*کراچی کیا تھا‘*

یہ مجھے ایک سابق امریکی سفارت کار نے بتایا‘ میں2002ء میں سیر کے لیے امریکا گیا‘ میرے دوست مجھے نیویارک میں ایک بوڑھے امریکی سفارت کار کے گھر لے گئے‘ یہ صدر ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک پاکستان میں تعینات رہا اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد
پاکستان سے لاطینی امریکا ٹرانسفر ہو گیا‘ یہ 2002ء میں ریٹائر زندگی گزار رہا تھا۔
میں اس کی اسٹڈی میں اس کے سامنے بیٹھ گیا ‘ وہ بیتے دنوں کی راکھ کریدنے لگا‘ اس نے بتایا کراچی 60ء کی دہائی میں دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ پرامن ترین شہر تھا‘ دنیا جہاں کے سفارت کار‘
سیاح اور ہپی شہر میں کھلے پھرتے تھے‘ ہوٹلز‘ ڈسکوز اور بازار آباد تھے‘ کراچی کا ساحل دنیا کے دس شاندار ساحلوں میں تھا‘ پی آئی اے دنیا کی چار بڑی ائیر لائینز میں آتی تھی‘ یورپ‘ امریکا‘ مشرق بعید‘ عرب ممالک‘ سوویت یونین‘ جاپان اور بھارت جانے والے تمام جہاز کراچی اترتے تھے اور مسافر
کراچی کے بازاروں میں ایک دو گھنٹے گزار کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے تھے‘ شہر میں ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں‘ حکومت نے انڈر گرائونڈ ٹرین کے لیے شہر میں کھدائی مکمل کروا دی تھی اور یوں کراچی ایشیا کا پہلا شہر بننے والا تھا۔
جس میں میٹرو کی سہولت ہوتی‘ کراچی کی روشنیاں رات کو دن
میں بدل دیتی تھیں‘ ہم تمام سفارت کار کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے تھے‘ کراچی کے بیچ بھی لاجواب تھے‘ ہم گورے ہفتہ اور اتوار کا دن بیچ کی گرم ریت پر لیٹ کر گزارتے تھے‘ ہم ساحل کے ساتھ ساتھ سائیکل بھی چلاتے تھے‘ کراچی میں دنیا بھر سے بحری جہاز آتے تھے اور ان بحری جہازوں کے ذریعے
ہزاروں مسافر کراچی آتے تھے‘ کراچی خطے کا جنکشن بھی تھا‘ یورپ سے لوگ ٹرین کے ذریعے استنبول آتے تھے‘ استنبول سے تہران‘ تہران سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی آتے تھے‘ کراچی میں رک کر ٹرین کے ذریعے انڈیا چلے جاتے تھے اور وہاں سے سری لنکا‘ نیپال اور بھوٹان تک پہنچ جاتے تھے۔
کراچی میں
دنیا کی جدید ترین مصنوعات ملتی تھیں‘ میں نے زندگی کا پہلا ٹیپ ریکارڈر‘ پہلا رنگین ٹی وی اور پہلا ہیوی موٹر بائیک کراچی سے خریدا ‘ کراچی بڑی گاڑیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہوتا تھا۔ جاپان‘ یورپ اور امریکا سے مہنگی گاڑیاں کراچی آتی تھیں اور کراچی کے سیٹھ باقاعدہ بولی دے کر یہ گاڑیاں
خریدتے تھے‘ کراچی کا ریلوے اسٹیشن دنیا کے بہترین اسٹیشنوں میں شمار ہوتا تھا‘ ٹرینیں جدید‘ صاف ستھری اور آرام دہ تھیں اور ٹرینوں کے اندر کھانا بھی صاف ستھرا اور معیاری ملتا تھا‘ ہم میں سے زیادہ تر سفارت کار ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں قیام کے منصوبے بناتے تھے‘ ہم لوگ کراچی میں
پراپرٹی خریدنے کی کوشش بھی کرتے تھے‘ شہر صاف ستھرا تھا‘ فضا بہت اچھی تھی‘ سردیوں اور گرمیوں دونوں میں درجہ حرارت معتدل رہتا تھا‘ بیورو کریسی پڑھی لکھی۔
محب وطن اور کوآپریٹو تھی اور حکومتی عہدیدار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ تھے‘ میں نے ایوب خان کے ایک مشیر کے گھر اپنی زندگی کی
سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری دیکھی تھی‘ لوگ بہت مہمان نواز تھے‘ شہر میں کسی قسم کی ٹینشن اور خوف نہیں تھا‘ کراچی کے کسی سفارتخانے کے سامنے سیکیورٹی گارڈ یا پولیس نہیں ہوتی تھی‘ ہم اپنے ہاتھ سے سفارتخانے کا گیٹ کھولتے تھے اور یہ گیٹ خود بند کرتے تھے‘ پاکستان کے لیے کسی ملک کے ویزے
کی ضرورت نہیں ہوتی تھی‘ پاکستانی شہری جہاز میں سوار ہوتے تھے‘ یورپ کے ممالک میں اترتے تھے اور انھیں ائیرپورٹ پر ویزہ مل جاتا تھا‘ اس کی وجہ بہت دلچسپ تھی‘ پاکستان اس وقت دنیا کا واحد ملک تھا جس میں صرف ان لوگوں کو پاسپورٹ دیا جاتا تھا جو واقعی جینوئن مسافر ہوتے تھے‘
پاکستانی شہریوں کو پاسپورٹ کے حصول کے لیے اپنے خوش حال ہونے‘ صاحب جائیداد ہونے اور سفر کی وجوہات کے ثبوت دینا پڑتے تھے۔
چنانچہ پاکستان کے جس شہری کے پاس پاسپورٹ ہوتا تھا‘ اس کا مطلب ہوتا تھا ‘وہ صاحب حیثیت جینوئن مسافر ہے لہٰذا تمام ممالک اسے ’’ آن ارائیول‘‘ ویزہ دے دیتے تھے‘
پاکستان کا معیار تعلیم پورے خطے میں بلند تھا‘ طالب علم یورپ‘ عرب ممالک‘ افریقہ‘ مشرق بعید‘ ایران‘ افغانستان اور چین سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان آتے تھے اور کراچی اور لاہور کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہو جاتے تھے‘ امریکا اور یورپ کے پروفیسر روزگار کے لیے پاکستان کا
رخ کرتے تھے‘ کراچی شہر میں ایک ہزار کے قریب غیر ملکی ڈاکٹر‘ طبیب اور پروفیسر تھے‘ پاکستان کا بینکنگ سسٹم جدید اور فول پروف تھا‘ بجلی‘ ٹیلی فون اور گیس کا انتظام بہت اچھا تھا‘ سیوریج سسٹم شاندار تھا‘ کراچی میں بارش کے آدھ گھنٹے بعد سڑکیں خشک ہو جاتی تھیں‘ روزگار کے مواقع عام تھے‘
فیکٹریاں لگ رہی تھیں اور مال ایکسپورٹ ہو رہا تھا‘ ٹیلی ویژن نیا نیا آیا تھا چنانچہ کراچی کی چھتوں پر انٹینوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی تھیں۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے عہدیدار اس وقت امریکی ایمبیسی آتے تھے اور ہمیں کہتے تھے تم کسی طرح پاکستانی حکومت کو قرضہ لینے پر مجبور کرو‘
ہم وزیر خزانہ سے بات کرتے تھے تو وہ کہتا تھا ’’ہمیں ضرورت ہی نہیں‘ ہم پیسے لے کر کیا کریں گے‘‘یہاں پہنچ کر امریکی سفارت کار نے لمبی آہ بھری اور حسرت سے کہا ’’ ہم سفارت کار اس وقت ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کراچی 1980ء تک پہنچ کر دنیا کا سب سے بڑا شہر ہو گا یا لندن اور نیویارک اور
ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا‘ ‘ اس کے بعد اس سفارت کار نے ایک اور لمبی آہ بھری اور کہا ’’ میں آج ٹی وی پر کراچی کے حالات دیکھتا ہوں یا پھر اس کے بارے میں خبریں پڑھتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہتا ہوں کیا واقعی یہ وہی شہر ہے میں جس میں
پندرہ سال رہا اور میں جسے دنیا کا شاندار ترین شہر سمجھتا تھا‘‘
اس کے بعد نسل پرست و تعصبی ذلفقار علی بھٹو آیا اور اس نے میرٹ کا قتل کر کے کوٹہ سسٹم نافذ کردیا
اور نا اہل اور کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں سسٹم آگیا اور یوں پاکستان تباہی اور بربادی کے دہانے پر آگیا

