ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عمررسیدہ بزرگ اپنے بیٹے کے ہمراہ کسی دوسرے گاؤں میں کام کی غرض سے جانے کے لیے نکلا۔راستے میں ایک جنگل پڑتا تھا۔دونوں نے شام ڈھلنے سے پہلے جنگل تو عبور کر لیا مگر ابھی بھی گاؤں کافی دور تھا اور درمیان میں ایک چھوٹا سا پہاڑی 👇
سلسلہ بھی حائل تھا۔اوپر سے ستم یہ کہ باپ بیٹا تھکن سے بھی چور چور ہو چکے تھے۔ یہی سوچتے کہ اب کیا کرنا چاہیے سفر جاری رکھا جائے جو کہ بظاہر ناممکن لگ رہا تھا یا پھر کہیں قیام کیا جائے ان دونوں نے سفر جاری رکھا۔سوچوں میں غرق باپ بیٹا کچھ ہی دور چلے ہونگے کہ حد نگاہ کے اختتام پر👇
انہیں ایک گھر کی موجودگی کاشائبہ ساہوا۔ گھرکی موجودگی کے اس احساس نے جیسے ان دونوں میں کوئی برق سی بھر دی اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔جب قریب پہنچے تودونوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ واقعی اس وسیع و عریض بظاہر ویران میدان میں ایک کچا گھر واقع تھا۔جسکے احاطے میں👇
ایک فربہ بھینس جو کہ جگالی کرکےدن بھر کی تھکن کو زائل کرنے کی کوشش میں مصروف تھی۔اس سے پہلے کہ وہ دونوں باپ بیٹا اردگرد کے ماحول سے مانوس ہوکر کوئی اگلا قدم اٹھاتے اندر سے صاحبِ خانہ باہر نکلے اورمہمانوں کو دیکھکر خوش آمدید کہا۔بولے کہ لگتا ہے آپ تھک گئے ہیں اندر آئیں تھوڑا آرام
کریں کھانا کھائیں ویسے بھی شام کا اندھیرا پھیلنے کو ہے تو اس وقت آپ لوگوں کا سفر کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ لہٰذا دونوں باپ بیٹا چپ چاپ اندر چلےگئے۔دونوں کےلئے وسیع و عریض صحن میں چارپائیاں لگادی گئیں۔ اندھیرا مزید گہرا ہو رہا تھا اور ٹھنڈی مگر فرحت بخش ہوا بھی چل رہی تھی۔صاحبِ خانہ👇
نے بھینس کاتازہ دودھ اور تندور کی گرم روٹیاں جن پر بھینس کے دودھ کا سفید،لچیلا اور پگھلتا ہوا مکھن رکھا تھاکھانے کے لیے پیش کیں۔سفر سے تھکے ہارے باپ بیٹا کےلئے یہ طعام کسی من وسلویٰ سے کم نہ تھا۔بھوک کی شدت،تھکن اور گاؤں کے دیسی ماحول کے نشے کیوجہ سے دونوں ندیدوں کی طرح روٹی پر👇
ٹوٹ پڑے۔سارا دودھ مکھن چٹ کرنےکیبعد اپنی اپنی چارپائی پر چت ہو کرگر پڑے اور چند ثانیوں کے بعد خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگے۔
رات کے پچھلے پہر بزرگ باپ کی آنکھ کھلی اندھیرا کافی زیادہ پھیل چکا تھا مگر اب اسکی تھکاوٹ ختم ہوچکی تھی۔ بزرگ کی آنکھیں جب اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں👇
تو وہ اٹھا۔ وضو کیا اور اپنی چادر کو زمین پر بچھاکر پہلے رات کی نماز ادا کی۔پھر جب اسے احساس ہواکہ اب تہجد کاوقت ہواچاہتا ہے تو اپنے معمول کے مطابق خدا کے حضور کھڑا ہو کرتنہائی میں اپنے رب سے باتیں کرنے لگا۔رات کا سیاہ لبادہ صبح کے ملگجے اندھیرے میں بدلنے لگا بزرگ اپنے معمولات👇
