وسعت اللہ خان کا کالم: سانپ تو نکل گیا بھائی

وسعت اللہ خان

تجزیہ کار

9 گھنٹے قبل

(جولائی 2012: وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف، وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف)

بہاولپور سے 78 کلومیٹر پرے چنی گوٹھ قصبے میں ایک صاحب نے ایک شخص کو پکڑنے کا دعویٰ کیا جو قرآنِ پاک کے اوراق جلا رہا تھا۔
ان صاحب اور دیگر ساتھیوں نے اس شخص کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے اسے لاک اپ میں بند کر کے پرچہ کاٹ دیا۔ یہ خبر پھیلتی چلی گئی۔

مقامی مساجد سے ’چلو چلو تھانے چلو‘ کے اعلانات ہونے لگے۔ لگ بھگ دو ہزار لوگوں نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا جہاں 10 سپاہی موجود تھے۔
’مجرم کو حوالے کرو‘ کے نعرے لگنےلگے۔ پولیس نے تھوڑی بہت مزاحمت کی اور اس میں نو سپاہی زخمی ہوئے
مجمع اس شخص کو حوالات توڑ کےلےگیا اور مرکزی چوک میں بہیمانہ تشدد کے بعد زندہ جلادیا بعد میں معلوم ہوا کہ اس شخص کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اور مجمع میں شامل بہت سے لوگ یہ بات جانتےتھے
پولیس نے 2000 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی ۔کچھ گرفتاریاں اور رہائیاں ہوئیں، مقدمات چلے، رپورٹ طلب کر لی گئی۔ یہ انسانیت نہیں درندگی ہے، مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔

(دسمبر 2012: وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف، وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ)

دادو کے علاقے راجو ڈیرو کے
گوٹھ سیتا کی ایک مسجد میں ایک اجنبی مسافر ٹھہرا۔ ایف آئی آر کے مطابق امام مسجد نے نمازِ فجر کے بعد قرانِ پاک کے کچھ جلے ہوئے صفحات دیکھے اور اس مسافر کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے ایف آئی آر کاٹ کے حوالات میں بند کر دیا۔ پھر اسی مسجد سمیت دیگر مساجد سے اعلانات ہوئے،
آس پاس کے گوٹھوں میں بھی اشتعال پھیل گیا۔ تھانے کا گھیراؤ ہوا، مٹھی بھر پولیس والوں سے ہاتھا پائی ہوئی۔ مشتعل مظاہرین نے نہ صرف تھانے کے اندر موجود ملزم کو زندہ جلا دیا بلکہ تھانہ بھی جلا دیا۔

پولیس نے 200 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی۔ کچھ گرفتاریاں اور رہائیاں ہوئیں،
مقدمات چلے، رپورٹ طلب کر لی گئی۔ یہ انسانیت نہیں درندگی ہے۔ مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔

(نومبر 2014: وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیرِ اعلیٰشہباز شریف)

لاہور سے 56 کلومیٹر پرے کوٹ رادھا کشن کے چک 59 میں مسجد سے اعلان ہوا قرآن کی مبینہ بے حرمتی ہو گئی۔
اینٹوں کے ایک بھٹے کے نزدیک جلے ہوئے اوراق ملے۔ بھٹہ مالک یوسف گجر اور اس کے ساتھیوں نے واجبات کے حساب کے لیے مسلسل تقاضا کرنے والے 34 سالہ مزدور شہزاد مسیح اور اس کی 24 سالہ ناخواندہ مزدور حاملہ بیوی شمع پر توہین کا الزام لگایا۔ دونوں کو بھٹے کے قریب کمرے میں بند کر دیا گیا۔
مساجد سے اعلانات شروع ہو گئے، ہجوم بنتا چلا گیا، بھٹے کے عملے نے فرنس کا ڈھکن اٹھا دیا اور دونوں میاں بیوی کو اس میں دھکیل دیا گیا۔ دونوں کے دو سے سات برس تک کے تین بچے تھے۔
پولیس نے 200 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی۔کچھ گرفتاریاں اور رہائیاں ہوئیں، مقدمات چلے رپورٹیں طلب ہوئیں
یہ انسانیت نہیں درندگی ہے۔ مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔

( اپریل 2017: وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک)

مردان کی خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں پڑھنے والا 23 سالہ طالبِ علم مشال خان کئی دنوں سے یونیورسٹی کے اندر جاری بدانتظامی کا ناقد بنا ہوا تھا۔ چنانچہ
یونیورسٹی انتظامیہ کے چند اہلکاروں اور ان کے حامی طلبا نے مشال خان پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا۔ مجمع اکھٹا کیا گیا اور ہاسٹل کے کمرے سے مشال خان کو باہر لا کر مار مار کے قتل کر دیا گیا۔

پولیس نے 58 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی۔ کچھ گرفتاریاں اور رہائیاں اور سزائیں ہوئیں،
رپورٹیں طلب کی گئیں۔ یہ انسانیت نہیں درندگی ہے۔ مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔

میں نے آپ کے سامنے پچھلے دس برس میں ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے کے چار واقعات رکھے۔ ان میں سے تین انسانوں کو زندہ جلایا گیا۔

ان واقعات میں مختلف المیعاد قید کی سزائیں تو سنائی گئیں مگر
اکثریت کی ضمانت ہو گئی۔ آج تک کسی کو سزائے موت نہیں ہوئی۔ ایک کو موت کی سزا سنائی گئی تھی پھر اسے عمر قید میں بدل دیا گیا۔

ان واقعات کو ہمیشہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ یا چند لوگوں کی گمراہی قرار دیا گیا۔ ان تمام واقعات کے خلاف جو مذمتی مظاہرے اور دھرنے ہوئے وہ مقتولوں کے حق میں کم
اور قاتلوں کے حق میں زیادہ ہوئے۔ قاتلوں کا بطور ہیرو اپنے علاقے اور عدالتی احاطوں میں سواگت ہوا اور انھیں عام آدمی سے لے کر پولیس والوں اور وکلا نے ہار پہنائے۔

حزبِ اختلاف کی ہر سرکردہ جماعت نے اس ذہنیت کو بڑھاوا دینے والوں کا بلا واسطہ و بالواسطہ ساتھ دیا۔ ان سے سیاسی و مذہبی
ہم آہنگی ظاہر کی۔ ان کے جلسوں اور دھرنوں میں تقاریر فرمائیں۔ دو ٹوک موقف اختیار کرنے کے بجائے موقع پرستی کے آلاؤ پر ہاتھ تاپے جاتے رہے۔ جب اقتدار ملا تب بھی خفیہ و اعلانیہ سمجھوتے کیے۔

کسی نے آج تک پارلیمنٹ میں اس بابت قانون سازی کے لیے مطالبہ نہیں کیا کہ
جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو توہین کے مرتکب افراد کے لیے مخصوص ہے۔

اب یہ آگ آہستہ آہستہ پورے بدن میں پھیلتی جا رہی ہے اور ریاست بغلیں جھانک رہی ہے۔ الفاظ تھوتھے چنے میں بدل چکے ہیں۔ دنیا کسی مذمت، کسی پرفارمنس، کسی قدم پر ہرگز اعتبار کے لیے تیار نہیں۔
جو پھرتیاں اس آگ میں بھسم ہونے والے پہلے غیرملکی باشندے پریانتھا کمارا کی موت کے بعد ریاست دکھا رہی ہے اس سے آدھی پھرتیاں اگر ریاست اس طرح کے پہلے سانحے کے بعد دکھاتی تو آج ہر کوئی اک دوجے سے نگاہیں نہ چرا رہا ہوتا۔

یہ دیگ ہم نے اور ہمارے تمام منتخب و غیر منتخب اداروں،
جماعتوں اور گروہوں نے بہت محنت سے تیار کی ہے۔ اب اس کے بٹنے کا وقت آگیا ہے اور ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔

یہ راستہ جنت کا ہے یا جہنم کا؟ باقی دنیا کو تو صاف نظر آ رہا ہے۔ مگر ہماری آنکھوں میں اترا برسوں پرانا موتیا اتنا بگڑ چکا ہے کہ شاید اس کا آپریشن بھی جان لیوا خطرے جیسا ہے۔
ہم اس کھائی کے دہانے پر اس لیے پہنچے ہیں کہ ریاست بنیادی سوالات اٹھانے والوں کی دشمن اور ہم خوفزدہ ہیں۔

