*صوفی حیدر علی کا بیٹا ٹیپو سلطان وہابی ہو گیا ہے۔*
تاریخ بھی ایک عبرت کدہ ہے۔ حیران کر دیتا ہے۔
یہ 1799 کا مارچ تھا' نماز جمعہ پڑھ کر لوگ نکلے تو منادی کرنے والے نے منادی کی : ’’ اے مسلمانو! سنو، میسور کے صوفی بادشاہ حیدر علی کا بیٹا فتح علی ٹیپو وہابی ہو گیا ہے‘‘۔۔۔۔
یہ اعلان کرناٹکا کے مقبوضہ مضافات سے لے کر نظام کی ریاست حیدر آباد کے گلی کوچوں میں پڑھ کر سنایا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر، مرہٹے اور نظام آف حیدر آباد میسور کے ٹیپو سلطان کے خلاف چوتھی جنگ لڑنے جا رہے تھے اور یہ اسی جنگ کی تیاری ہو رہی تھی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان ٹیپو کے
ہاتھوں شکست ہوئی اور انہوں نے ریاست میسور کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا تو اسے مٹانے کے لیے انہوں نے صرف عسکری منصوبہ بندی نہیں کی، وہ ہر محاذ پر بروئےکارآئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے سلطان ٹیپو کے خلاف مذہبی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے یہ بات پھیلا دی کہ ٹیپو سلطان تو وہابی ہوگیاہے۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ ’’وہابی سلطان‘‘ کے خلاف فتووں کا تھا۔ ریاست حیدر آباد کے ’’مفتی‘‘ صاحبان سے سینکڑوں فتوے لیے گئے کہ صوفی حیدر علی کا بیٹا ٹیپو سلطان وہابی ہو گیا ہے اور اب اس کے خلاف لڑائی واجب ہو چکی ہے اور اس لڑائی میں جو بھی شریک ہو گا عند اللہ ماجور ہو گا۔ اجر پائے گا
اور ثواب کا حقدار ہو گا۔چنانچہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی مرہٹوں اور نظام آف حیدر آباد سے مل کر میسور پر حملہ آور ہوئی تو اس کے ساتھ وہ مسلمان جنگجو بھی شامل تھے جو ثواب دارین کی خاطر سلطان ٹیپو سے لڑنے چلے آئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں تین ریاستوں میں تین اعلانات ہو رہےتھے
کہیں اعلان ہو رہا تھا ٹیپو وہابی ہو گیا ہے تو کہیں اعلان کیا جا رہا تھا ٹیپو شیعہ ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایسا ہی ایک فتوی ڈیڑھ سال بعد سلطان عثمانیہ کے خلاف بھی لیا گیا جب ترکوں سے لڑنے کے لیے بر صغیر سے مسلمان فوجیوں کی ضرورت تھی اور ان فوجیوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ
سلطنت عثمانیہ اور خلیفہ کے خلاف جارحیت میں انگریز سرکار کا ساتھ کیسے دیا جائے۔چنانچہ ایک ’’تاریخی‘‘ فتوی لیا گیا کہ عثمانی ترکوں کے پاس مقامات مقدسہ کا نظم و نسق سنبھالنے کا کوئی استحقاق نہیں اور یہ استحقاق تو اصل میں شریف مکہ کا ہے۔
تاریخ ایک پورا عبرت کدہ ہے۔ القدس میں
عثمانی ترکوں کو شکست دے کر برطانوی لشکر گھسا تو اس کے اولین دستوں میں ہندوستان کے مسلمان بھی شامل تھے۔ اسی ہندوستان میں پھر تحریک خلافت چلائی جاتی رہی۔عربوں نے عرب مزاحمت کے پرچم تلے ترکوں سے بغاوت کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ القدس برطانیہ کے پاس چلا گیا، وہی عرب بغاوت کا پرچم تھام