خاموشی سے اداکرتا رہا۔فجر کیبعد افق پرپو پھٹنے کامنظر دیکھنے کےلیے باہرنکل آیا۔دور دور تک نہ گھر نہ کسی کا نام ونشان،وہ اک چھوٹے سے ٹیلے پر بیٹھکر مٹی ہاتھ میں اٹھا کردیکھنے لگا۔پھر مٹی کے اس ڈھیلے کو انگلیوں سے مسلتے ہی وہ سمجھ گیاکہ اس علاقے کی مٹی بہت زرخیز ہے۔اس بات کی درستگی
کوجانچنے کےلیے اس نے مٹی کوناک کے قریب کیا تو اسے اپنی سوچ پر یقین ہو چلاکہ یہ نہایت ہی بارآور اور قیمتی مٹی ہے۔پھر ایک خیال اسکے ذہن میں بجلی کی مانند کوندہ کہ اتنی زرخیز مٹی مگرنہ ہریالی نہ ہی کوئی کھیت کھلیان آخرماجرہ کیاہے۔اسی اثناء میں صاحبِ خانہ بالٹی ہاتھ میں اٹھائے باہر👇
نکلا اوربھینس کیجانب بڑھنے لگا۔اور بھینس کو پیار سے سہلاتے ہوئےاسکے دودھ سے بھرے تھنوں کو پانی سے دھونے کیبعد دودھ دوہنے لگا۔پھر بھینس کا تازہ دودھ بالٹی میں دھار دھار نکل کراکٹھا ہوتے ہوتے جھاگ اڑانے لگ گیا۔کچھ ہی دیر میں وہ بڑی سی بالٹی دودھ سےبھرگئی۔پھرچند لوگ ہاتھوں میں ڈول👇
اٹھائے آن وارد ہوئے اور صاحب خانہ سےدودھ خریدکر واپس چلے گئے۔یہ مناظرخاموشی سے دیکھنے کیبعدبزرگ،صاحبِ خانہ کے قریب آئے اور پوچھا کہ"میرے مشاہدے کیمطابق زمین جس پر آپکا گھر ہے بہت ہی زرخیز اور بارآور ہے۔مگریہاں نہ توکوئی کھیت ہیں نہ ہی کوئی پیڑ وغیرہ آخرقصہ کیا؟سوال سننے کے بعد👇
صاحبِ خانہ نے پرسکون لہجے میں کہاکہ"ہم صرف2 میاں بیوی ہیں اور یہ زمین میری ملکیت ہے۔ہم نے ایک بھینس پال رکھی ہے جوصبح شام دودھ دیتی ہے۔صبح کا دودھ بیچ دیتے ہیں جوکہ ہمارے گزر بسر کےلیے کافی سرمایامہیاکردیتاہےجبکہ شام کےدودھ سے مکھن لسی جیسی نعمتیں ہمارے کھانے پینے اور زندہ رہنے👇
کےلیے کافی ہوتی ہیں تو ہم اس زرخیز زمین پر کاشت کرکے کیوں مشقت اٹھائیں کھاناتو دووقت ہی ہوتا ہےجوکہ اللہ پاک آسانی سے دے رہاہے۔بزرگ نے سمجھانے کی کوشش کی"کہ زمین جو اللہ نے آپکودی ہے کئی لوگوں کاخواب ہوگی،جب اس پر پیڑ لگیں گے تو پھل پیدا ہونگے،کھیتی اگے گی تو اناج پیدا ہوگا جو👇
جوکتنے ہی لوگوں کےپیٹوں کوبھرے گا۔اللہ بھی خوش ہوگاکہ اسکےدیئے ہوئے میں سے اسکی مخلوق کھارہی ہے۔مگرصاحبِ خانہ نے سنی ان سنی کرتےہوئے واپسی کےلئے قدم بڑھا دئیے۔تھوڑی دیرمیں باپ بیٹےنے بھی ناشتہ کرکے رختِ سفر باندھ لیا۔جب وہ دونوں تھوڑا دورایک چھوٹی سی پہاڑی پرپہنچےتو بھینس خودرو👇
گھاس سے اپناپیٹ بھررہی تھی۔بزرگ نے اِدھر اُدھر دیکھا اورکسی طرح بھینس کو دھکادے کرپہاڑی سے نیچے گرادیا،دیکھتے ہی دیکھتے بھینس مرگئی۔ یہ سب دیکھکر بیٹے سے رہا نہ گیا۔اس نےوالد سے پوچھاکہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تو وہ گویاہوئےکہ بعدمیں کبھی بتاؤں گا۔اس واقعے کوکافی عرصہ گزر گیا۔👇
