حال ہی میں حکومت پاکستان کی طرف سے TTP کے ساتھ امن معاہدے اور فائر بندی کی خبریں سامنے آئیں تو مشہور نسل پرست تنظیم PTM کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان پربا کر دیا گیا کہ ریاست نے دہشتگردوں سے تو ڈیل کر لی لیکن پشتونوں کے
حقوق کے "پر امن" ٹھیکیداروں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک ہو رہا ہے۔
تو PTM کے نسل پرست کارکنوں کو سوچنا چاہئیے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ انہیں اس سوال کا جواب اپنے ہی گریبانوں میں جھانکنے سے ملے گا
چاہے وہ انگریز کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یا مسلمانوں کی، انہیں یہی سبق ملے گا کہ
دشمن سے تو معاہدے ہوتے ہیں لیکن منافقین کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
اسلام کے ابتدائی دور میں دین کے بدترین دشمنوں یعنی کفارِ مکہ کو تو عام معافی دے دی گئی لیکن مسلمانوں کے درمیان رہ کر دھوکہ دینے والے عبداللہ بن ابی کو اللہ نے بھی معاف نہ کیا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کا
کوئی بھی لیڈر یا کارکن اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ 2018 سے اب تک اس تنظیم کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور چلے۔ نقیب اللہ محسود کے قتل کو بہانہ بنا کر وجود میں آنے والی اس تنظیم کا جواز تو اسی دن ختم ہو گیا تھا جب نقیب کے والد نے PTM سے لاتعلقی کا اعلان کر کے پاکستان زندہ باد کا
نعرہ لگایا تھا۔
اس کے باوجود ریاست نے ہر مسئلے میں PTM سے مذاکرات کیے اور ان کے مطالبات مانے لیکن PTM کی بدنیتی ہر موقعے پر عیاں ہوتی رہی۔
خیسور میں دہشتگرد شریعت اللہ کا معاملہ ہو یا حیات آباد آپریشن، ہر موقعے پر PTM نے پشتون حقوق کی آڑ میں دہشتگردوں کی معاونت کی اور
اس کے مکروہ عزائم بری طرح عیاں ہوئے۔
گزشتہ تین سال میں امن کی دعویدار PTM نے قبائلی نوجوانوں میں نسل پرستی اور پاکستان سے نفرت کا زہر بھرنے کی پوری کوشش کی۔ ایک طرف دہشتگردی کے خلاف کھڑے ہونے کے دعوے تو دوسری طرف دہشتگردی کے پیچھے وردی کے نعرے لگائے۔
فوجی چیک پوسٹوں کو
ہٹانے کا مطالبہ، اپنی ہی بچھائی لینڈ مائنز پر فوج کے خلاف پراپیگنڈہ، چیک پوسٹوں پر فوجیوں سے بدتمیزی، نفرت انگیز جملہ بازی، کالیا پنجابی، باجوہ ماجوہ، غفورا مفورا، گل خان، چوکیدار، اسرائیلی آرمی زندہ باد کے نعرے، پاکستانی پرچم کی بے حرمتی، سرحد پر لگنے والی باڑ فوجیوں کے گلے میں
ڈال کر گھسیٹنے کی دھمکیاں، امریکہ سے راولپنڈی اور جی ایچ کیو پر بمباری کا مطالبہ۔۔۔ اور پھر یہ سب کرنے کے بعد اپنے الفاظ واپس نہ لینے کی ضد۔۔۔
