ایک طاغوتی نظام وہ ھے جو غیر قرآنی حکومت یا سلطنت جیسے پاکستان و سعودی عرب وغیرہ کی شکل میں مرتب ھوتا ہے لیکن اس کے علاؤہ ایک اور طاغوتی نظام بھی ہے جو تقدس کا نقاب اوڑھ کر قائم کیا جاتا ہے۔ اس نظام میں انسانوں کی ایک جماعت دوسرے انسانوں کو اینا غلام محکوم و مطیع بنا لیتی ہے لیکن
بزور شمشیر نہیں بلکہ عوام کے دماغوں میں اپنی عقیدت و عظمت کے بت گاڑھ کر۔
جب انکی عقیدت یوں دلوں میں گھر کر لیتی ھے تو پھر نام نہاد مقدسین کا یہ استحصالی جتھہ اپنا ہر ہ عوام سے منواتا ہے اور ایک قسم کی اندیکھی حکومت قائم کر لیتا ہے۔ جس کی حفاظت کے لیے
فوج اور پولیس کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔
یہ وہ محکومیت ھے جس کی زنجیریں انسان خود انتہائی زلت و انکساری کے ساتھ اپنے گلے میں ڈال کر اتراتا پھرتا ھے، یہی وہ نظام ھے جس کے متعلق قرآن مجید میں ھے کہ
اُحْشُرُوا الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُـمْ وَمَا كَانُـوْا يَعْبُدُوْنَ (37/22)
مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ فَاهْدُوْهُـمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِيْـمِ (37/23)
ان لوگوں کو جو ظلم کیا کرتے تھے اور انکے ساتھیوں کو مع ان لوگوں کے جو جنکی وہ اللہ کو چھوڑ کر محکومیت اختیار کرتے کیا کرتے تھے جمع کر لو اور پھر سب کو دوزخ کے راستے کی طرف لے جاؤ۔
طَاغِيْنَ (37/30)
مفہوم:-
اس وقت وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ھو کر سوال جواب کرنے لگیں گے چنانچہ پیروی کرنے والے کہیں گے کہ تم تو ہمارے پاس بہت زور و شور سے آیا کرتے تھے (اب خدائی عذاب سے تو ہمیں بچاؤ) تو وہ لوگ کہیں گے کہ
تم خود ھی مومن نہیں تھے (یعنی غیر قرآنی احکامات کی تلاش میں رہا کرتے تھے) ہماری تم پر کوئی زبردستی بھی نہیں تھی بلکہ تم خود ھی سرکش جماعت کے افراد تھے۔
غور فرمائیے کہ اس حقیقت کو کیسے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ان "متبوعین" کی قیادت و سیادت اپنی قوت پی قائم نہیں ہوتی بلکہ
متبعین کے جذبہ عقیدت اور ارادت پر مبنی ھوتی ھے۔ اگر لوگ انہیں ماننا چھوڑ دیں تو ان "مقدسین" کی اندیکھی حکومت خود بخود ختم ھو جائے گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی قسم کا استحصال و غلبہ (مذہبی سیاسی سرمایہ داری) کیوں نہ ہو اس کی بنیاد خود محکوم کی
اپنی ھی کمزوری پر ہوتی ہے۔ اس لیے دماغ کے تالے توڑیں۔ عقیدت و احترام کی بیٹریوں کو اتار پھینکیں تب ھی خوشحالی و شعور ممکن ھے ورنہ اگلے سو سال بعد بھی یہی مولوی و اشرافیہ تمہاری گردن پہ سوار رہے گی
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
عوام کے ساتھ راست تعلق، سابقہ بدزبانی اور توہین آمیز رویہ سے ممانعت یا روزوں کی راتوں میں بیویوں سے مباشرت
جدید علمی و عقلی ترجمہ :-
جب تک اس پرہیز اور تربیت کے فقدان کی باعث تاریکیاں مسلط تھیں [لَيْلَةَ الصِّيَامِ] تو تمہارے لیے یہ جائز بنا دیا گیا تھا کہ
اپنے کمزور طبقات کو [إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ] بدزبانی اور توہین کا ہدف بناؤ [الرَّفَثُ] جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہو۔ اللہ یہ علم رکھتا ہے کہ تم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ خیانت کرتے آئے ہو [تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ]
اُس نے بہرحال تم پر مہربانی کرتے ہوئے تمہیں معاف کیا اسلیے اب اُن سے راست تعلق رکھو [بَاشِرُوهُنَّ] اور اتنا ہی خواہش کرو جو اللہ نے تمہارے لیے جائز کیا ہے یعنی اُنکے حقوق اپنے فائدے کے لیے غصب نہ کرو اور علم حاصل کرو [وَكُلُوا] اور اسکے مطابق ایسا مشرب اختیار کرو[وَاشْرَبُوا]
بخاری کی 61 سال کی زندگی تھی۔ اس میں سے 10 سال انکے لڑکپن کی عمر نکال دیں۔باقی کے جو 51 سال ہیں ان میں بخاری نے 6 لاکھ حدیثوں کو لوگوں سے سنا، انکی صحت کو جانچا، راویوں کے جھوٹا سچا ہونے کی تصدیق کی، یاد کیا ، اور کتاب میں لکھا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ 1 سال 365 دنوں کا ہوتا ہے ۔ اس لیے اب ہم بخاری کی حدیث جمع کرنے والی 51 سالہ زندگی کو دنوں پر convert کر لیتے ہیں۔ بخاری نے جن 51 سالوں میں حدیثوں کو سنا اور یاد کیا اور کتاب میں لکھا ان 51 سالوں کو 365 دن سے ضرب دے دیجئے ، تو 18،615 دن بن رہے ہیں یعنی