وہ بزرگ علالت کیبعدانتقال فرماگئے۔
رسومات سے فارغ ہو کر بیٹے کی ذہن میں خیال آیا کہ میرا باپ اتنا پرہیزگار تھامگر نہ جانے کیوں بھینس کودھکا دیکرمار دیا۔کہیں ایسانہ ہوکہ اس واقعہ کیوجہ سے انہیں عذاب میں مبتلاکردیا جائے۔یہ خیال آتے ہی بیٹےنے کچھ پیسے ساتھ لیے کہ صاحبِ خانہ کودیکر👇
معافی مانگ سکےاورگاؤں کیجانب چل پڑا۔ مگروہاں پہنچ کروہ بہت حیران ہوا۔ کیونکہ ہر طرف لہلہاتی فصلیں اورپھلدار درخت نظر آئے اوراب وہاں ایک گھرکی بجائے کافی سارے گھر اوربھینسوں کاایک باڑہ بھی بن چکا تھا۔وہ حیرت زدہ ساخوف کھاتے ہوئے صاحبِ خانہ کے پاس جاکر بولا"کیا آپ نے مجھے پہچانا"👇
صاحبِ خانہ ذراسے توقف کیبعدپرجوش ہوکر بولے،خوش آمدید صاحبزادے تمہارے والد کہاں ہیں۔دیکھو یہ سب انکے کہنے اور سمجھانے کیبعد میں نے شروع کیااور آج سینکڑوں لوگوں کاروزگار یہاں سے وابستہ ہوگیا ہے۔جب تم لوگ یہاں سے نکلے تو اسی دن میری بھینس بھی مرگئی،کچھ روز پریشان رہنے کیبعد میں نے👇
کمر باندھی اوریہ کرشمہ سرزدہوگیا"کہاں ہیں تمہارے والد میرے محسن انکوساتھ نہیں لائے۔ میں ان سے ملکر انکے ہاتھ چومناچاہتاہوں،یہ ہریالی یہ بہار آج اسی لئے نظرآرہی ہیں کہ اس صاحبِ نظر نے اس مٹی کی زرخیزی کو پہچان لیا تھا۔ورنہ یہ گاوں ویسے ہی اجاڑ اور ویران پڑارہتا۔وہ بزرگ کابیٹاسوچنے
کہ نئی شروعات،ہریالی،خوشحالی کےلیے "بھینس مارنی ہی پڑتی ہے"ورنہ ہم سادگی کا غلط مطلب اخذ کرکے اللہ کی دی گئی نعمتوں اورصلاحیتوں کو بروئےکار ہی نہیں لاتے۔اللہ پاک قرآن میں ارشاد فرماتاہے کہ "محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے"ہم محنت و مشقت سے بچنے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں کہ اللہ
نے جو دیا ہے بس وہی کافی ہے زیادہ کی لالچ کیاکرنا۔جبکہ محنت کرکے زیادہ کماکر دوسروں کابھلا بھی توکیاجا سکتا ہے۔
کیونکہ زیادہ کمانا برا نہیں ہے بلکہ غلط زرائعے سے کمانا گناہ ہے۔
خرچ کرنا برا نہیں، ناجائز جگہوں پر خرچ کرنا برا ہے۔
لہٰذا یہ طے کرناہوگا کہ
"ہم اپنی اپنی بھینس کب مار رہے ہیں"
آخر کب ہم اپنی خداداد صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں نکھاریں گے کہ اپنا اور پورے معاشرے کا بھلا ہو سکے۔
اپنے علاوہ دوسروں کا بھی بھلا کر سکیں۔
بقول شاعر:
"جو عمریں مُفت گنوائے گا
وہ آخر کو پچھتائے گا'
کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا
جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا'
تُو کب تک دیر لگائے گا
یہ وقت بھی آخر جائے گا'
اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے؟
پھر دیکھ خُدا کیا کرتا۔۔!!
