دوسرا سالن
سنا ہے اس کے پاس بہت سا مال آ گیا ہے ، اب اس کے دستر خواں پر دو سالن ہوتے ہیں ، مال کا غرور ہے کیا ..... ایک ساتھ ہی کئی سوال تھے جو نوک زبان پر چلے آئے ..سیدنا عمر بن خطاب کہ ریاست کے معمولی امور پر ہی نظر نہ رکھتے تھے ،بلکہ اپنے ساتھیوں پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے
"سناؤ بھائی کیا حال ہے ، کہاں ہوتے ہو ، دکھائی
نہیں دیتے ، کبھی ہمیں بھی بلاؤ نا "
دوست نے ، ساتھی نے امیر المومنین کے محبت بھرے شبد سنے تو جی جان سے ممنون ہو گیا ، گھر تشریف لانے کی دعوت دی ، کھانے کی فرمائش کی ...
لاکھوں مربع میل کا حاکم ، مصر عراق ، شام . یمن .
فلسطین ، ایران ، موجودہ عرب ریاستیں ، کویت ، موجودہ تمام سعودی عرب ....جی ہاں ان سب کا حاکم ....اپنے دوست ، ساتھی کے گھر کھانے کو بیٹھے ہیں...
دستر خواں آسودگی کی خبر دے رہا تھا ، کھانا آ گیا، کھانا شروع کیا ہی تھا کہ ایک پیالہ اور چلا آیا :
"یہ کیا ہے بھائی ؟"
جی ایک اور سالن...
جی ہاں اس میں سرکہ تھا ، محض سرکہ ، درجن بھر ممالک کے حکمران نے بڑھا ہوا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ، تیور بدل گئے ، مزاج کچھ برہم سا نظر آنے لگا -- ساتھی جو بہت چاؤ سے لے کر آیا تھا ، کچھ سہم سا گیا ...:
"کیا ہوا ، امیر المومنین ، کوئی غلطی ، کوئی گستاخی .....؟؟؟"
"کیا یہ کم ہے کہ
تمھارے دستر خوان پر دو سالن موجود ہیں ...تم کیا سمجھتے تھے کہ میں کھانے کا ایسا ہی حریص ہو گیا کہ فرمائش کر کے چلا آیا ؟"
"حضرت یہ تو محض سرکہ ہے "...صفائی میں کمزور سی آواز آئی -
"ہاں ہم نبی کریم کے دور میں سرکے کو بھی سالن ہی شمار کرتے تھے ، ہمیں تب ایک سالن بھی دستر خوان پر
مییسر نہ ہوتا تھا - آج تم لوگ تن آسان ہو گئے ، عیاشی نے تمہارا راہ دیکھ لیا ، کہ تم دو دو سالن استعمال کرتے ھو ...مجھے کھانے کی حرص نہ تھی ، میں صرف تحقیق احوال کے لیے آیا تھا "....آج مجھے سیدنا عمر کا یہ واقعہ یاد آ گیا ، اور اپنے گھروں کا منظر بھی ....آج ہمارے دستر خوان پر درجن
درجن بھر اشیاء نہ ہوں تو میزبان شرمندہ اور چور بنا ہوتا ہے ، اور مہمان ناراض
میں آپ لوگوں کو کیا کہوں.خود میرے اپنے گھر کا یہی حال ہے. کبھی دعوت ہو تو نصف درجن سالن اور درجن بھر لوازمات اور سامنے رکھ کے ہمارا ہی کمال ہے کہ ہم تب بھی نبوی زندگی کی سادگی پر گفتگو کا ملکہ رکھتے ہیں
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول کس کو معلوم نہیں کہ ہمارے گھر میں بسا اوقات کئی کئی روز چولہا نہ جلتا - جی ہاں چولہا نہ جلنے کا مطلب ہے کہ ایک سالن بھی میسر نہ ہوتا تھا -
