وہ حیران کن ہیں
۔سخن ہائے نا گفتہ کو تو چھوڑ ہی دیجیے سخن ہائے گفتہ ہی اتنے خوفناک ہیں کہ الامان
یہ درست کہ پولیس کے نظام میں اصلاح کی بہت ضرورت ہے لیکن کچھ کام سماجی سطح پر بھی ہونے چاہیں۔ اور پہلا کام یہ ہے کہ محکمہ پولیس کی روح پر لگے گھائو مندمل کیے جائیں
بلا شبہ یہ گھائو حکومتی اصلاحات سے ہی مندمل ہو سکتے ہیں لیکن سماج اگر اپنے طر ز عمل سے اس گھائل روح پر کچھ مرہم ضرور رکھ سکتا ہے۔
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
حمد کی قبولیت بہ واسطۂ سلام
سلام کی اہمیت اِس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی قبولیت کا انحصار سلام پرہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے:
سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَo وَسَلٰـمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَo وَالْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَo
’’آپ کا رب جو عزت کا مالک ہے اُن (باتوں) سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اور (تمام) رسولوں پر سلام ہو۔ اور سب تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
اِن آیات میں اللہ رب العزت اپنی تعریف و تحمیدمیں مشغول بندوں سے فرما رہا ہے کہ میری ذات تمہاری تعریفوں کی حد اور گنجائش سے کہیں بلند و برتر ہے۔ تم میری تعریف اور مدح و ستائش کا حق ادا ہی نہیں کرسکتے۔ میری عظمت اور بزرگی کا ادراک تمہارے بس کی بات نہیں۔
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذکرِ خدا ہے
خالقِ کائنات نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق عظیم، عجز و اِنکسار اور مقامِ عبدیت میں درجۂ کمال پر پہنچنے کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو دنیا کی ہر چیز پر بلندی
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
و رفعت
کا مورِد ٹھہرایا۔ اِرشاد فرمایا:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo
الانشراح، 94: 4
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذِکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا وآخرت میں ہر جگہ) بلند کر دیاo‘‘
اِس اِرشادِخداوندی کی تفسیرایک حدیث مبارکہ کےمضمون سے بخوبی ہوجاتی ہے۔
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أنَّ رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم قال: أتانی جبریل، فقال: إن ربّی وربّکَ یقولُ لک: کیف رفعتُ ذکرکَ؟ قال: ﷲ أعلمُ. قال: إذا ذُکِرتُ ذُکِرتَ معی.
ابن حبان، الصحیح، 8: 175، رقم: 3382
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
قرآن مجید نے بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام ولادت کا تذکرہ فرماکر اس دن کی اہمیت وفضیلت اور برکت کو واضح کیاہے:
1۔حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالےسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO
’’اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گےo‘‘
مريم، 19 : 15
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
2۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کلام کی نسبت کرکے قرآن مجید فرماتا ہے
وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO
’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کےدن اورجس دن میں زندہ اٹھایاجاؤں گاo‘‘
مريم،19:33
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذاتِ گرامی اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ لفظ رحمت کی تفسیرسورۃ الانبیاء کی اُس آیت سے ہوتی ہے جس میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک صفاتی لقب رحمۃ للعالمین بیان ہواہے۔
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
اﷲ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا :
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے لیے سراپا رحمت بنایا گیا ہے جس میں صرف عالمِ اَرضی ہی نہیں بلکہ دیگر سارے عوالم بھی شامل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائرہ رحمت تمام انسانیت کو محیط ہے۔
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
یہ محض اﷲ کا کرم ہے کہ اس نے راہِ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت میں اپنا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرمایا اور بنی نوع انسان شیطانی حملوں سے بچ گئی۔
#وماارسلنك_الارحمة_للعالمين
رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد سرانجام دیے جانے والے اُمور کی تصریح بھی خود قرآن فرما رہا ہے :