زنا کا فلسفہ حرمت
سورہ اسرا
آیت 31-35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا ۞ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ۞
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ۞ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ۞ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ۞

ترجمہ
اور خبردار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرنا کہ ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی رزق
دیتے ہیں بیشک ان کا قتل کر دینا بہت بڑا گناہ ہے۔ اور دیکھو زنا کے قریب بھی نہ جانا کہ یہ بدکاری ہے اور بہت برا راستہ ہے۔ اور کسی نفس کو جس کو خدا نے محترم بنایا ہے بغیر حق کے قتل بھی نہ کرنا کہ جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ہیں لیکن اسے بھی چاہئے کہ
قتل میں حد سے آگے نہ بڑھ جائے کہ ِس کی بہرحال مدد کی جائے گی۔ اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طرح جو بہترین طریقہ ہے یہاں تک کہ وہ توانا ہوجائے اور اپنے عہدوں کو پورا کرنا کہ عُہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ اور جب ناپو تو پورا ناپو اور جب تولو تو صحیح ترازو سے تولو
کہ یہی بہتری اور بہترین انجام کا ذریعہ ہے ۔

تشریح
(الف) اس سے خاندانی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ ماں باپ اور اولاد کے درمیان رابطہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ یہ وہ رابطہ ہے جو نہ صرف معاشرے کی شناخت کا سبب ہے بلکہ خود اولاد کی نشود و نما کا موجب بھی ہے ۔ یہی رابطہ ساری عمر محبت کے
ستونوں کو قائم رکھتا ہے اور انہیں دوام دیتا ہے ۔
مختصر یہ کہ جس معاشرے میں غیرشرعی اور بے باپ کی اولاد زیاد ہ ہو اس کے اجتماعی روا بط سخت تزلزل کا شکا ر ہو جاتے ہیں کیونکہ ان روابط کی بنیاد خاندانی روابط ہیں۔
اس مسئلے کی اہمیت سمجھنے کے لیے لحظہ بھر اس امر پر غور کرنا کافی ہے کہ
اگر سارے انسانی معاشرے میں زنا جائز اور مباح ہوجائے اور شادی بیاہ کا قانون ختم کر دیا جائے تو ان حالات میں غیر مشخص اور بے ٹھکانہ اولاد پیدا ہوگی۔ اس اولاد کو کسی کی مدد اور سرپرستی حاصل نہ ہوگی۔ اسے نہ پیدائش کے وقت کوئی پوچھے گا نہ بڑا ہوکر۔
اس سے قطع نظر برائیوں، سختیوں اور
مشکلوں میں محبت کا اثر تسلیم شدہ ہے جبکہ ایسی اولاد اس محبت سے محروم ہوجائے گی اور انسانی معاشرہ پوری طرح تمام پہلوؤں سے حیوانی درندگی کی شکل اختیار کرلے گا۔
(ب) یہ شرمناک اور قبیح عمل ہوس باز لوگوں کے درمیان طرح طرح کے جھگڑوں اور کشمکشوں کا باعث بنے گا۔ وہ واقعات کہ جو بعض
افراد نے بد نام محلوں اور غلط مراکز کی داخلی کیفیت کے بارے میں لکھے ہیں ان سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جنسی بے راہ رویاں بدترین جرائم کو جنم دیتی ہیں۔
(ج) یہ بات علم اور تجربے نے ثابت کر دی ہے کہ زنا طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کا سبب بنا ہے۔ اس کے آثارِ بد اور برے
نتائج کی روک تھام کے لیے آج کے دور میں بہت سے ادارے قائم ہیں اور بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں مگر اعداد و شمار نشاندہی کرتے ہیں کہ کس قدر افراد اس راستے میں اپنی صحت و سلامتی گنوا بیٹھے ہیں۔
(د)اکثر اوقات یہ عمل اسقاطِ حمل، قتل اولاد اور انقطاع نسل کا سبب بنتا ہے کیونکہ ایسی عورتوں
ایسی اولاد کی نگہداری کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوتیں اور اصولاً اولاد ان کے لیے ایسا منحوس عمل جاری رکھنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے لہٰذا وہ ہمیشہ اسے پہلے سے ختم کردینے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہ مفروضہ بالکل موہومی ہے ایسی اولاد حکومت کے زیر کنٹرول اداروں میں رکھی جاسکتی ہے۔ اس مفروضے
کی ناکامی عملی طور پر واضح ہو چکی ہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ اس صورت میں بِن باپ کی اولاد کی پرورش کس قدر مشکلات کا باعث ہے اور نتیجتاً بہت ہی نامرغوب اور غیر پسندیدہ ہے۔ ایسی اولاد سنگدل، مجرم، بے حیثیت اور ہر چیز سے عاری ہوتی ہے۔
(ہ) یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ شادی بیاہ کا
مقصد صرف جنسی تقاضے پورے کرنا نہیں بلکہ تشکیل حیات میں اشتراک، روحانی محبت، فکری سکون، اولاد کی تربیت اور تمام حالاتِ زندگی میں ہمکاری شادی کے نتائج میں سے ہیں اور ایسا بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ عورت اور مرد باہم مخصوص ہوں اور عورتیں دوسروں پر حرام ہوں۔

زنا کے چھ بُرے اثرات ہیں:
ان میں سے تین کا تعلق دنیا سے ہے اور تین کا تعلق آخرت سے ہے ۔ دُنیاوی بُرے اثرات یہ ہیں کہ یہ عمل انسان کی نورانیت گنوادیتا ہے، روزی منقطع کردیتا ہے اور جلد فنا سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ اُخروی آثار یہ ہیں کہ یہ عمل پروردگار کے غضب، حساب کتاب میں سختی اور آتشِ جہنم میں دخول یا دوام
کا سبب بنتا ہے۔ (۱)
(۳) اگلی آیت میں ایک اور حکم۔ یہ حکم انسانوں کے خون کے احترام کے بارے میں اور قتل نفس کی انتہائی حرمت کا ترجمان ہے۔ قرآن کہتا ہے: جس شخص کا خون خدا نے حرام قرار دیا ہے اسے سوائے حق کےقتل نہ کرو(وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ)
انسان کے خون کا احترام اور قتل نفس کی حرمت ایسے مسائل ہیں جن میں تمام آسمانی شریعتیں، دین اور انسانی قوانین متفق ہیں اور اس قتل کو ایک بہت بڑا جرم اور گناہ شمار کرتے ہیں لیکن اسلام نے اس مسئلے کو بہت ہی زیادہ اہمیت دی ہے یہاں تک کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف
قرار دیا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
• مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اٴَوْ فَسَادٍ فِی الْاٴَرْضِ فَکَاٴَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا
جو کسی کو نہ جان کے بدلے اور نہ فساد فی الارض کی سزا میں قتل کر دے تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا ۔ (مائدہ۔۳۲)
یہاں تک کہ قرآن کی بعض
آیات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دائمی عذابِ جہنم کہ جو کفار کے لیے مخصوص ہے قاتل کے لیے بھی بیان ہوا ہے اور ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ممکن ہے یہ تعبیر اس بات کی دلیل ہو کہ وہ افراد جن کے ہاتھ بے گناہ افراد کے خون سے رنگین ہوتے ہیں وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ نہیں جائیں گے بہر حال قرآن
کہتا ہے:
• وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَھَنَّمُ خَالِدًا فِیھَا
جس کسی نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دیا تو اس کی جزاء جہنم ہے کہ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ (نساء/ ۹۳)
یہاں تک کہ جو افراد لوگوں کے سامنے ہتھیار کھینچتے ہیں ان کے لیے اسلام میں محارب کی
حیثیت سے سنگین سزا مقرر ہوئی ہے جس کی تفصیل فقہی کتب میں آئی ہے اس سلسلے میں ہم سورہٴ مائدہ آیہ ۳۳کے ذیل میں اشارہ کر آئے ہیں۔
نہ صرف قتل کرنا بلکہ کسی شخص کو کم سے کم اور چھوٹا آزار پہنچانے پر بھی اسلام میں سزا موجود ہے۔
یہ بات بڑے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ خون، جان اور انسان
کے مقام کا یہ سب احترام جو اسلام میں ہے کسی اور دین و آئین میں موجود نہیں ہے۔
لیکن بالکل اسی وجہ سے کچھ ایسے مواقع آتے ہیں کہ خون کا احترام اٹھ جاتا ہے اور ان افرا د کے لیے ہے جو قتل یا اس جیسے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی لیے زیر بحث آیت میں پہلے حرمت قتل نفس کا بنیادی اور عمومی
قانون بیان کیا گیا اور اس کے فوراً بعد”الّابالحق“ کہہ کر ایسے افراد کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے ایک مشہور حدیث میں فرمایا ہے:
لایحل امرء مسلم یشھد اٴن لا الٰہ الّا الله واٴنّ محمداً رسول الله الّا باٴحدی الثلاث: النفس بالنفس، والزانی
المحصن، والتارک لدینہ المفارق للجماعة-
کسی مسلمان کا خون کہ جو ”لا الہ الا الله“ اور ”محمد رسول الله“ کی گواہی دیتا ہو حلال نہیں ہے مگر 3 مواقع پر۔ ایک یہ کہ وہ قاتل ہو، زانی محصن ہو اور وہ جو اپنا دین چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے۔ (2)
قاتل کے بارے میں حکم تو واضح ہے
اس کے قصاص میں معاشرے کی حیات اور انسانوں کی حفظِ جان کی ضمانت اور اگر اولیاءِ مقتول کو حقِ قصاص نہ دیا جائے تو قاتلوں کو شہ ملے گی اور معاشرے کا امن و امان تباہ ہو جائے گا۔
باقی رہا زانی محصن تو اس کا قتل ایک ایسے انتہاٸی قبیح گناہ کے بدلے میں ہے جو قتل کے برابر ہے۔ نیز مرتد
کا قتل اسلامی معاشرے میں حرج مرج کو روکتا ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ ایک سیاسی حکم ہے، تا کہ نظام اجتماعی کی حفاظت کی جاسکے کیونکہ ارتداد نہ صرف اجتماعی امن و امان کے لیے خطرہ ہے بلکہ خود نظام اسلام کے لیے بھی خطرہ ہے۔
اصولی طور پر اسلام کسی شخص کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ یہ
دین قبول کرے۔ دوسرے ادیان سے اسلام منطقی بنیاد پر معاملہ کرتا ہے اور آزاد بحث و مباحثہ کا تامل ہے لیکن اگر کسی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا اور اسلامی معاشرے کا جز بن گیا اور اس طرح مسلمانوں کے اسرار سے آگاہ ہوگیا۔ اب اگر وہ دین سے پلٹ جانا چاہے اور عملی طور پر نظام اسلام کی
بنیاد کمزور کرنا چاہے اور اسلامی معاشرے کے ستون گرانا چاہے تو یقیناً یہ عمل ناقابل برداشت ہے اور ان شرائط کے ساتھ اس کی سزا قتل ہے۔ (3)
البتہ اسلام میں انسانوں کے خون کا احترام مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ غیر مسلمان جو مسلمانوں سے بر سرجنگ نہیں ہیں اور ان سے دامن و سلامتی
کی زندگی بسر کرتے ہیں ان کی جان و مال اور ناموس بھی محفوظ ہے اور ان پر تجاوز کرنا حرام اور ممنوع ہے۔ اس کے بعد قرآن اولیاء مقتول کے حق قصاص کے بارے میں کہتا ہے: جو شخص مظلوم مارا جائے اس کے ولی کو ہم نے(قاتل سے قصاص لینے کا) تسلط دیا ہے (وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا
لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا)۔
لیکن اسے بھی نہیں چاہیے کہ ان حالات میں وہ اپنے حق سے زیادہ کا مطالبہ کرے اور قتل میں اسراف کرے کیونکہ وہ مدد دیا گیا ہے (فَلَایُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنصُورًا)۔
جی ہاں! اولیاءِ مقتول جب تک حد اسلام کے اندر رہتے ہیں اور اپنی حد سے تجاوز نہیں
کرتے وہ نصرت الٰہی کے زیر سایہ ہیں یہ جملہ ان اعمال کی طرف اشارہ ہے زمانہٴ جاہلیت میں تھے اور بعض اوقات آج کل بھی ہوتے ہیں۔ کبھی ایک شخص کے قتل کے علاوہ اور بہت سے بے گناہ افراد قتل کر دیئے جاتے ہیں۔ جیسے زمانہٴ جاہلیت کی رسوم میں تھا کہ جب کسی قبیلے کا کوئی معروف آدمی قتل ہوجاتا
تو مقتول کا قبیلہ قاتل کے قتل پر قناعت نہ کرتا بلکہ ضروری سمجھتا کہ قاتل کے قبیلے کا سردار معروف شخص قتل کرے چاہے اس قتل میں اس کا کوئی حصّہ نہ ہو۔ (4)

