اوٹو وون ایڈیورڈ لیوپولڈ بسمارک
(Otto Von Eduard Leopold Bismarck)(1815 - 1898)
جدیدجرمنی کا معمار
انیسویں صدی کی سب سے بااثر شخصیات میں سے ایک
بسمارک جو پرشیاکی پیدائش ھے،کو "آئرن چانسلر" (Iron Chancellor)کہاجاتاھے۔جرمنی کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کویونین میں اکھٹا #Germany #History
کرنے کا سہرا بسمارک کے سر ھے۔
بسمارک (exclude short period of 1872-73) 1890 تک پرشیا کے وزیر اعظم بھی رھے۔
جب بسمارک 1862 میں پرشیا کا وزیر اعظم بنا تو اس کو عالمی سطح پر پانچ یورپی طاقتوں میں سب سے کمزور سمجھا جاتا تھا۔ نو سال سے بھی کم عرصے کے بعد پرشیا تین جنگوں میں فتح یاب ھو
چکا تھا اور یورپ کے قلب میں ایک متحد جرمن سلطنت ابھری تھی، جس نے اپنے حریفوں میں حسد اور خوف پیدا کیا تھا۔
1870 اور 1890 کے درمیان بسمارک نے امن کے لیے اپنی مخلصانہ کوششوں کے لیے یورپی رہنماؤں کا احترام حاصل کیا۔
1880 کے وسط میں جرمنی نے ایک تسلی بخش طاقت کے طور پر کام کیا۔
بسمارک نے معاشی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کا آغاز کیا۔
1890 کا الیکشن بسمارک کے لیے ایک تباہی تھا۔ مرکز، سوشل ڈیموکریٹس، اور پروگریسو، وہ پارٹیاں جنہیں اس نے سلطنت کا دشمن قراردیا تھا، نیو ریخسٹگ (New Reichstag) میں نصف سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ نیانوجوان شہنشاہ ولیم (ولہیم) دوم،
جو 1888 سے 1918 تک پرشیا کا شہنشاہ اور بادشاہ تھا، اپنی حکومت کا آغاز ریاست کی طرف سے خونریزی یا بغاوت سے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ 1890 میں پچھتر سال کی عمر میں بسمارک نے ناکام ھونے کے احساس کے ساتھ استعفیٰ دے دیا۔
1890 میں جب بسمارک نے 28 سال پرشیا کے وزیر اعظم اور 19 جرمن سلطنت کے
چانسلر کے طور پر عہدہ چھوڑا تو یورپ کا نقشہ حد سے زیادہ تبدیل ھو چکا تھا۔
بسمارک ایک بلند پایہ شخصیت تھی جس نے تمام قابل غور حکمت عملی سے طاقتور جرمن سلطنت بنانے میں کامیاب رھا۔
لیکن اس تاریخی حقیقت سے بھی فرار ممکن نہیں کہ بسمارک جرمنی کو تو متحد بنا گیا مگر جرمن عوام کو
متحد کرنے میں ناکام رھا۔ اس نے جرمن سیاست میں شیطانی بیان بازی بھی متعارف کروائی۔
ظاہر ھے تاریخ ہمیشہ خوبیوں اور خامیوں میں فرق کیئے بغیر لکھی جاتی ھے۔
#ancient
#island
#Temple
Hidden Jewels of #Balochistan
جزیرہ استولا (گوادر، بلوچستان)
Astola Island (Gawader, Pakistan)
مٹی کےآتش فشان کےبعدبلوچستان ہمیں ایک بارپھرحیران کرتاھے۔
خاموش نیلگوں پانیوں سےٹکراتاپاکستان کےکل 14 جزائر میں سے ایک بالکل غیرآباد اورسب سے بڑاجزیرہ جس پرقدیم
گہری گوفاءوں اورایک مندر کی باقیات کاموجود ھوناکیا حیران کن نہیں!
بلوچستان کےصحرائی ساحل کے جنوب میں واقع سب سے خوبصورت، صاف ستھرا اور ناقابل یقین جزیرہ استولا جو 4 مربع کلومیٹر پرپھیلا ھوا ھے، پسنی سےتقریبا 38 کلومیٹر فاصلےپر واقع ھے۔
تقریبا 7۔6 کلومیٹر لمبا اور3۔2 کلومیٹر چوڑا
"جزیرہ استولا" جسے مقامی زبان میں "حفطلار" (Jezira Haft Talar) کہا جاتا ھے جس کا مطلب ھے "سات چوٹیوں کا مرکز" کیونکہ یہ جزیرہ سات چھوٹی چوٹیوں سے گھرا ھوا ھے۔
جزیرے پر اسرار کی چمک دکھائی دہتی جس کی ھندو پوجا کرتے ہیں۔ یہاں پر کالی دیوی کے ایک قدیم مندر کی تعمیراتی باقیات بھی
#HistoryBuff
#architecture
#heritage
کیا صرف بادشاہ ہی اپنی شاہی خواتین کیلئے عمارات یا یادگاریں تعمیر کرواتے تھے؟
جی نہیں!
تاریخ ھند میں ان گنت ایسی عمارات ہیں جنہیں ھندوستانی شاہی خواتین نے یادگار کے طود پر اپنے مردوں کےنام کرکے انہیں تاریخ کاحصہ بنانےکا اعزاز اپنےنام کیا جیسے؛
-مقبرہ اعتماد الدولہ (آگرہ) جسے "Mini Taj Mahal" بھی کہاجاتا ھے، جسے شہنشاہ جہانگیر کی اہلیہ نور جہاں نے اپنے والد میر غیاث بیگ کیلئے بہت محبت اور خلوص سے 1622 میں مرجان اور سرائیکی پتھروں سے تیار کروایا، تاریخ میں ایک نہایت مقام رکھتاھے۔
عجوبہ "تاج محل" خود اسی مقبرےسے متاثر ھے۔
-مقبرہ ھمایوں (نیو دہلی) ھندوستان کا اولین باغیچہ جو شہنشاہ ھمایوں سمیت دیگر حکمرانوں کی یادگار ھے، اسے حمیدہ بانو یعنی حاجی بیگم نے اپنے بادشاہ ھمایوں کیلئے 1565 تا 1572 میں تعمیر کروایا۔
اس تعمیر نے ھندوستانی فن تعمیرات پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
#HistoryBuff
#FactsMatter
#Lucknow
بیگم حضرت محل (1820_1879)
Unsung Heroes of Hindustani Freedom Struggle
لکھنؤ کےنواب واجدعلی شاہ کی اہلیہ اور1857کی بغاوت کی ایک عظیم حریت پسند اورجنگجو
شیعہ اسلام سےتعلق رکھنےوالی بیگم حضرت محل کااصل نام "محمدی خانم" تھا لیکن انہیں"اودھ کی بیگم"
بھی کہا جاتا ھے۔
بیٹے برجیس قدر کی پیدائش کے بعد آپ کو "بیگم حضرت محل" کانام ملا۔
بیگم حضرت محل کی دلکش طبیعت اور جسمانی دلکشی کے پیچھے ایک مضبوط رہنما اور ایک ماہرحکمت عملی کی خوبیاں پوشیدہ تھیں، جن کابھرپور مشاہدہ انگریزوں کے خلاف ھندوستان کی پہلی جدوجہدآزادی میں ان کی شرکت سے
ھوا۔
1850میں جب انگریز بےرحمی سے پورے ھندوستان میں اپنا تسلط بڑھارھے تھے تو وہ اودھ صوبے تک چڑھائی کی جواس وقت فن، ثقافت اور ادب کاایک بھرپور مرکز تھا۔
انہوں نے بالآخر 1856میں اودھ پر قبضہ کر لیا۔ نواب واجدعلی شاہ کوجلاوطن کرکے کلکتہ بھیج دیا۔اس طرح تخت بغیرکسی رہنما کے لاوارث ھو
#HistoryBuff
#Archaeology
#Italy
انسان نماشہر (قصبہ سینٹورپ، صوبہ اینا سسلی)
Human City(Centuripe Town, Province Enna Sicily)
ماءونٹ ایٹنا پرواقع"Terrace of Sicily"کہلایاجانےوالاقصبہ ایسی شکل سےمشابہت رکھتاھےجوفورا آنکھوں کوپکڑلیتی ھے۔
سبزےسےگھرا اٹلی کاقصبہ جس کانام "Human City"
آثارقدیمہ کامرکز بھی ھے، سطح سمندرسےتقریباً 2,400 فٹ بلندی پر ایک پہاڑی پر بغیر پلاننگ بنا۔
یہ قصبہ قدیم تاریخ، تعمیراتی نمونوں، شاندار دریافتوں، قدیم ارٹ، مجسموں، گلدانوں، گرجا گھروں سے مالامال ھے۔اس کےعلاؤہ یہ قصبہ علاقائی آثار قدیمہ کا عجائب گھر بھی ھے۔
5000 نفوس پر مشتمل صوبہ
اینامیں واقع سینٹورپ قصبہ ایسی انسانی شکل لیےھے جیسےکوئی انسان بجانب پیٹھ زمین پر لیٹا ھے لیکن بہت سے ماہرین اسے سٹار فش سے بھی جوڑتے ہیں۔
سینٹورپ کی یہ غیر معمولی شکل ایک 32 سالہ مقامی فوٹوگرافر آندریا پیری نے حال ہی میں اپنے ڈرون کیمرہ سے لی اور اسے گوگل ارتھ پر شیئر کر دیا اور
#HistoryBuff
#FactCheck
کوہ نور___تاریخ سے چند اوراق
کوہ نور__ ہزاروں سال قبل ہندوستان کی بارودی کان گولکنڈہ (Golkanda Mine)سے آیا,6۔105 قیراط وزنی، آج تاج برطانیہ میں سجا دنیا کاسب سےمشہور درحقیقت بدنام زمانہ "ہیرا" جوکبھی کاکتیہ خاندان کی بارعب، بہادر اورعقلمند ملکہ دیوی رودرما
کے تاج کی زینت تھا۔
کوہ نور__ہیرا "کوہ نور" سے پہلے "عظیم مغل ہیرا" اور "بابر کا ہیرا" کے نام سےجاناجاتاتھا۔
کوہ نور__ایک طویل ہنگامہ خیز تاریخ پر مشتمل یہ ہیرا قرون وسطی (Medieval Era) سےتعلق رکھتاتھا کیونکہ یہ جنوبی ھند کے آندھراپردیش اور تلنگامہ پرحکومت کرنے والی طاقتور کاکتیہ
سلطنت (Kakatiya Dynasty/circa: 1150_1300 CE) کی ملکیت ھوا کرتا تھا۔
کوہ نور__ہیرا، بمطابق وینس کےسیاح مارکو پولو (1293_1289)، دیوی رودرما نےاپنے باپ سےوراثت میں پایا۔
کوہ نور__ہیرے کی تاریخ کا قتل تب ھوا جب اس کا تذکرہ قدیم سنسکرت تحریروں اور چوتھی صدی میں کیاجانے لگا، اسکی تعظیم
#architecture
#Castle
#archives
ویل محل (لنوبرے، فرانس)
Castle 🏰 of Val (Lanobre, #France) 15th AD
فرانس__محلات کا ملک
جو دنیا بھر میں 40،000 سے زائد محل کی سرزمین ھونے کا منفرد اعزاز لیے ھوئے ھے۔
انہی میں قرون وسطی عہد کاجھیل کنارے ایک خوبصورت ماحول میں پریوں کی مانند یہ نوکیلا
قلعہ دور سے ہی پہچانا جانے والا "ویل محل" بھی شامل ھے۔
15 ویں صدی کا یہ قلعہ پرکشش جھیل کے ساتھ کھڑا اپنے نمایاں چھ ٹاورز سے پہچانا جاتا ھے جس میں ہر ایک کا ڈیزائن مختلف ھے۔
قلعے نے مختلف زمانوں میں غفلت، بحالی، لوٹ مار کے ادوار کا وسیع تجربہ کیاھے۔
محل میں آپ کو 2 منازل ملیں گی۔
سب سے پہلے فرنیچر اور قیمتی سجاوٹ سے مزینھے. دوسری سطح اس کی نمائشوں کے لیے مخصوص ھے۔
قلعہ کبھی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا تھا جس کے نیچے وادی کے اس پار متاثر کن نظارے تھے!
1946 میں جب بجلی بورڈ نے ڈیم بنانے اور وادی میں سیلاب لانے کے منصوبے کے تحت قلعہ اپنے مالکان سے خرید لیا۔
50 کی