#قلمکار

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with آبی کوثر

آبی کوثر Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Aabi_Kausar

9 Dec
سقوط ڈھاکہ چند حقائق

سن 40 میں جو قرارداد پاس ہوئی تھی اس میں ریاستوں کا ذکر تھا ایک ملک کا نہیں۔ بعد میں ایک ملک کا مطالبہ پیش کیا گیا جو اس وقت بھی کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا اور علیحدگی کا بیج اسی وقت پڑ گیا۔
اس وقت کوئی حقوق وغیرہ کا مسئلہ نہیں تھا!

پاکستان بنتے ہی
مولانا بھاشانی (کمیونسٹ سرخہ) نے جو کہ ایک بڑا بنگالی لیڈر تھا پاکستان سے الگ ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ شیخ مجیب اسی کا شاگرد اور منشی تھا۔ اس وقت بھی کوئی حقوق کا مسئلہ نہیں تھا۔

سن 66 میں اگرتلہ سازش پکڑی گئی جس میں شیخ مجیب انڈین خفیہ ایجنسی را کے ساتھ مل کر
پاکستان کو توڑنے کی سازش میں مصروف تھا۔ جنرل ایوب نے شیخ مجیب کو غداری کے جرم میں سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
بھٹو نے جو جمہوریت کے ذریعے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر رہا تھا جنرل ایوب خان کے اس فیصلے کے خلاف شیخ مجیب کے حق میں ملک گیر مہم چلائی۔ عوام کو ایوب خان کے خلاف اکسایا کہ
Read 24 tweets
9 Dec
*نوکر شاہی کسے کہتے ہیں*

" ایک دن خواجہ شاہد حسین،جو سب ذیلی محکموں کے سب سے بڑے افسر تھے یعنی سیکرٹری وزارتِ سیاحت و ثقافت،اسلام آباد سے ان کا فون آیا۔کہنے لگے۔یار عکسی; مائی جنداں کی حویلی کی چھت ٹپک رہی ہے۔ پانی سم کر رنجیت سنگھ کے دربار کی اہم ترین پینٹنگ کو خراب کر رہا ہے
یہ بہت ہی قیمتی اثاثہ ہے۔اس کی قیمت کئی لاکھ پونڈ ہے۔اس کا ستیاناس ہو جائے گا۔یار تم وہاں ہو فورا اس پینٹنگ کو بچانے کاانتظآم کرو۔
.
میں نے اسی وقت ڈایئرکیٹر نارتھ جس کا دفتر عین سامنے تھا فون کیا اور درخواست کی کہ مجھے ایک سیڑھی اور ایک میسن فراہم کیا جائے تاکہ میں حویلی کی
چھت پر جا کر ضروری مرمت کرا سکوں۔سکوں ۔ڈائریکٹر صاحب نے سب سن کر کہا۔جی ہاں جی ہاں ضرور،لیکن میسن کیلٸے آپ ڈاٸریکٹر ساوُتھ سے رابطہ کریں۔ , البتہ سیڑھی کیلٸےآپ یہ درخواست فائل پر لکھ کر مجھے بھیج دیں۔۔
.
میں نے فوری حکم کی تعمیل کی۔ایک درخواست لکھی اس کو فائل میں لگایااور خاص
Read 13 tweets
9 Dec
*صوفی حیدر علی کا بیٹا ٹیپو سلطان وہابی ہو گیا ہے۔*