بخاری نے 18،615 دنوں کی زندگی میں 6 لاکھ حدیثوں کو سنا ، یاد کیا اور کتاب میں لکھا اس حساب سے اب ہمیں یہ جاننا ہے کہ ایک دن میں بخاری نے کتنی حدیثوں کو سنا ، یاد کیا اور لکھا تھا، اسکے لئے اب ہم 6 لاکھ حدیثوں کو 18،615 دنوں سے تقسیم کر دیتے ہیں، جواب آئے گا 32.23 حدیث، کیا یہ
نیچے دی گئی آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ خود ہی واضح فرما رہے ہیں کہ "یاجوج و ماجوج" محاورہ ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے والے طاقتور طبقات کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ہر قوم میں اسکے یاجوج ماجوج موجود ہوتے ہیں اور وہ بڑے بلند مناصب سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
انہیں وہاں سے بزور طاقت کھینچ کر باہر لا پھینکنا ہوتا ہے تب ہی قوم دوبارہ ترقی اور مرفع الحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے
يَّنْسِلُوْنَ (21/96)
اور ممنوع ہو جاتا ہے ایسی بستی پر جسے ہم نے ہلاک کر دیا یعنی پستی میں گرا دیا ہو (اھلکناھا) کہ وہ اپنے سابقہ مقام پر واپس آسکے (یرجعون ) جب تک کہ ایسا نہ ہوجائے کہ انکے تمام فسادی لوگوں [یاجوج و ماجوج] پر فتح پا لی گئی ہو (فُتحت) اور انہیں تمام
کیا آپ نے کبھی غامدی، شیخ محمد، طارق جمیل، شہنشاہ نقوی، مرزا مسرور، تقی عثمانی جیسے مذہبی فراڈیوں کو قرآنی قوانین بیان کرتے سنا ھے ؟
ان میں سے کسی نے بتایا ہو کہ غیر قرآنی نظام حکومت شرک ھے، سیاسی جماعتیں شرک ہیں، فرقہ بندی شرک ھے، سرمایہ داری نظام حرام ھے،جاگیر داری نظام حرام ھے
اللہ کی پیدا کردہ کسی بھی شے اور اس کے ماحصل پر ذاتی ملکیت حرام ھے، زائد از ضرورت مال مستحقین کے لیے کھلا رکھنا ھے، یتامیٰ کی سرپرستی فرض ھے، مساکین کے روزگار کا بندوبست کرنا فرض ھے، بنی نوع انسان کے لیے زرائع نشوونما فراہم کرنا فرض ھے، قوانین خداوندی کی آگاھی حاصل کرنا اور
اس کے مطابق ذاتی زندگی سے لے کر حکومت چلانے تک تمام معاملات دیکھنا فرض ھے۔
کسی نے بتایا کہ خارج از قرآن کسی بھی بات کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ کسی نے بتایا کہ
ہمارے عہد کے شیعہ سنی قادیانی دیوبندی وہابی بریلوی اور اہلحدیث سمیت تمام فرقے اسلام سے اپنی وابستگی کے باوجود الگ الگ خانوں میں جی رہے ہیں۔ ان کا ملی مفاد الگ، ان کی کتابیں الگ، ان کے علماء الگ، ان کی نماز الگ حتی کہ مساجد بھی الگ الگ ہیں۔ کون سی مسجد کس مسلک کی ہے اس کا اندازہ
اس مسجد میں پائی جانے والی دینی کتب سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ذرا باریک بینی سے دیکھئے تو یہ حقیقت چھپائے نہیں چھپتی کہ مسجدیں ہوں یا مدرسے، بظاہر ان پر دینداری کا کتنا ہی ملمع کیوں نہ چڑھا ہو اور ان کے میناروں سے اللہ اکبر کی صدا کیوں نہ سنائی دیتی ہو دراصل یہ تنگ نظری، تعصب
اور فرقہ بندی کے قلعے بن کر رہ گئے ہیں جہاں خدائے واحد کی عبادت کے بجائے اپنے اپنے فرقوں اور مسلکوں کا علم بلند کیا جا رہا ہے اور انکے متعلق قرآن کے احکامات درج ذیل آیات ہیں (1) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے باہمی تفرقہ پیدا کر لیا اور عذابِ خداوندی کے مستحق قرار پا گئے
میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا۔
احمد یار خان بریلوی
(جاء الحق : ١/٢٣٦)
سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے محافلِ میلاد نہیں منعقد کیں بجا ہے۔
غلام رسول سعیدی بریلوی
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٧٩)
مروجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اصل نہیں ہے اس کی ابتداء چھٹی صدی عیسوی میں ھوئی سب سے پہلے مصر میں نام نہاد شیعوں نے یہ جشن منایا (الخطط اللمقریزی 490/1)
یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی ایک مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور اس میں خاص وھی بارھوں دن
معین کرنا بعد میں ھوا ھے یعنی چھٹی صدی کے آخر میں"
عبد السمیع رامپوری بریلوی
(انوار ساطعہ 159)
خود طاھر القادری صاحب اپنی کتاب "میلاد النبی" میں لکھتا ھے کہ صحابہ 12 ربیع الاول کو میلاد نہیں مناتے تھے بلکہ غمگین رھتے تھے کیونکہ جب ان کی زندگی میں 12 ربیع الاول کا دن آتا تو