ﭼﮭﻮﻟﯿﺎ۔
ﺁﭖ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﺼﺮﻉ ﮐﯿﺴﮯ آپکے ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟﺁﯾﺎ،
ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ:
”ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ لیکن پاکستان کا مطلب کیاہے؟
تو میرے ذہن
ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﮐﮧ
” ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎﮨﮯ؟
ﯾﮧ ﻧﻌﺮﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻃﻮﻝ ﻭﻋﺮﺽ ﻣﯿﮟﺍﺗﻨﺎ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم وملزوم ہو گئے۔
اسی لئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ
"اہل عرب جب شادی بیاہ کرتے تھے تو قدیم رواج کے مطابق دعوت کی تقریب میں شامل مہمانوں کی تواضع کےلیے بھنے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کو روٹی کے اندر لپیٹ کرپیش کرتے تھے۔
اگر کسی تقریب میں گھرکے سربراہ کوپتا چلتاکہ اس شادی میں شریک افراد کی تعداد دعوت میں تیار کیے گوشت کے ٹکڑوں کی تعداد سے👇
زیادہ ہے ، یا زیادہ ہوسکتی ہے ، تو وہ کھانے کے وقت دو روٹیاں (گوشت کے بغیر) ایک دوسرے کے ساتھ لپیٹ کر اپنے اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور انتہائی قریبی دوستوں میں تقسیم کرتے جبکہ گوشت روٹی کے اندر لپیٹ کر صرف باہر سے آئے ہوئے اجنبیوں کو پیش کیا جاتا تھا.
ایسا ہی ایک بار غریب شخص کے👇
ہاں شادی کی تقریب تھی جس میں اس شخص نے دعوت کے دن احتیاطاً بغیر گوشت کے روٹی کے اندر روٹی لپیٹ کر اپنے گھر والوں،رشتہ داروں اور متعدد قریبی قابلِ بھروسہ دوستوں کو کھانے میں پیش کی،تاکہ اجنبیوں کو کھانے میں روٹی کے ساتھ گوشت مل سکے اورکسی بھی قسم کی شرمندگی سے بچاجاسکے.
جنہیں👇
کل فیکے کمہار کے گھر کے سامنے ایک چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔جانے کون ملنے آیا تھا؟
میں جانتا تھافیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔
وھی ھوا شام کو تھلے پر آکر بیٹھا ھی تھا کہ فیکا چلا آیا۔👇
کہنے لگا۔"صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ھے آپ کو یاد ھے ماسی نوراں ہوتی تھی وہ جو بھٹی پر دانے بھونا کرتی تھی۔جسکا اِکو اِک پُتر تھا وقار"
میں نے کہا"ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ھوں"
اللہ آپکابھلا کرے صاحب جی،وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔
سکول میں👇
اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ ھوتی تھی۔ اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔ماسٹر جی ڈانٹ کر اسے گھر بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھااور دوائی لے۔اک دن میں آدھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھااور اچار کھولا۔
صاحب جی اج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ھے نا توسب👇
یہ 1282 ہجری کی بات ہے. سعودی عرب کے بریدہ شہر میں منیرہ نامی ایک نیک وصالح خاتون نے مرنے سے پہلے اپنے زیورات بھائی کے حوالے کئےکہ میری وفات کے بعد ان زیورات کو بیچ کر ایک دکان خرید لیں.پھراس دکان کو کرائے پر چڑھائیں اور آمدن کو محتاجوں پر خرچ کر دیں.
بہن کی وفات کے بعد بھائی نے
وصیت پر عمل کرتے ہوئے انکے زیورات بیچ کر بہن کے نام پر 12ریال میں ایک دکان خرید لی(اس زمانے میں 12 ریال کی بڑی ویلیو تھی) اور اسے کرائے پر چڑھا دیا۔کرائے کی رقم سے محتاجوں کیلئے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر دی جاتی رہی یہ سلسلہ دہائیوں جاری رہا۔ دہائیوں بعد دکان کا ماہانہ کرایہ 15
ہزار ریال تک پہنچ چکا تھا،اور اس رقم سے ضرورت مندوں کیلئے اچھی خاصی چیزیں خرید کر دی جاتی تھیں۔ پھر وہ دن آیا کہ سعودی حکومت نے بریدہ کی جامع مسجد میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دکان توسیع کی زد میں آ رہی تھی۔چنانچہ حکومت نے 5 لاکھ ریال میں یہ دکان خرید لی.
دکان کی دیکھ بھال
خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا.غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ کپڑے نہیں پہنتاتھا۔ ایک بار میرے ابا کو کپڑے کاسوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے۔تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جسکا+
اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا: ”اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای؟
میں نے کہا:”سوایا ہے چاچی“لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں۔لیکن اُنکو اعتبار نہ آیا خالہ،پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا
اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھاکہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔
پڑھنے لکھنے اور جاب کےبعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا۔تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے