اے پی ایس کے حوالے سے سرخون کے چند سوالات کے جوابات

پاکستان میں "افغانیت" کی علمبردار کئی قوم پرست تنظیمیں اور گروہ اے پی ایس کے سانحے پر مختلف قسم کے سوالات اٹھا کر اس کو پاکستان یا پاک فوج کی جانب موڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
ان افغان پرست تنظیموں میں پی ٹی ایم سر فہرست ہے۔
پیش خدمت ہیں ان کے کچھ سوالات بمع جوابات

سوال نمبر 1۔ دہشت گرد صرف بڑے بچوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں آڈیٹوریم میں آٹھویں، نویں اور دسویں کے بچے ابتدائی طبی امداد والی ٹریننگ کے سلسلے میں کیوں جمع تھے؟؟
جواب ۔۔۔ اس تربیتی پروگرام کا شیڈول پہلے سے طے تھا۔ تاکہ مہمانوں اور
مقررین کو آگاہ کر کے ان کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ جونیز بچوں کی کلاس ایک ہفتہ پہلے کرائی جا چکی تھی اسی آڈیٹوریم میں کیونکہ آڈیٹوریم کی گنجائش اتنی نہیں تھی کہ دونوں کی کلاسیں ایک وقت میں ہوسکیں۔

سوال نمبر 2۔ دہشت گرد سیدھے آڈیٹوریم گئے۔ انہیں کیسے پتہ تھا کہ بڑے طلباء
آڈیٹوریم میں ہیں؟
جواب ۔۔۔ دہشت گرد سکول سے ملحق خالی پلاٹ سے سکول میں داخل ہوئے۔ جو آڈیٹوریم کے قریب ترین تھا۔ اس کے بعد وہ تین گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔ انہیں صرف اتنا پتہ چل گیا کہ آڈیٹوریم میں بھی طلباء موجود ہیں کیوںکہ سامنے ہی تھا۔ چھوٹے بڑے کا انہیں نہیں علم تھا۔
دو دہشت گرد آڈیٹوریم میں داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی۔ دو ایڈمنسٹریشن بلاک میں گئے اور باقی کلاسوں میں طلباء کو ڈھونڈنے۔
اگر انہیں پتہ ہوتا کہ سارے بڑے طلبہ آڈیٹوریم میں ہی جمع ہیں وہ تو پورا زور ادھر ہی لگاتے اور یوں تقسیم نہ ہوتے۔

سوال نمبر 3۔ ایک آرمی کا کرنل ابتدائی طبی
امداد کی تربیت دے رہا تھا۔ دہشت گردوں نے اس کو قتل کیوں نہیں کیا؟؟
جواب ۔۔ پہلے تو آپ کی یہ انفارمیشن غلط ہے کہ وہ کرنل تھا۔ وہ میجر رینک کا ایک فوجی ڈاکٹر تھا جو بچوں کو ابتدائی طبی امداد پر لیکچر دے رہا تھا۔ جیسے ہی دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کی یہ ڈاکٹر قریب ترین دروازے سے نکل
کر بھاگ گیا۔ سٹیج کے قریب اسی دروازے سے اس ڈاکٹر کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
باؤجود اس کے کہ وہ ڈاکٹر تھا اس کی بزدلی پر اس کو پاک آرمی نے سزا دی اور وہ ابھی تک جیل میں ہے۔

سوال نمبر 4۔ پولیس کمانڈوز پندرہ منٹ میں اے پی ایس پہنچ گئے تھے۔ ان کو کیوں
اندر جانے نہیں دیا گیا تاکہ وہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے؟؟
جواب ۔۔۔ دہشت گردوں کو پہلا جواب ایک فوجی نے دیا تھا جو قریب ترین انجنیرنگ یونٹ کا تھا۔ اس کے پاس بلٹ پروف جیکٹ بھی نہیں تھی اور صرف ایک رائفل تھی۔ اس نے بہت سے بچوں کو بچا لیا تھا جب اوپر کلاس روم کی طرف گئے دہشت گردوں
نے اس پر فائرنگ شروع کر دی اور اس نے وہیں آڑ لے کر ان سے مقابلہ شروع کر دیا۔
پولیس پہنچی تھی پولیس کمانڈوز نہیں۔ لیکن پولیس اندر جاتے ہوئے ہچکچا رہی تھی۔ یا شائد گھبرا رہی تھی۔ تاہم انہوں نے سکول کو گھیرے میں لے لیا۔ پولیس کو روکنے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔ یہ بلکل جھوٹ ہے۔
سوال نمبر 5۔ سکول کینٹ میں ہے وہاں دہشتگرد کیسے گھسے؟؟
جواب ۔۔۔ یہ بھی جھوٹ ہے۔ سکول کینٹ ایریا میں نہیں ہے بلکہ ورسک روڈ پر ہے۔ دہشتگرد تو جی ایچ کیو میں بھی گھس گئے تھے جہاں اس وقت کا آرمی چیف کیانی موجود تھا اور بال بال بچا تھا
سوال نمبر 6۔ ٹی ٹی پی کا ترجمان احسان اللہ احسان
فوج کا مہمان کیوں ہے؟؟
جواب ۔۔۔ احسان اللہ احسان مہمان نہیں بلکہ انڈر کسٹڈی تھا جس نے بلوچ فراریوں کی طرح جان بخشی کی ضمانت پر سرنڈر کیا تھا۔ بہت اہم سلطانی گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں موجود سینکڑوں جنگجوؤں کے لیے ایک پیغام بھی تھا کہ اگر آپ دہشت گردی بند کر کے سرنڈر کرو
تو ریاست پاکستان آپ کو بھی واپسی کا راستہ دے سکتی ہے۔
نیز احسان اللہ احسان نے اے پی ایس حملے کی مذمت کی تھی جب وہ ابھی ٹی ٹی پی میں ہی تھا اور اس مذمت پر اس کے خراسانی سے اختلافات ہوگئے تھے۔

سوال نمبر 7۔ فوجیوں کے بچے اس حملے میں کیوں نہیں مرے۔
جواب ۔۔۔ ظالمو APS کے شہداء میں
بریگیڈئیر/کرنل سے سپاہی تک 52 فوجیوں کے بچے، 2 فوجی افسران کی بیگمات اور کئی فوجی بذات خود شامل ہیں۔
آپریشن کرنے والی SSG کی ٹیم کا افسر بھی پشتون تھا جو بچوں کو بچاتے ہوئے زخمی ہوا۔

سوال نمبر 8۔ ایسے تمام کیسز میں کمیشن بنایا جاتا ہے اور انکوائری کرائی جاتی ہے۔ اس حملے میں ایسی
انکوائری کیوں نہ کرائی گئی؟؟
جواب ۔۔ آرمی لیول انکوائری کا آرڈر تو اسی شام جاری کر دیا گیا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر افغانستان کا دورہ کیا اور وہاں دہشت گردوں کے افغانستان سے مسلسل رابطے اور تمام آپریشن افغانستان سے کنٹرول کیے جانے کے ناقابل تردید ثبوت
اشرف غنی اور نیٹو کمانڈر کے سامنے رکھ دئیے۔
ثبوت اتنے مضبوط تھے کہ افغان حکومت نے دو دن میں اس پر کاروائی اور فیڈ بیک دینے کا وعدہ کیا۔
خیبر پختونخواہ کی حکومت نے فوری طور پر ایک انکوائری کمیشن ترتیب دے دیا تھا۔ جب کہ آل پارٹیز کانفرس کا فوری انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں
راحیل شریف نے اس وقت تک حاصل کی گئی معلومات کی روشنی میں بریفنگ دی تھی۔

لیکن اے پی ایس کے ماسٹر مائنڈ یہ افغانی سرخے کبھی ہمارے سوالوں کے جوابات نہیں دیتے جو بہت سادہ سے ہیں۔
مثلاً
دہشت گرد افغانی کیوں تھے؟
اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کیوں ہوئی؟
دہشت گرد افغانستان سے
رابطے میں کیوں تھے؟
حملے کے ماسٹر مائنڈ خراسانی کو افغانستان نے پناہ اور چار گھر کیوں دے رکھے ہیں؟
خراسانی پاک فوج کے حملے میں زخمی ہوا تو اس کو افغانستان نے بغرض علاج انڈیا کیوں بھیجا؟؟
افغانستان سے ہی ٹی ٹی پی سربراہ فضل اللہ نے حملے کا اعترافی بیان ویڈیو بیان کیوں جاری کیا؟
اے پی اسی کی ذمہ داری قبول کرنی والی ٹی ٹی پی آج پی ٹی ایم کو کیوں سپورٹ کرتی ہے اور منظور پسکین کو ہیرو کیوں کہتی ہے؟؟
احسان اللہ احسان کی پھانسی پی ٹی ایم اور موت ٹی ٹی پی مانگتی ہے
لیکن ٹی ٹی پی کے باقی تمام دہشتگردوں کی سزائیں کلعدم قرار دینے کے لیے یہی پی ٹی ایم پشاور ھائی کورٹ میں کیسز لڑتی ہے کیوں؟؟
#قلمکار
تحریر شاہد خان

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with آبی کوثر

آبی کوثر Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @NaikParveen22

10 Nov
نیا مطالعہ پاکستان

ریاست پاکستان ایشیا کے جنوب میں واقع ہے. اس کا کل رقبہ جتنا بھی ہے سب پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں.

ریاست کا پوار نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اسلام اور جمہوریت دونوں سے ہی محروم ہے.

ریاست کے جھنڈے میں دو رنگ ہیں. سبز رنگ مولویوں کی اکثریت کو
ظاہر کرتا ہے اور سفید رنگ اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری کو ظاہر کرتا ہے.

چاند ستارے سے مراد یہ کہ ریاست کے کرتا دھرتا صرف وہی ہیں جن کی وردی پہ چاند ستارہ بنا ہوا ہے.

ریاست چار باقاعدہ اور ایک بے قاعدہ صوبے پر مشتمل ہے.

ریاست پاکستان 1947 میں انگریزوں سے آزاد ہوئی
مگر انگریزوں کے غلاموں سے تاحال آزاد نہیں ہو سکی اور آزادی کیلئے کوئی بھی کوشش جاری نہیں ہے.

ریاست پاکستان درحقیقت کئی سو ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے جہاں ہر ریاست کے اپنے اپنے قوانین ،قاعدے اور ضابطے ہیں.

اگر ایک ریاست دوسری ریاست کے معاملے میں ٹانگ اڑائے تو ٹانگ توڑ دی جاتی ہے
Read 14 tweets
10 Nov
سانحہ اے پی ایس کے مجرمان کو فوجی عدالتوں سے سزا ہوئی اور سوائے ایک مجرم کے باقیوں کو سزائے موت ہو چکی ہے۔ آج قوم سپریم کورٹ سے سوال پوچھتی کہ آپ نے کیا کیا ؟ اور جو ایک مجرم کی اپیل 2016 سے پڑی ہوئی اس پر فیصلہ کیوں نہیں ہوا؟
#قلمکار
FYI please
*APS CASE*

▪️06 Dec 2014 - Losses - 147 Dead; 125 Injured
▪️Compensation/ Award -
✔️ 8.5 Mn - Teachers/ Heirs
✔️ 2 Mn - Student Heirs
▪️Sitar - e - Jurat and Tamgha-e-Shujat to Principal
▪️First Case - Psc High Court.
Discrimination in Compensation
▪️12 Mar 21 - Case Disposed off - Full Satisfaction
▪️Suo Moto by SC/ commission by PHC - Oct 18
▪️CJ Psc High Court - Justice Ibrahim appointed
▪️25 Sep - Report Submitted
✔️ Appreciation for Army
✔️ No Blame to Army
Read 4 tweets
10 Nov
وزیر اعظم صاحب

میں آپ کو *صدر ایوب خان کے دور کا* ایک سچا واقعہ بتاتا ہوں۔۔
"چاچا محمد خان آجڑی جو ماشاء اللہ حیات ہے بتاتے ہیں کہ
میں بھیڑ بکریاں پالتا تھا اور انہیں پر گُزر بسر تھا ۔ گھر میں گندم ختم ہو گئی ، مجھے کسی نے بتایا کہ قریبی گاؤں میں ایک رشتہ دار کے ہاں گندم ہے
سو میں اس کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے کچھ گندم ادھار دے دو میں چند دن بعد لیلے بیچوں گا تو آپ کو رقم دے جاؤں گا ،

اس نے میری بات سنی اور بے رخی سے بولا جب پیسے آ جائیں تب گندم لے جانا ، میں مایوس لوٹ آیا ،

شام کو *صدرایوب صاحب* نے ملک میں گندم کے بحران پر قوم سے خطاب کیا جو
اس وقت ریڈیو پاکستان نشر کرتا تھا ، صدر صاحب نے کہا
*جس کسی کے پاس 10 من سے زائد گندم پائی گئی اسے لٹکا دیا جائے گا ، سو ذخیرہ اندوز مطلع رہیں.*

میں صبح اٹھا تو 3 اونٹ بوریاں اٹھائے اپنے گھر کی طرف آتے دکھائی دیئے ۔ اونٹ والے نے صدا دی میں گیا تو بولا یہ ایک اونٹ پر لدی 5 بوری
Read 7 tweets
10 Nov
دوسرا سالن
سنا ہے اس کے پاس بہت سا مال آ گیا ہے ، اب اس کے دستر خواں پر دو سالن ہوتے ہیں ، مال کا غرور ہے کیا ..... ایک ساتھ ہی کئی سوال تھے جو نوک زبان پر چلے آئے ..سیدنا عمر بن خطاب کہ ریاست کے معمولی امور پر ہی نظر نہ رکھتے تھے ،بلکہ اپنے ساتھیوں پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے
"سناؤ بھائی کیا حال ہے ، کہاں ہوتے ہو ، دکھائی
نہیں دیتے ، کبھی ہمیں بھی بلاؤ نا "
دوست نے ، ساتھی نے امیر المومنین کے محبت بھرے شبد سنے تو جی جان سے ممنون ہو گیا ، گھر تشریف لانے کی دعوت دی ، کھانے کی فرمائش کی ...
لاکھوں مربع میل کا حاکم ، مصر عراق ، شام . یمن .
فلسطین ، ایران ، موجودہ عرب ریاستیں ، کویت ، موجودہ تمام سعودی عرب ....جی ہاں ان سب کا حاکم ....اپنے دوست ، ساتھی کے گھر کھانے کو بیٹھے ہیں...
دستر خواں آسودگی کی خبر دے رہا تھا ، کھانا آ گیا، کھانا شروع کیا ہی تھا کہ ایک پیالہ اور چلا آیا :
"یہ کیا ہے بھائی ؟"
جی ایک اور سالن...
Read 11 tweets
9 Nov
*دشمن سے تو ڈیل ممکن ہے لیکن منافق سے نہیں*

حال ہی میں حکومت پاکستان کی طرف سے TTP کے ساتھ امن معاہدے اور فائر بندی کی خبریں سامنے آئیں تو مشہور نسل پرست تنظیم PTM کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان پربا کر دیا گیا کہ ریاست نے دہشتگردوں سے تو ڈیل کر لی لیکن پشتونوں کے
حقوق کے "پر امن" ٹھیکیداروں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک ہو رہا ہے۔

تو PTM کے نسل پرست کارکنوں کو سوچنا چاہئیے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ انہیں اس سوال کا جواب اپنے ہی گریبانوں میں جھانکنے سے ملے گا

چاہے وہ انگریز کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یا مسلمانوں کی، انہیں یہی سبق ملے گا کہ
دشمن سے تو معاہدے ہوتے ہیں لیکن منافقین کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
اسلام کے ابتدائی دور میں دین کے بدترین دشمنوں یعنی کفارِ مکہ کو تو عام معافی دے دی گئی لیکن مسلمانوں کے درمیان رہ کر دھوکہ دینے والے عبداللہ بن ابی کو اللہ نے بھی معاف نہ کیا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کا
Read 11 tweets
3 Nov
⚘آج کی بات

💐💐*گھاٹے کے سوداگر*

فیملی والے حضرات توجہ دیں
ہنری کا تعلق امریکہ کے شہر سیاٹل سے تھا وہ مائیکرو سافٹ میں ایگزیکٹو منیجر تھا۔اس نے 1980 ء میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد مختلف کمپنیوں سے ہوتا ہوا مائیکرو سافٹ پہنچ گیا
مائیکرو سافٹ اس کے کیرئیر میں ’’ہیلی پیڈ‘‘ ثابت ہوئی اور وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا ٗوہ 1995ء میں کمپنی میں بھاری معاوضہ لینے والے لوگوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا جب تک ہنری کسی سافٹ وئیر کو مسکرا کر نہ دیکھ لے مائیکرو سافٹ اس وقت تک اسے
مارکیٹ نہیں کرتی ٗ ہنری نے کمپنی میں یہ پوزیشن بڑی محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی
وہ دفتر میں روزانہ16 گھنٹے کام کرتا تھا ٗ وہ صبح 8 بجے دفتر آتا تھا اور رات بارہ بجے گھر جاتا تھا ٗہنری کا ایک ہی بیٹا تھا ٗ ہنری دفتری مصروفیات کے باعث اپنے بیٹے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا ٗ
Read 22 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(