اسلام میں عدالت کی اس قدر اہمیت ہے کہ اسے قاتل تک کے لیے ملحوظ رکھا گیا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی وصیتوں
میں فرماتے ہیں:
یا بنی عبد المطلب لا الفینکم تخوضون دماء المسلمین خوضاً تقولون قتل امیرالمومنین، الّا لا تقتلن بی الّا قاتلی، انظروا اذا انامت من ضربتہ ھذہ فاضربوہ، ولا تمثلوا بالرجل۔
اے اولادِ عبد المطلب! مبادا میری شہادت کے بعد مسلمانوں کا خون بہانے لگو اور کہو کہ امیرالمومنین
مارے گئے ہیں اور اس بہانے سے لوگوں کا خون بہانے لگو۔ آگاہ رہو کہ صرف میرا قاتل (عبدالرحمن بن ملجم مرادی) قتل ہوگا۔ پوری طرح غور کرنا کہ جب میں اس ضرب سے شہید ہو جاؤں کہ جو مجھ پر لگائی گئی ہے تو اسے صرف ایک ضرب کاری لگانا اور قتل کے بعد اس کا مثلہ نہ کرنا (ناک کان وغیرہ نہ کاٹنا)
(۴) اگلی آیت میں اس سلسلہٴ احکام کا چوتھا حکم ہے۔ پہلے یتیموں کے مال کی حفاظت کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ اس میں وہی لب ولہجہ اختیار کیا گیا ہے جو منافی ٴ عفت عمل کے بارے میں گزشتہ آیات میں اختیار کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: یتیموں کے مال کے قریب نہ جاٶ
(وَلَاتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ) نہ صرف یہ کہ یتیموں کا مال نہ کھاٶ بلکہ اس کے حریم و حدود کو بھی محترم سمجھو۔ لیکن ممکن تھا کہ نا واقف لوگ اس حکم کو منفی حوالے سے دیکھتے اور یتیموں کا مال بے سرپرست چھوڑنے کے لیے اسے سند بنالیتے اور یوں یتیموں کا مال حوادث کے رحم و کرم پر رہ
جاتا لہٰذا فوراً بلافاصلہ استثناء فرمایا گیا ہے: مگر نہایت اچھے طریقے سے(إِلاَّ بِالَّتِی ھِیَ اٴَحْسَنُ)۔
اس جامع اور واضح تعبیر کے مطابق یتیموں کے اموال میں ہر ایسا تصرف جائز ہے جو ان کی حفاظت، اصلاح اور اضافے کی نیت سے ہو اور جس میں قبل ازیں ان کے ضروری پہلوٶں کا اتلاف نہ ہونے
کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہو بلکہ ایسا تصرف ان یتیموں کی ایک خدمت ہے جو اپنے مفادات کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ البتہ یہ کیفیت یتیم کے فکری واقتصادی رشد تک پہنچنے کے وقت تک ہونا چاہئے۔ جیسا کہ زیرِ بحث آیت جاری رکھتے ہوئے قرآن کہتا ہے: اس زمانے تک کہ ان میں یہ طاقت پیدا ہوجائے
(حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّہُ)۔
”اشد“ مادہ ”شدّ“ (بروزن ”جَد“) سے محکم گرہ کے معنی میں ہے۔ بعد ازاں اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہو گئی اور اب یہ لفظ ہر قسم کے جسمانی و روحانی استحکام کے لیے بولا جاتا ہے۔ یہاں” اشد“ سے مراد حدّ بلوغ کو پہنچنا ہے لیکن جسمانی و بلوغت کافی نہیں بلکہ
فکری و اقتصادی بلوغت ہونا چاہیے۔ اس طرح سے کہ یتیم اپنے اموال کی حفاظت کر سکے یہ تعبیر اسی لیے منتخب کی گئی ہے کہ یقینی طور پر آزما کر دیکھ لیا جائے۔
اس میں شک نہیں کہ ہر معاشرے میں مختلف حوادث کے باعث یتیم موجود ہوتے ہیں۔ انسانی اقدار اور دیگر حوالوں سے ضروری ہے کہ یہ یتیم تمام
