بخاری کی 61 سال کی زندگی تھی۔ اس میں سے 10 سال انکے لڑکپن کی عمر نکال دیں۔باقی کے جو 51 سال ہیں ان میں بخاری نے 6 لاکھ حدیثوں کو لوگوں سے سنا، انکی صحت کو جانچا، راویوں کے جھوٹا سچا ہونے کی تصدیق کی، یاد کیا ، اور کتاب میں لکھا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ 1 سال 365 دنوں کا ہوتا ہے ۔ اس لیے اب ہم بخاری کی حدیث جمع کرنے والی 51 سالہ زندگی کو دنوں پر convert کر لیتے ہیں۔ بخاری نے جن 51 سالوں میں حدیثوں کو سنا اور یاد کیا اور کتاب میں لکھا ان 51 سالوں کو 365 دن سے ضرب دے دیجئے ، تو 18،615 دن بن رہے ہیں یعنی
بخاری نے 18،615 دنوں کی زندگی میں 6 لاکھ حدیثوں کو سنا ، یاد کیا اور کتاب میں لکھا اس حساب سے اب ہمیں یہ جاننا ہے کہ ایک دن میں بخاری نے کتنی حدیثوں کو سنا ، یاد کیا اور لکھا تھا، اسکے لئے اب ہم 6 لاکھ حدیثوں کو 18،615 دنوں سے تقسیم کر دیتے ہیں، جواب آئے گا 32.23 حدیث، کیا یہ
ممکن ہے کہ عرب سے دور ایران میں رہنے والا ایک 10 سالہ بچہ دن کے 10 سے 12 گھنٹوں میں 32 حدیثوں کو ٹھیک ٹھیک سن لے اور اس پر تحقیق بھی کر لے پھر اسکو ٹھیک ٹھیک یاد بھی کر لے اور پھر اسکو ٹھیک ٹھیک کتاب میں بھی لکھ لے اور پھر اسکو وحی کا درجہ بھی دے ؟
کیا یہ ممکن ہے ؟
اگر ممکن ہے تو بخاری کا نام گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی نام درج ہونا چاہئے۔ بخاری کا ریکارڈ صرف یہی نہیں ہے بلکہ بقول بخاری کہ وہ ہر حدیث کے لئے دو نفل نماز بھی ادا کیا کرتے تھے ۔ اب بخاری صاحب کی جمع کردہ 6 لاکھہ حدیثوں کو 2 نفل سے ضرب دیں تو جواب آئے گا 12 لاکھ یعنی
بخاری نے 51 سالوں میں 12 لاکھ رکعت نفل کا بھی ریکاڈ بنایا ہے۔
ابھی تو بخاری کا وہ وقت جب وہ حدیث کے لئے دور دراز ایک شہر سے دوسرے شہر جاتا تھا، کھانا، پینا، سونا، کپڑے بدلنا، رفع حاجت نہانا دھونا، 12 لاکھ نوافل، غلاموں کی تجارت اور اپنا سرمایہ دوسروں کے کام میں لگا کر
بطور سلیپنگ پارٹنر الربا کھا کر اللہ و رسول سے جنگ میں صرف کیا گیا وقت count ہی نہیں کیا ہے۔ اس زمانے میں نہ کوئی فور بائی فور گاڑی تھی نہ ہوائی جہاز تھا نہ کوئی ٹرین تھی ، جب ایک شہر سے دوسرے کسی قریبی شہر جانے کے لئے دنوں کا سفر کرنا پڑتا تھا
سمجھ نہیں آتا کہ
اس دور میں اس بچہ نے 51 سالہ زندگی میں ایک شہر سے دوسرے شہر جا کر 6 لاکھ حدیث کیسے جمع کی اور کیسے 12 لاکھہ رکعت نفل ادا کئے ہونگے۔
یہ تو ممکن ہی نہیں کے سلجھ جائے یہ قوم
بہت سوچ سمجھ کر اہل دانش نے الجھایا ھے اسے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
نیچے دی گئی آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ خود ہی واضح فرما رہے ہیں کہ "یاجوج و ماجوج" محاورہ ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے والے طاقتور طبقات کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ہر قوم میں اسکے یاجوج ماجوج موجود ہوتے ہیں اور وہ بڑے بلند مناصب سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
انہیں وہاں سے بزور طاقت کھینچ کر باہر لا پھینکنا ہوتا ہے تب ہی قوم دوبارہ ترقی اور مرفع الحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے
يَّنْسِلُوْنَ (21/96)
اور ممنوع ہو جاتا ہے ایسی بستی پر جسے ہم نے ہلاک کر دیا یعنی پستی میں گرا دیا ہو (اھلکناھا) کہ وہ اپنے سابقہ مقام پر واپس آسکے (یرجعون ) جب تک کہ ایسا نہ ہوجائے کہ انکے تمام فسادی لوگوں [یاجوج و ماجوج] پر فتح پا لی گئی ہو (فُتحت) اور انہیں تمام
کیا آپ نے کبھی غامدی، شیخ محمد، طارق جمیل، شہنشاہ نقوی، مرزا مسرور، تقی عثمانی جیسے مذہبی فراڈیوں کو قرآنی قوانین بیان کرتے سنا ھے ؟
ان میں سے کسی نے بتایا ہو کہ غیر قرآنی نظام حکومت شرک ھے، سیاسی جماعتیں شرک ہیں، فرقہ بندی شرک ھے، سرمایہ داری نظام حرام ھے،جاگیر داری نظام حرام ھے
اللہ کی پیدا کردہ کسی بھی شے اور اس کے ماحصل پر ذاتی ملکیت حرام ھے، زائد از ضرورت مال مستحقین کے لیے کھلا رکھنا ھے، یتامیٰ کی سرپرستی فرض ھے، مساکین کے روزگار کا بندوبست کرنا فرض ھے، بنی نوع انسان کے لیے زرائع نشوونما فراہم کرنا فرض ھے، قوانین خداوندی کی آگاھی حاصل کرنا اور