مگر ہم ایسے فنکار ہو گیے کہ گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ درجن بھر چیزیں دستر خواں پر سجا کے ، ہم شام کے
مظلوموں کی یاد میں آنسو بہا سکتے ہیں ، صومالیہ
کے اپنے بھوکے بھائیوں کا تذکرہ کر سکتے ہیں ، برما کے غم میں رو سکتے ہیں .... مجھے یاد ہے کہ دو برس پیشتر جب تکریت اور فلوجہ پر حملے ہوۓ ، موصل پر حملہ ہوا تو رمضان ہی تھا ...حقیقت یہی ہے کہ آنسو سچ تھے ، ان میں کوئی کھوٹ نہ تھا ،
میں نے کئی افطاریاں بہتے آنسوں میں کی ...لیکن دستر خوان کو سادہ نہ کر سکا - جانتے ہیں کہ اس غم کے عالم میں بھی یہ سب کیوں رہا ؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کا یہ معمول بنا لیا ہے ، ہم کو یہ غلط لگتا ہی نہیں ،
یہ ہمارے زندگی کا ایسے حصہ ہو گیا ہے کہ اگر سادگی اختیار کی جائے گی تو وہ اجنبی اور غلط لگے گی -
(ابو بکر قدوسی)
اے پی ایس کے حوالے سے سرخون کے چند سوالات کے جوابات
پاکستان میں "افغانیت" کی علمبردار کئی قوم پرست تنظیمیں اور گروہ اے پی ایس کے سانحے پر مختلف قسم کے سوالات اٹھا کر اس کو پاکستان یا پاک فوج کی جانب موڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
ان افغان پرست تنظیموں میں پی ٹی ایم سر فہرست ہے۔
پیش خدمت ہیں ان کے کچھ سوالات بمع جوابات
سوال نمبر 1۔ دہشت گرد صرف بڑے بچوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں آڈیٹوریم میں آٹھویں، نویں اور دسویں کے بچے ابتدائی طبی امداد والی ٹریننگ کے سلسلے میں کیوں جمع تھے؟؟
جواب ۔۔۔ اس تربیتی پروگرام کا شیڈول پہلے سے طے تھا۔ تاکہ مہمانوں اور
مقررین کو آگاہ کر کے ان کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ جونیز بچوں کی کلاس ایک ہفتہ پہلے کرائی جا چکی تھی اسی آڈیٹوریم میں کیونکہ آڈیٹوریم کی گنجائش اتنی نہیں تھی کہ دونوں کی کلاسیں ایک وقت میں ہوسکیں۔
سوال نمبر 2۔ دہشت گرد سیدھے آڈیٹوریم گئے۔ انہیں کیسے پتہ تھا کہ بڑے طلباء
سانحہ اے پی ایس کے مجرمان کو فوجی عدالتوں سے سزا ہوئی اور سوائے ایک مجرم کے باقیوں کو سزائے موت ہو چکی ہے۔ آج قوم سپریم کورٹ سے سوال پوچھتی کہ آپ نے کیا کیا ؟ اور جو ایک مجرم کی اپیل 2016 سے پڑی ہوئی اس پر فیصلہ کیوں نہیں ہوا؟ #قلمکار
FYI please
*APS CASE*
▪️06 Dec 2014 - Losses - 147 Dead; 125 Injured
▪️Compensation/ Award -
✔️ 8.5 Mn - Teachers/ Heirs
✔️ 2 Mn - Student Heirs
▪️Sitar - e - Jurat and Tamgha-e-Shujat to Principal
▪️First Case - Psc High Court.