پہلووں سے معاشرے کے خیر خواہ افراد کی سرپرستی میں ہوں۔ اسی لیے اسلام نے اس مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ۔ اس کا کچھ حصہ ہم سورہٴ نساء کی آیہ ۲ کے ذیل میں ذکر کر آئے ہیں۔
جس چیز کا ہمیں یہاں اضافہ کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ بعض روایات میں یتیم وسیع تر معنی میں استعمال ہوا ہے۔
ان افراد کو بھی یتیم کہا گیا ہے جو اپنے امام اور پیشوا سے جدا ہو چکے ہیں اور ایک مادی حکم سے معنوی استفادہ کیا گیا ہے۔
(۵) اس کے بعد ایفائے عہد کا مسئلہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: اپنا عہد وفا کرو کیونکہ ایفائے عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا
(وَاٴَوْفُوا بِالْعَھْدِ إِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُولًا)۔
بہت سے معاشرتی روابط، اقتصادی نظام اور سیاسی مسائل عہد و پیمان کے گرد گھومتے ہیں۔ اگر عہد و پیمان متزلزل ہوجائے اور اعتماد اٹھ جائے تو معاشرے کا نظام تیزی سے در ہم برہم ہو جائے اور اس پر وحشتناک حرج و مرج مسلط ہو جائے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن آیات میں ایفائے عہد پر بہت زور دیا گیا ہے۔
عہد و پیمان کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں افراد کے درمیان جو اقتصادی اور کاروباری پیمان ہوتے ہیں وہ بھی شامل ہیں اور شادی بیاہ وغیرہ کے پیمان بھی شامل ہیں۔ ان میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو اقوام اور حکومتوں کے درمیان
ہوتے اور ان سے بڑھ کر خدائی پیمان اور آسمانی رہبروں کے اپنی امتوں سے کیے گئے پیمان یا امتوں کی طرف سے ان سے باندھے گئے پیمان بھی اس میں شامل ہیں۔ (6)
(۶)آخری زیرِبحث آیت میں آخری حکم ناپ تول میں عدالت کے بارے میں ہے۔ اسکے ذریعے حقوق الناس کی حغاظت اور کم فروشی کا سدِّباب مقصود ہے
ارشاد ہوتا ہے: جب کسی پیمانہ سے کوئی چیز ناپو تو اس کا حق ادا کرو(وَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ إِذَا کِلْتُمْ)۔صحیح اور سیدھے ترازو سے وزن کرو(وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ)۔ کیونکہ یہ کام تمہارے فائدے میں ہے اور اس کا انجام سب سے بہتر ہے(ذٰلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا)۔
۱۔ تفسیر مجمع البیان ج ۶ ص ۴۱۴-
2۔ تفسیر فی ضلال، ج۵، ص۳۲۳ بحوالہ صحیح بخاری وصحیح مسلم-
3۔ ارتداد اور اس کی سخت سزا کے بارے میں سورہٴ نحل کی آیہ۱۰۶ کے ذیل میں تفسیر نمونہ کی جلد ۱۱ میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔
4۔ تفسیر روح المعانی از آلوسی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں
5۔ ۔ ایفائے عہد اور قسم پوری کرنے کی اہمیت کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد ۱۱ سورہٴ نحل آیہ ۹۱ تا ۹۴ کے ذیل میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں۔

#قلمکار

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with آبی کوثر

آبی کوثر Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @NaikParveen22

5 Dec
*کراچی کیا تھا‘*

یہ مجھے ایک سابق امریکی سفارت کار نے بتایا‘ میں2002ء میں سیر کے لیے امریکا گیا‘ میرے دوست مجھے نیویارک میں ایک بوڑھے امریکی سفارت کار کے گھر لے گئے‘ یہ صدر ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک پاکستان میں تعینات رہا اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد
پاکستان سے لاطینی امریکا ٹرانسفر ہو گیا‘ یہ 2002ء میں ریٹائر زندگی گزار رہا تھا۔
میں اس کی اسٹڈی میں اس کے سامنے بیٹھ گیا ‘ وہ بیتے دنوں کی راکھ کریدنے لگا‘ اس نے بتایا کراچی 60ء کی دہائی میں دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ پرامن ترین شہر تھا‘ دنیا جہاں کے سفارت کار‘
سیاح اور ہپی شہر میں کھلے پھرتے تھے‘ ہوٹلز‘ ڈسکوز اور بازار آباد تھے‘ کراچی کا ساحل دنیا کے دس شاندار ساحلوں میں تھا‘ پی آئی اے دنیا کی چار بڑی ائیر لائینز میں آتی تھی‘ یورپ‘ امریکا‘ مشرق بعید‘ عرب ممالک‘ سوویت یونین‘ جاپان اور بھارت جانے والے تمام جہاز کراچی اترتے تھے اور مسافر
Read 18 tweets
4 Dec
کافی دن ہوئے میانوالی کے ایک بزرگ پیر سید فیروز شاہ صاحب نے دلچسپ خود پر بیتا قصہ سنایا۔ آپ بھی سن لیجیے:

65 والی جنگ کے دنوں میں ہمارے والد صاحب بڑے بھائی کے لیے بہت پریشان تھے جو سندھ میں انسپکٹر پولیس تھے۔ والد صاحب نے مجھے زاد راہ دے کر بھیجا کہ
کم از کم بھائی کے بیوی بچوں کو میانوالی لے آو۔ میں ان دنوں تعلیم سے فارغ التحصیل ہو کر فارغ تھا چنانچہ والد صاحب کے حکم پر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر بھائی صاحب کو والد صاحب کے حکم سے آگاہ کیا بھائی صاحب کہنے لگے والد صاحب سے کہنا کہ فکر نہ کریں، یہاں کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے۔
میں اور میرا خاندان محفوظ ہیں اگر ایسی صورت حال دکھی تو میں ایسا ہی کروں گاجیسا وہ چاہتے ہیں۔ واپسی پر بھائی صاحب مجھے چھوڑنے سٹیشن آے اور فرسٹ کلاس کا ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھما کر واپس چلے گئے۔ پلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین وسل دے کر قدم بڑھا چکی تھی۔ بھاگم بھاگ ایک ڈبے کا ڈنڈا پکڑ کر
Read 10 tweets
1 Dec
🥀 _*ٹچ موبائل استعمال کرنے والے تمام مرد و خواتین ضرور پڑھیں*_ 🥀

بالغ ویب سائٹس پر پاکستانی مواد کی بھرمار کیوں
نوجوان بچوں کے والدین لازمی پڑھیں
ہمارے ایک کولیگ بتا رہے تھے کہ میرے ایک دوست کی نئے اور پرانے موبائل کی خرید وفروخت کی دکان ہے
ایک دن اس دوست کے پاس اسکی دکان
میں بیٹھا تھا کہ ایک ماڈرن سی خوش شکل لڑکی اپنی ماں کے ساتھ موبائل لینے آئی
ایک پرائس رینج بتا کر پوچھا کہ اس میں اچھا موبائل کونسا ہے جس کا کیمرہ میموری اور سپیڈ اچھی ہو میرے دوست نے پوچھا کہ پہلے آپ کونسا موبائل استعمال کر رہی تھیں اور تبدیل کرنے کی وجہ؟
مزید یہ کہ آپکا
استعمال کیا ہے تاکہ اس لحاظ سے آپ کو بہتر موبائل بتا سکوں
اس نے پرانا موبائل دکھایا ہوئے کہا کہ پہلے سیمسنگ کا یہ موبائل ہےاور ہیلڈ ہو جاتا ہے اس لیے کوئی نیا لینا ہے
مزید کہا کہ آنلائن ایگزام ہو رہے یونیورسٹی کہ تو اچھی سپیڈ والا چاہیے
میرے دوست نے سیمسنگ اور چائنیز کمپنی کے
Read 19 tweets
1 Dec
*افغانستان کا منشیات فروش گل خان*