اس کے مطابق ذاتی زندگی سے لے کر حکومت چلانے تک تمام معاملات دیکھنا فرض ھے۔
کسی نے بتایا کہ خارج از قرآن کسی بھی بات کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ کسی نے بتایا کہ
ہمارے عہد کے شیعہ سنی قادیانی دیوبندی وہابی بریلوی اور اہلحدیث سمیت تمام فرقے اسلام سے اپنی وابستگی کے باوجود الگ الگ خانوں میں جی رہے ہیں۔ ان کا ملی مفاد الگ، ان کی کتابیں الگ، ان کے علماء الگ، ان کی نماز الگ حتی کہ مساجد بھی الگ الگ ہیں۔ کون سی مسجد کس مسلک کی ہے اس کا اندازہ
اس مسجد میں پائی جانے والی دینی کتب سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ذرا باریک بینی سے دیکھئے تو یہ حقیقت چھپائے نہیں چھپتی کہ مسجدیں ہوں یا مدرسے، بظاہر ان پر دینداری کا کتنا ہی ملمع کیوں نہ چڑھا ہو اور ان کے میناروں سے اللہ اکبر کی صدا کیوں نہ سنائی دیتی ہو دراصل یہ تنگ نظری، تعصب
اور فرقہ بندی کے قلعے بن کر رہ گئے ہیں جہاں خدائے واحد کی عبادت کے بجائے اپنے اپنے فرقوں اور مسلکوں کا علم بلند کیا جا رہا ہے اور انکے متعلق قرآن کے احکامات درج ذیل آیات ہیں (1) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے باہمی تفرقہ پیدا کر لیا اور عذابِ خداوندی کے مستحق قرار پا گئے
میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا۔
احمد یار خان بریلوی
(جاء الحق : ١/٢٣٦)
سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافلِ میلاد نہیں منعقد کیں بجا ہے۔
غلام رسول سعیدی بریلوی
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
مروجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اصل نہیں ہے اس کی ابتداء چھٹی صدی عیسوی میں ھوئی سب سے پہلے مصر میں نام نہاد شیعوں نے یہ جشن منایا (الخطط اللمقریزی 490/1)
یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی ایک مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وھی بارھوں دن
معین کرنا بعد میں ھوا ھے یعنی چھٹی صدی کے آخر میں"
عبد السمیع رامپوری بریلوی
(انوار ساطعہ 159)
خود طاھر القادری صاحب اپنی کتاب "میلاد النبی" میں لکھتا ھے کہ صحابہ 12 ربیع الاول کو میلاد نہیں مناتے تھے بلکہ غمگین رھتے تھے کیونکہ جب ان کی زندگی میں 12 ربیع الاول کا دن آتا تو
شیعہ سنی قادیانی دیوبندی وہابی بریلوی اور اہلحدیث سمیت تمام فرقوں کے نام قرآن کا پیغام
(1) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے باہمی تفرقہ پیدا کر لیا اور عذابِ خداوندی کے مستحق قرار پا گئے ایمان لانے کے بعد فرقہ بندی کفر ہے۔ (105/106_3)
(2) تم ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور بانہوں میں باہیں ڈال کر حوادثِ زمانہ کا مقابلہ کرو۔ (3/200)
(3) جن لوگوں نے دین میں فرق پیدا کر لئے‘ رسولؐ کا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ (6/159)
(4) ایسی مسجد کی تعمیر جس سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہوتا ہو‘ کفر ہے۔ا س میں کسی کو قدم تک نہیں رکھنا چاہئے۔ (107/108_9)
رحمت للعالمین
رحمت : وہ عطیہ جو کسی کی ظاہری و باطنی کمیاں پوری کر دے
محمد آج سے 1389 سال پہلے وفات پا گئے اسلیے وہ اس تعریف پہ پورا نہیں اترتے یہ قرآن کا لقب ہے محمد کا نہیں
ہم نے للعالمین کی ظاہری و باطنی کمیاں پوری کرنے والے عطیہ کے سوا آپکی طرف کچھ ارسال نہیں کیا @usmanjaun
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْـرَكَ (94/4)
کسی بھی آیت کا مفہوم سمجھنے کا اصول یہ نہیں کہ ایک آیت مضمون سے علیحدہ کریں اور اپنی مرضی کے معانی پہنا دئیے جائیں۔
جب آپ سورۃ الشرح کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہاں نبی کریم کی جدوجہد کے ابتدائی دنوں کی سختیوں پھر آہستہ آہستہ اس میں بہتری آنے اور
سختیوں بھرا زمانہ گزارنے کے بعد ملنے والے آسائش کو نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے ڈٹ جانے کا حکم ہے