Discrimination in Compensation
▪️12 Mar 21 - Case Disposed off - Full Satisfaction
▪️Suo Moto by SC/ commission by PHC - Oct 18
▪️CJ Psc High Court - Justice Ibrahim appointed
▪️25 Sep - Report Submitted
✔️ Appreciation for Army
✔️ No Blame to Army
میں آپ کو *صدر ایوب خان کے دور کا* ایک سچا واقعہ بتاتا ہوں۔۔
"چاچا محمد خان آجڑی جو ماشاء اللہ حیات ہے بتاتے ہیں کہ
میں بھیڑ بکریاں پالتا تھا اور انہیں پر گُزر بسر تھا ۔ گھر میں گندم ختم ہو گئی ، مجھے کسی نے بتایا کہ قریبی گاؤں میں ایک رشتہ دار کے ہاں گندم ہے
سو میں اس کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے کچھ گندم ادھار دے دو میں چند دن بعد لیلے بیچوں گا تو آپ کو رقم دے جاؤں گا ،
اس نے میری بات سنی اور بے رخی سے بولا جب پیسے آ جائیں تب گندم لے جانا ، میں مایوس لوٹ آیا ،
شام کو *صدرایوب صاحب* نے ملک میں گندم کے بحران پر قوم سے خطاب کیا جو
اس وقت ریڈیو پاکستان نشر کرتا تھا ، صدر صاحب نے کہا
*جس کسی کے پاس 10 من سے زائد گندم پائی گئی اسے لٹکا دیا جائے گا ، سو ذخیرہ اندوز مطلع رہیں.*
میں صبح اٹھا تو 3 اونٹ بوریاں اٹھائے اپنے گھر کی طرف آتے دکھائی دیئے ۔ اونٹ والے نے صدا دی میں گیا تو بولا یہ ایک اونٹ پر لدی 5 بوری
حال ہی میں حکومت پاکستان کی طرف سے TTP کے ساتھ امن معاہدے اور فائر بندی کی خبریں سامنے آئیں تو مشہور نسل پرست تنظیم PTM کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان پربا کر دیا گیا کہ ریاست نے دہشتگردوں سے تو ڈیل کر لی لیکن پشتونوں کے
حقوق کے "پر امن" ٹھیکیداروں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک ہو رہا ہے۔
تو PTM کے نسل پرست کارکنوں کو سوچنا چاہئیے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ انہیں اس سوال کا جواب اپنے ہی گریبانوں میں جھانکنے سے ملے گا
چاہے وہ انگریز کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یا مسلمانوں کی، انہیں یہی سبق ملے گا کہ
دشمن سے تو معاہدے ہوتے ہیں لیکن منافقین کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
اسلام کے ابتدائی دور میں دین کے بدترین دشمنوں یعنی کفارِ مکہ کو تو عام معافی دے دی گئی لیکن مسلمانوں کے درمیان رہ کر دھوکہ دینے والے عبداللہ بن ابی کو اللہ نے بھی معاف نہ کیا۔
فیملی والے حضرات توجہ دیں
ہنری کا تعلق امریکہ کے شہر سیاٹل سے تھا وہ مائیکرو سافٹ میں ایگزیکٹو منیجر تھا۔اس نے 1980 ء میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد مختلف کمپنیوں سے ہوتا ہوا مائیکرو سافٹ پہنچ گیا
مائیکرو سافٹ اس کے کیرئیر میں ’’ہیلی پیڈ‘‘ ثابت ہوئی اور وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا ٗوہ 1995ء میں کمپنی میں بھاری معاوضہ لینے والے لوگوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا جب تک ہنری کسی سافٹ وئیر کو مسکرا کر نہ دیکھ لے مائیکرو سافٹ اس وقت تک اسے
مارکیٹ نہیں کرتی ٗ ہنری نے کمپنی میں یہ پوزیشن بڑی محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی
وہ دفتر میں روزانہ16 گھنٹے کام کرتا تھا ٗ وہ صبح 8 بجے دفتر آتا تھا اور رات بارہ بجے گھر جاتا تھا ٗہنری کا ایک ہی بیٹا تھا ٗ ہنری دفتری مصروفیات کے باعث اپنے بیٹے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا ٗ