بدبودار معاشرہ
۔========
امریکہ کی ایک ریاست میں ایک ماں نے اپنے بچے کے خلاف مقدمہ کیا کہ میرے بیٹے نے گھر میں ایک کتا پالا ہوا ہے، روزانہ چار گھنٹے اس کے ساتھ گزارتا ہے۔ اسے نہلاتا ہے، اس کی ضروریات پوری کرتا ہے، اسے اپنے ساتھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جاتا ہے، روزانہ سیر کرواتا ہے
اور کھلاتا پلاتا بھی خوب ہے اور میں بھی اسی گھر میں رہتی ہوں، لیکن میرا بیٹا میرے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے بھی نہیں آتا۔ اس لئے عدالت کو چاہیئے کہ وہ میرے بیٹے کو روزانہ میرے کمرے میں ایک مرتبہ آنے کا پاپند کرے۔
جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمے لڑنے کی تیاری کر لی۔
ماں بیٹے نے وکیل کر لیا۔ دونوں وکیل جج کے سامنے پیش ہوئے اور کاروائی مکمل کرنے کے بعد جج نے جو فیصلہ سنایا ملاحظہ کیجیئے ۔
"عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں 5 منٹ کے لئے بھی آنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ کیونکہ ملک کا قانون ہے جب اولاد 18 سال کی ہو جائے تو اسے حق حاصل ہوتا ہے کہ
والدین کو کچھ ٹائم دے یا نہ دے یا بالکل علیحدہ ہو جائے۔
رہی بات کتے کی، تو کتے کے حقوق لازم ہیں، جنہیں ادا کرنا ضروری ہے۔ البتہ ماں کو کوئی تکلیف ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے تو وہ اسے بوڑھوں کے گھر لے جائیں گے اور وہاں اس کی خبرگیری کریں گے۔
یہ وہ متعفن اقدار ہیں
جن کے پیچھے ہمارے بہت سے لوگ اندھا دھند بھاگ رہے ہیں۔ یقین کریں ہمارے معاشرے میں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت جیسی اعلیٰ روایات ہماری اسی مغربی تقلید کی وجہ سے ہی دم توڑ رہی ہیں۔ اسلام میں دوسروں کے حقوق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ احسان کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔
اس لئے اگر ہم اسلام کے دامن میں پناہ نہیں لیتے تو بہت جلد ہمارا حال بھی ان لوگوں جیسا ہی ہو گا جنہیں ہم ترقی یافتہ سمجھ کر ان کی تقلید کی کوشش کرتے ہیں۔
چونکہ میں والد صاحب سے زیادہ قریب رہا ہوں اسلئے میرے لئے یہ سوال بہت معنی رکھتا ہے۔
جہاں تک بات ماں کی محبت کی ہے تو اس بابت تو تب سے لکھا جارہا ہے جب سے حضرت انسان نے لکھنا سیکھا تھا پر باپ ایک ایسی ذات ہے جس بات پر شاید باپ نے بھی
کبھی کھل کر نہیں لکھا اور بھلا لکھ بھی کیسے سکتا ہے کہ باپ کی محبت کا ہر رنگ نرالا اور مختلف ہے۔ ماں کی محبت تو بچے کی پیدائش سے اسکی آخری عمر تک ایک سی ہی رہتی ہے یعنی اپنے بچے کی ہر برائی کو پس پردہ ڈال کر اسے چاہتے رہنا۔
بچپن میں بچہ اگر مٹی کھائے تو ماں اس پر پردہ ڈالتی ہے
اور باپ سے بچاتی ہے، نوجوانی میں بچے کی پڑھائی کا نتیجہ آئے تو اس رپورٹ کارڈ کو باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے، جوانی میں بچے کا دیر سے گھر آنا باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے ٹھیک اسی طرح جیسے جیسے بچہ بڑا اور اسکے "جرائم " بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے
ایک عابد نے *خدا کی زیارت* کے لیے 40 دن کا چلہ کھینچا ۔ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسر کٹا ہوا تھا اس کا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گذرتا تھا
36 ویں رات اس عابد نے ایک آواز سنی : شام 6 بجے،
تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اور خدا کی زیارت کرو*
عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دوکان کو ڈھونڈنے لگا وہ کہتا ہے ۔ "میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی"
اسے وہ بیچنا چاہتی تھی.. وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا: 4 ریال ملیں گے - وہ بڑھیا کہتی: 6 ریال میں بیچوں گی کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا
آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا
کابل سے امریکی انخلاء اور طالبان کی نئی حکومت کے قیام کے بعد افغانستان اپنے آجھو باجھو کی تمام نام نہاد طاقتوں کو کھٹکنے لگا تھا۔۔۔ ان نِکھٹّو طاقتوں میں سرِ فہرست ہندوستان ہے جس نے کھایا پیا تو کچھ نہیں البتہ گلاس توڑا 12آنے کے مصادق غنی گورنمنٹ پر تین بلین ڈالر برباد کر ڈالے۔۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ سب تگ و دو انہوں نے محض خطے میں اپنے اثر و رسوخ کا ڈنکنا بجانے کیلئے کی۔۔۔
برسوں ہندؤ انتہا پسند تنظیموں نے مودی سرکار کے ذریعے افغانستان کے لیے سب سے بڑے علاقائی عطیہ دہندگان میں سے ایک بننے کا ڈھونگ رچایا۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
غریب بھارتی عوام کے ٹیکس کو مودی سرکار کی 80 فیصد کرپٹ کیبنٹ نے افغانستان کے بہانے آپس میں نہ صرف مل بانٹ کر ہڑپ کیا بلکہ اسی کا ایک بڑا حصہ افغانستان میں داعش اور افغانستان کی سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہمسایہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔ تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہو کر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔۔
ایک دن سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔ آپؐ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حیسن نوجوان ہے۔ آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے، اس کے دل میں
اسلام کی محبت ڈال دے، اسے مسلمان کر دے، اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچا لے۔ رات کو آپ نے دعا فرمائی، صبح حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کہنے لگے؛ اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپؐ کیا احکام لے کر آئے ہیں؟
کچھ دن پہلے میں ایک شاپنگ مال کے باہر کھڑا اپنی بیگم کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک بہت خوش پوش اور شستہ زبان بولنے والے صاحب نے میری گاڑی کی کا شیشہ کھٹکھٹایا۔ میں نے شیشہ نیچے کیا اور ان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ انھوں نے بہت محبت سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور
اپنا تعارف کروایا، I am Tayyab. کیا ہم آپ سے بات کر سکتے ہیں؟ میں گاڑی سے اترا اور ان کی جانب متوجہ ہوا اور کہا" جی فرمائیے".
طیب خان ہے میرا نام، میں 78 سال کا ہوں۔ میری کچھ خواہشیں ہیں۔ کیا آپ پوری کر دیں گے؟میں نے بھی کچھ ویسا ہی سوچا جیسے آپ سب نے لکھا ہے۔
میں بھی ان کو لیکچر دینے کے موڈ میں تھا کہ اللہ تعالیٰ سے مانگیں وغیرہ۔ مگر میں نے سوچا کہ یہ جو بھی ہے۔ سچا ہے یا مکار، اسے میرے پاس اللہ پاک نے ہی بھیجا ہے۔ تو کیوں نہ پہلے اس سے اس کی بات سن لوں۔ میں نے کہا جی میں کوشش کروں گا، آپ حکم فرمائیں۔ ان کے چہرے پر ایک حیرت اور
پاکستان اس وقت دنیا میں ترقی کے سب سے زیادہ امکانات رلھنے والا ملک ہے افغانستان سے امریکیوں کی رخصتی کے بعد بننے والے منظر نامے میں پاکستان کو براستہ افغُانستان وسط ایشیا اور اس سے آگے روس اور مشرقی یورپ تک رسائی حاصل ہورہی ہے اس امر سے ہر خاص و عام واقف ہے کہ وسط
ایشیائی ریاستیوں کو سمندر تک رسائی حاصل نہیں ہے اس کمی کی وجہ سے وہ اپنی تجارت سمندری راستے سے کرنے سے قاصر ہیں ان کے لیے اس گمبھیر مسئلے کا سب سے آسان حل گوادر کی پاکستانی بندرگاہ ہے جہاں سے وہ باآسانی پوری دنیا تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں یہی کیفیت روس کی بھی ہے جسے اپنی
تجارت کے لیے گوادر کی بندرگاہ تک رسائی درکار ہے
یہ ساری کیفیت بڑی خوش کن ہے خبریں یہ بھی ہیں کہ گوادر پورٹ مکمل فعال ہونے کو ہے گوادر کا بین الاقوامی ائیرپورٹ مکمل ہوتے ہی یہاں تمام تر سرگرمیاں بھرپور چور پر شروع ہوجائیں گی اور بتایا یہ جارہا ہے کہ 2023 تک یہ ائیرپورٹ