ٹی ٹی پی نے تو کھل کر ریاست سے اعلان جنگ کیا،اور ریاست نے بھی کھل کر TTP کے خلاف آپریشن کیے۔ لیکن جس وقت پاک فوج
دہشتگردی کے خلاف آپریشن میں مصروف تھی، PTM نے کھل کر آپریشنز کی خلاف ورزی کی، فوج کی راہ میں روڑے اٹکائے اور پس پشت دہشتگردوں کی مکمل حمایت کی۔
اب جب کہ ریاست نے دہشتگردوں سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تو PTM کو اس فیصلے سے تکلیف قابلِ فہم ہے۔ یہ وہی تکلیف ہے جو ہر کہانی کے آخر میں
ایک منافق کو ہوتی ہے۔
اب PTM کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ دو کشتیوں کا سوار کبھی ساحل تک نہیں پہنچ سکتا۔ ایک طرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مزے اور دوسری طرف دہشتگردوں کی حمایت کا یہی انجام ہونا چاہیئے۔
ماضی میں آپریشنز کی مخالفت، اور آج مذاکرات کی مخالفت۔ ایسا لگتا ہے کہ PTM کے راہنما اپنی خود غرضی اور ذاتی مفاد کی دوڑ میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں خود سمجھ نہیں آ رہی وہ چاہتے کیا ہیں۔۔۔۔
اے پی ایس کے حوالے سے سرخون کے چند سوالات کے جوابات
پاکستان میں "افغانیت" کی علمبردار کئی قوم پرست تنظیمیں اور گروہ اے پی ایس کے سانحے پر مختلف قسم کے سوالات اٹھا کر اس کو پاکستان یا پاک فوج کی جانب موڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
ان افغان پرست تنظیموں میں پی ٹی ایم سر فہرست ہے۔
پیش خدمت ہیں ان کے کچھ سوالات بمع جوابات
سوال نمبر 1۔ دہشت گرد صرف بڑے بچوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں آڈیٹوریم میں آٹھویں، نویں اور دسویں کے بچے ابتدائی طبی امداد والی ٹریننگ کے سلسلے میں کیوں جمع تھے؟؟
جواب ۔۔۔ اس تربیتی پروگرام کا شیڈول پہلے سے طے تھا۔ تاکہ مہمانوں اور
مقررین کو آگاہ کر کے ان کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ جونیز بچوں کی کلاس ایک ہفتہ پہلے کرائی جا چکی تھی اسی آڈیٹوریم میں کیونکہ آڈیٹوریم کی گنجائش اتنی نہیں تھی کہ دونوں کی کلاسیں ایک وقت میں ہوسکیں۔
سوال نمبر 2۔ دہشت گرد سیدھے آڈیٹوریم گئے۔ انہیں کیسے پتہ تھا کہ بڑے طلباء
سانحہ اے پی ایس کے مجرمان کو فوجی عدالتوں سے سزا ہوئی اور سوائے ایک مجرم کے باقیوں کو سزائے موت ہو چکی ہے۔ آج قوم سپریم کورٹ سے سوال پوچھتی کہ آپ نے کیا کیا ؟ اور جو ایک مجرم کی اپیل 2016 سے پڑی ہوئی اس پر فیصلہ کیوں نہیں ہوا؟ #قلمکار
FYI please
*APS CASE*
▪️06 Dec 2014 - Losses - 147 Dead; 125 Injured
▪️Compensation/ Award -
✔️ 8.5 Mn - Teachers/ Heirs
✔️ 2 Mn - Student Heirs
▪️Sitar - e - Jurat and Tamgha-e-Shujat to Principal
▪️First Case - Psc High Court.