*تحریر :حجاب رندھاوا*
روس سے منی لانڈرنگ کرنے والا الیکسی نولنی ہو.پاکستانی خزانے کو باہر پہنچانے والے سیاست دان ہوں.سوڈان سے لوٹ مار کرنے والے ڈینگ اجک اور ہوت مائی ہوں یا انڈیا سے لاکھوں کا قرضہ لے کر فرار ہونے والا وجے مالیا ہو یا
دہشت گردی، قتل و غارت گری، خطرناک کیسز میں انتہائی مطلوب الطاف حسین جیسے مجرم ہوں
ایسے تمام کریمینل کی دنیا میں ایک ہی جنت ہے جو کالے دھن کو سفید کرنے لوٹ مار کی دولت کو محفوظ بنانے، ترقی پزیر ممالک کے لاء بریکر اور منی لانڈرنگ کرنے والے مجرمان کو تحفظ دینے کے علاوہ اس جنت میں
لوٹی ہوئی دولت سے جائیدادیں خریدنے میں سہولت فراہم کرتا ہے
یہ مجرمانہ جنت کوئی اور نہیں برطانیہ ہے جس کا سینٹرل لندن پاکستان، روس، ایتھوپیا صومالیہ جیسے ممالک سے لوٹ مار کرنے والوں کی جائیدادوں کا اہم زون ہے لندن منی لانڈرنگ کا کیپٹل ہے، غیر قانونی طریقے سے کمائے پیسے
Read 13 tweets
30 Nov
پچھلی شب لاھور ائیرپورٹ کے منظر نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔
یہ ڈیپارچر لاؤنج تھا۔
کوئی دو برس کی بچی تھی۔
باپ خداحافظ کہہ کر مسافروں کی قطار میں لگ گیا۔
بچی نے جو اندازہ کیا کہ بابا چھوڑ کر جارہے ہیں۔
وہ اتنی بلند آواز سے روئی کہ اس کا تڑپنا دیکھا نہ جاتا تھا۔
تین لوگ جو گاڑی میں ساتھ آئے تھے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
اس کی زبان پر یہی تھا۔
بابا پاس۔۔بابا پاس۔
وہ ہاتھ اٹھا کر قطار کی طرف دیکھ کر مچل رہی تھی۔
میرے پہلو میں کھڑی ساتھی بولیں۔"بچی کی چیخ و پکار پر تو سب سماعتیں متوجہ ہوگئیں مگر بابا کا دل کسی کو نظر نہیں آرہا۔"
میں نے کہا ممکن ہے بابا آنسوؤں کو بمشکل حلق میں دھکیل رہے ہوں۔

یہ "بابا" بھی دنیا کی عجیب و غریب مخلوق ہیں۔
خود اپنے لیے نہیں جیتے۔
زندگی بھر جو کماتے ہیں اس کا پانچ فیصد بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے۔
اپنی جوانی اور بہترین صلاحیتیں لگا کر گھر والوں کی خوشیاں خریدتے ہیں۔
Read 13 tweets
28 Nov
ایک عابد نے *خدا کی زیارت* کیلئے 40دن کا چلہ کھینچا۔ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسر کٹا ہوا تھا اس کا سارا وقت آہ و زاری اور رازونیاز میں گذرتاتھا
36ویں رات اسکےدل میں اچانک زور دار داعیہ پیدا ہوا کہ چلہ چھوڑ،تانبےکی مارکیٹ پہنچ۔
عابد بازار کھلنے سے بھی پہلے تانبہ مارکیٹ پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں ادھر سے ادھر گھومنے لگا وہ کہتا ہے ۔اس نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھا رہی تھی ،"
اسے وہ بیچنا چاہتی تھی.. وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی
وہ اسے تول کر کہتا: 4 ریال ملیں گے - وہ بڑھیا کہتی: 6 ریال میں بیچوں گی کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا
آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا بوڑھی عورت نے کہا: میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور میں اسے 6 ریال
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(