تاریخ بھی ایک عبرت کدہ ہے۔ حیران کر دیتا ہے۔

یہ 1799 کا مارچ تھا' نماز جمعہ پڑھ کر لوگ نکلے تو منادی کرنے والے نے منادی کی : ’’ اے مسلمانو! سنو، میسور کے صوفی بادشاہ حیدر علی کا بیٹا فتح علی ٹیپو وہابی ہو گیا ہے‘‘۔۔۔۔
یہ اعلان کرناٹکا کے مقبوضہ مضافات سے لے کر نظام کی ریاست حیدر آباد کے گلی کوچوں میں پڑھ کر سنایا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر، مرہٹے اور نظام آف حیدر آباد میسور کے ٹیپو سلطان کے خلاف چوتھی جنگ لڑنے جا رہے تھے اور یہ اسی جنگ کی تیاری ہو رہی تھی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان ٹیپو کے
ہاتھوں شکست ہوئی اور انہوں نے ریاست میسور کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا تو اسے مٹانے کے لیے انہوں نے صرف عسکری منصوبہ بندی نہیں کی، وہ ہر محاذ پر بروئےکارآئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے سلطان ٹیپو کے خلاف مذہبی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے یہ بات پھیلا دی کہ ٹیپو سلطان تو وہابی ہوگیاہے۔
Read 20 tweets
9 Dec
*بھوکا ننگا کون؟*

بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ ، اے - ایم - ایچ مصطفیٰ کمال نے بنگلہ دیش کا 5,230 ارب ٹکے کا بجٹ 2021 پیش کیا.

ایک ڈالر = 160 پاکستانی روپے

ایک ڈالر = 85 بنگلہ دیشی ٹکہ

پاکستان کا بجٹ 7,130 ارب روپے...

مطلب، بنگلہ دیش، ہم سے چھوٹا مُلک، کرنسی مضبوط،
اور
اس کا بجٹ ہم "امیروں" سے ٪26 ذیادہ

اچھا.

اب پاکستان کے بجٹ میں 4,000 ارب روپے کا لیا گیا بیرونی قرضہ بھی شامل ہے

جبکہ
بنگلہ دیش کے بجٹ میں
کوئی بیرونی قرضہ
بھی شامل نہیں.

پاکستان کے ریزروز.. 13 ارب ڈالرز..
بنگلہ دیش کے 43 ارب ڈالرز..

یاد رہے، کہ
ہمارے پاس دریا... پہاڑ..
جن پر
بند باندھ کر، ڈیم بنا کر ہم
سستی بجلی
پیدا کر سکتے تھے.
جبکہ
بنگالیوں کے پاس
ایسا کچھ نہیں تھا.
ہمارے پاس زراعت.
مگر
بنگالیوں کے پاس
نا ایسی زراعت،
نا نہری نظام
اور
آئے روز کی سیلاب کاریاں.
مگر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہم سے تین گُنا.
اور
وہ بھی
بنا کپاس پیدا کیے..
Read 20 tweets
8 Dec
حجّام کی دکان پر لکھا ہوا پڑھا۔
"ہم دِل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کر سکتے ہیں۔"

لائٹ کی دکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا.
"آپکے دِماغ کی بتی بھلے ہی جلے یا نہ جلے، مگر ہمارا بلب ضرور جلے گا"

چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا.
"میں بھلے ہی عام ہوں مگر
چائے اسپیشل بناتا ہوں"۔

ایک ریسٹورینٹ نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا......
"یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں۔"

الیکٹرونک دکان پر سلوگن پڑھا تو میں دم بہ خود رہ گیا...
"اگر آپ کا کوئی فین نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں۔"

گول گپے کے ٹھیلے پر یوں لکھا تھا.....
"گول گپے کھانے کے لئے دِل بڑا ہو نہ ہو، منہ بڑا رکھیں، پورا کھولیں۔"

پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا.
"آپ تو بس صبر کریں، پھل ہم دے دیں گے۔"

گھڑی کی دکان پر بھی ایک زبردست فقرہ دیکھا.
"بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر ٹانگیں، یا ہاتھ پر باندھیں۔"
Read 5 tweets
8 Dec
ریٹائرڈ دوستوں کی یاد دہانی کے لئے

فیوز بلب

ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش کے لئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا

یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر حیران اور پریشان ، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا
ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ تقریبا" روزانہ بیٹھنے لگا۔ اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔ "میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے ، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔" اور وہ
بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے۔

ایک دن جب "ریٹائرڈ" افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی -

اس نے وضاحت کی:-

"ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی
Read 7 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(