Discrimination in Compensation
▪️12 Mar 21 - Case Disposed off - Full Satisfaction
▪️Suo Moto by SC/ commission by PHC - Oct 18
▪️CJ Psc High Court - Justice Ibrahim appointed
▪️25 Sep - Report Submitted
✔️ Appreciation for Army
✔️ No Blame to Army
میں آپ کو *صدر ایوب خان کے دور کا* ایک سچا واقعہ بتاتا ہوں۔۔
"چاچا محمد خان آجڑی جو ماشاء اللہ حیات ہے بتاتے ہیں کہ
میں بھیڑ بکریاں پالتا تھا اور انہیں پر گُزر بسر تھا ۔ گھر میں گندم ختم ہو گئی ، مجھے کسی نے بتایا کہ قریبی گاؤں میں ایک رشتہ دار کے ہاں گندم ہے
سو میں اس کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے کچھ گندم ادھار دے دو میں چند دن بعد لیلے بیچوں گا تو آپ کو رقم دے جاؤں گا ،
اس نے میری بات سنی اور بے رخی سے بولا جب پیسے آ جائیں تب گندم لے جانا ، میں مایوس لوٹ آیا ،
شام کو *صدرایوب صاحب* نے ملک میں گندم کے بحران پر قوم سے خطاب کیا جو
اس وقت ریڈیو پاکستان نشر کرتا تھا ، صدر صاحب نے کہا
*جس کسی کے پاس 10 من سے زائد گندم پائی گئی اسے لٹکا دیا جائے گا ، سو ذخیرہ اندوز مطلع رہیں.*
میں صبح اٹھا تو 3 اونٹ بوریاں اٹھائے اپنے گھر کی طرف آتے دکھائی دیئے ۔ اونٹ والے نے صدا دی میں گیا تو بولا یہ ایک اونٹ پر لدی 5 بوری
دوسرا سالن
سنا ہے اس کے پاس بہت سا مال آ گیا ہے ، اب اس کے دستر خواں پر دو سالن ہوتے ہیں ، مال کا غرور ہے کیا ..... ایک ساتھ ہی کئی سوال تھے جو نوک زبان پر چلے آئے ..سیدنا عمر بن خطاب کہ ریاست کے معمولی امور پر ہی نظر نہ رکھتے تھے ،بلکہ اپنے ساتھیوں پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے
"سناؤ بھائی کیا حال ہے ، کہاں ہوتے ہو ، دکھائی
نہیں دیتے ، کبھی ہمیں بھی بلاؤ نا "
دوست نے ، ساتھی نے امیر المومنین کے محبت بھرے شبد سنے تو جی جان سے ممنون ہو گیا ، گھر تشریف لانے کی دعوت دی ، کھانے کی فرمائش کی ...
لاکھوں مربع میل کا حاکم ، مصر عراق ، شام . یمن .
فلسطین ، ایران ، موجودہ عرب ریاستیں ، کویت ، موجودہ تمام سعودی عرب ....جی ہاں ان سب کا حاکم ....اپنے دوست ، ساتھی کے گھر کھانے کو بیٹھے ہیں...
دستر خواں آسودگی کی خبر دے رہا تھا ، کھانا آ گیا، کھانا شروع کیا ہی تھا کہ ایک پیالہ اور چلا آیا :
"یہ کیا ہے بھائی ؟"
جی ایک اور سالن...
فیملی والے حضرات توجہ دیں
ہنری کا تعلق امریکہ کے شہر سیاٹل سے تھا وہ مائیکرو سافٹ میں ایگزیکٹو منیجر تھا۔اس نے 1980 ء میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد مختلف کمپنیوں سے ہوتا ہوا مائیکرو سافٹ پہنچ گیا
مائیکرو سافٹ اس کے کیرئیر میں ’’ہیلی پیڈ‘‘ ثابت ہوئی اور وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا ٗوہ 1995ء میں کمپنی میں بھاری معاوضہ لینے والے لوگوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا جب تک ہنری کسی سافٹ وئیر کو مسکرا کر نہ دیکھ لے مائیکرو سافٹ اس وقت تک اسے
مارکیٹ نہیں کرتی ٗ ہنری نے کمپنی میں یہ پوزیشن بڑی محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی
وہ دفتر میں روزانہ16 گھنٹے کام کرتا تھا ٗ وہ صبح 8 بجے دفتر آتا تھا اور رات بارہ بجے گھر جاتا تھا ٗہنری کا ایک ہی بیٹا تھا ٗ ہنری دفتری مصروفیات کے باعث اپنے بیٹے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا ٗ