#قلمکار

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with آبی کوثر

آبی کوثر Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @NaikParveen22

5 Dec
زنا کا فلسفہ حرمت
سورہ اسرا
آیت 31-35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا ۞ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ۞
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ۞ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ۞ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ۞

ترجمہ
اور خبردار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرنا کہ ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی رزق
Read 48 tweets
4 Dec
کافی دن ہوئے میانوالی کے ایک بزرگ پیر سید فیروز شاہ صاحب نے دلچسپ خود پر بیتا قصہ سنایا۔ آپ بھی سن لیجیے:

65 والی جنگ کے دنوں میں ہمارے والد صاحب بڑے بھائی کے لیے بہت پریشان تھے جو سندھ میں انسپکٹر پولیس تھے۔ والد صاحب نے مجھے زاد راہ دے کر بھیجا کہ
کم از کم بھائی کے بیوی بچوں کو میانوالی لے آو۔ میں ان دنوں تعلیم سے فارغ التحصیل ہو کر فارغ تھا چنانچہ والد صاحب کے حکم پر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر بھائی صاحب کو والد صاحب کے حکم سے آگاہ کیا بھائی صاحب کہنے لگے والد صاحب سے کہنا کہ فکر نہ کریں، یہاں کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے۔
میں اور میرا خاندان محفوظ ہیں اگر ایسی صورت حال دکھی تو میں ایسا ہی کروں گاجیسا وہ چاہتے ہیں۔ واپسی پر بھائی صاحب مجھے چھوڑنے سٹیشن آے اور فرسٹ کلاس کا ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھما کر واپس چلے گئے۔ پلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین وسل دے کر قدم بڑھا چکی تھی۔ بھاگم بھاگ ایک ڈبے کا ڈنڈا پکڑ کر
Read 10 tweets
1 Dec
🥀 _*ٹچ موبائل استعمال کرنے والے تمام مرد و خواتین ضرور پڑھیں*_ 🥀

بالغ ویب سائٹس پر پاکستانی مواد کی بھرمار کیوں
نوجوان بچوں کے والدین لازمی پڑھیں
ہمارے ایک کولیگ بتا رہے تھے کہ میرے ایک دوست کی نئے اور پرانے موبائل کی خرید وفروخت کی دکان ہے
ایک دن اس دوست کے پاس اسکی دکان
میں بیٹھا تھا کہ ایک ماڈرن سی خوش شکل لڑکی اپنی ماں کے ساتھ موبائل لینے آئی
ایک پرائس رینج بتا کر پوچھا کہ اس میں اچھا موبائل کونسا ہے جس کا کیمرہ میموری اور سپیڈ اچھی ہو میرے دوست نے پوچھا کہ پہلے آپ کونسا موبائل استعمال کر رہی تھیں اور تبدیل کرنے کی وجہ؟
مزید یہ کہ آپکا
استعمال کیا ہے تاکہ اس لحاظ سے آپ کو بہتر موبائل بتا سکوں
اس نے پرانا موبائل دکھایا ہوئے کہا کہ پہلے سیمسنگ کا یہ موبائل ہےاور ہیلڈ ہو جاتا ہے اس لیے کوئی نیا لینا ہے
مزید کہا کہ آنلائن ایگزام ہو رہے یونیورسٹی کہ تو اچھی سپیڈ والا چاہیے
میرے دوست نے سیمسنگ اور چائنیز کمپنی کے
Read 19 tweets
1 Dec
*افغانستان کا منشیات فروش گل خان*

*تحریر :حجاب رندھاوا*
روس سے منی لانڈرنگ کرنے والا الیکسی نولنی ہو.پاکستانی خزانے کو باہر پہنچانے والے سیاست دان ہوں.سوڈان سے لوٹ مار کرنے والے ڈینگ اجک اور ہوت مائی ہوں یا انڈیا سے لاکھوں کا قرضہ لے کر فرار ہونے والا وجے مالیا ہو یا
دہشت گردی، قتل و غارت گری، خطرناک کیسز میں انتہائی مطلوب الطاف حسین جیسے مجرم ہوں
ایسے تمام کریمینل کی دنیا میں ایک ہی جنت ہے جو کالے دھن کو سفید کرنے لوٹ مار کی دولت کو محفوظ بنانے، ترقی پزیر ممالک کے لاء بریکر اور منی لانڈرنگ کرنے والے مجرمان کو تحفظ دینے کے علاوہ اس جنت میں
لوٹی ہوئی دولت سے جائیدادیں خریدنے میں سہولت فراہم کرتا ہے
یہ مجرمانہ جنت کوئی اور نہیں برطانیہ ہے جس کا سینٹرل لندن پاکستان، روس، ایتھوپیا صومالیہ جیسے ممالک سے لوٹ مار کرنے والوں کی جائیدادوں کا اہم زون ہے لندن منی لانڈرنگ کا کیپٹل ہے، غیر قانونی طریقے سے کمائے پیسے
Read 13 tweets
30 Nov
پچھلی شب لاھور ائیرپورٹ کے منظر نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔
یہ ڈیپارچر لاؤنج تھا۔
کوئی دو برس کی بچی تھی۔
باپ خداحافظ کہہ کر مسافروں کی قطار میں لگ گیا۔
بچی نے جو اندازہ کیا کہ بابا چھوڑ کر جارہے ہیں۔
وہ اتنی بلند آواز سے روئی کہ اس کا تڑپنا دیکھا نہ جاتا تھا۔
تین لوگ جو گاڑی میں ساتھ آئے تھے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
اس کی زبان پر یہی تھا۔
بابا پاس۔۔بابا پاس۔
وہ ہاتھ اٹھا کر قطار کی طرف دیکھ کر مچل رہی تھی۔
میرے پہلو میں کھڑی ساتھی بولیں۔"بچی کی چیخ و پکار پر تو سب سماعتیں متوجہ ہوگئیں مگر بابا کا دل کسی کو نظر نہیں آرہا۔"
میں نے کہا ممکن ہے بابا آنسوؤں کو بمشکل حلق میں دھکیل رہے ہوں۔

یہ "بابا" بھی دنیا کی عجیب و غریب مخلوق ہیں۔
خود اپنے لیے نہیں جیتے۔
زندگی بھر جو کماتے ہیں اس کا پانچ فیصد بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے۔
اپنی جوانی اور بہترین صلاحیتیں لگا کر گھر والوں کی خوشیاں خریدتے ہیں۔
Read 13 tweets
28 Nov
ایک عابد نے *خدا کی زیارت* کیلئے 40دن کا چلہ کھینچا۔ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسر کٹا ہوا تھا اس کا سارا وقت آہ و زاری اور رازونیاز میں گذرتاتھا
36ویں رات اسکےدل میں اچانک زور دار داعیہ پیدا ہوا کہ چلہ چھوڑ،تانبےکی مارکیٹ پہنچ۔
عابد بازار کھلنے سے بھی پہلے تانبہ مارکیٹ پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں ادھر سے ادھر گھومنے لگا وہ کہتا ہے ۔اس نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھا رہی تھی ،"
اسے وہ بیچنا چاہتی تھی.. وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی
وہ اسے تول کر کہتا: 4 ریال ملیں گے - وہ بڑھیا کہتی: 6 ریال میں بیچوں گی کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا
آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا بوڑھی عورت نے کہا: میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور میں اسے 6 ریال
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(