کر آج فلسطینی اسی آزادی کو تلاش کر رہے ہیں جو اسی پرچم تلے گنوائی گئی تھی اور سلطان ٹیپو کو کسی نے وہابی اور کسی نے شیعہ سمجھ کر مرہٹوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا ساتھ دیا لیکن اسی سلطان کے مزار پر لکھا ہے : ٹیپو بنام دینِ محمد شہید شد۔ سلطان ٹیپو امر ہوگیا اور سلطان کے شہید ہونے کے
بعد آج ان ’’سہولت کاروں‘‘ کی دھول کا بھی کوئی نشان نہیں ہے۔
مذہبی کارڈ نہ صرف کل استعمال ہوا بلکہ آج بھی ابلاغ کے میدان میں مسلم معاشروں کی فالٹ لائنز کا تذکرہ اہتمام سے کیا جاتا ہے۔یہی کام ٹیپو سلطان کے ساتھ بھی ہوا۔ حالانکہ سلطان ٹیپو کسی بھی قسم کی فرقہ واریت سے بلند انسان تھا
اس کی کہانی تو بس اتنی سی تھی کہ ’’ٹیپو بنام دین محمد شہید شد‘‘۔ مسلمانوں کے مکاتیب فکر کی عصبیت تو کجا اس نے تو ہندوئوں کے ساتھ بھی کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا کہ وہ ایک حکمران کے طور پر سب کے لیے خیر تھا۔ سلطان کے دربار میں ہندوئوں کے پاس اہم مناصب تھے۔ سلطان کا وزیر خزانہ
کرشنا چاریا پورنیا ہندو تھا۔ یہی ہندو ریاست میسور کا پہلا دیوان یعنی ویر اعظم بھی تھا۔ سلطان کے خزانے سے 156 مندروں کی مالی مدد کی جاتی تھی۔
ٹیپو کے خزانے کے سونے اور چاندی کے سکوں کے نام مذہبی یک جہتی کا استعارہ تھے۔ سب سے قیمتی سکے کا نام سرکار دوجہاں ﷺ کی نسبت سے احمدی تھا۔
اس کے بعد قیمتی ترین سکہ صدیقی تھا جسے صدیق اکبر سے نسبت تھی۔ تیسرے سکے کا نام فاروقی تھا۔ ایک سکے کے نام عثمانی اور ایک کا نام حیدری تھا۔ ٹیپو کے خاص دستے کا نام اسد اللہی تھا۔ یہی ٹیپو سلطنت عثمانیہ کو لکھ بھیجتا ہے کہ فرات سے نجف تک نہر کھودیے اس کا خرچ ریاست میسور دے گی۔
یہ سفارت جب واپس میسور پہنچی تو ٹیپو دفن ہو چکا تھا۔ٹیپو بنام دین محمد شہید شد
لیکن جب تزویراتی ضرورت محسوس ہوئی تو اسی ٹیپو کے خلاف مذہبی بنیادوں پر پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔جہاں جو الزام سود مند ثابت ہو سکتا تھا، علاقہ اور لوگوں کے رجحانات دیکھ کر ٹیپو پر وہی الزام عائدکیا گیا
فرقہ وارانہ منافرت کا برصغیر میں یہ پہلا تزویراتی استعمال تھا۔ اس بیانیے میں لفظ ’’صوفی حیدر علی‘‘ کا استعمال بھی بڑا دلچسپ ہے۔ یہ گویا تاثر دیا جا رہا تھا کہ سلطان حیدر علی کی فکر سے اسکے بیٹے نے بغاوت کر رکھی ہے اور حیدر علی کے وفاداروں کو اب اس کے بیٹے کا ساتھ نہیں دینا چاہیے
میسور کی فتح کے بعد انگریزوں نے سلطان کے کتب خانے کا معائنہ کیا تو وہاں سے صوفی ازم پر 115 کتابیں نکلیں۔ چارلس سٹیورٹ نے سلطان کے کتب خانے کی مکمل فہرست شائع کر دی جو ‘A descriptive catalog of the oriental library of the late Tippoo Sultan کے نام سے پاکستان
آرکائیوز میں بھی محفوظ ہے۔ لیکن اب کسی نے کوئی اعلان نہ کیا کہ صوفی حیدر علی کے وہابی بیٹے کی لائبریری سے صوفی ازم کی 115 کتابیں نکلی ہیں۔ اب کی بار ایک نیا اعلان فرمایا جانے لگا۔
تخت پر اب کرشنا راجا بیٹھا تھا اور سلطنت میسور کو غدار پورنیا چلا رہا تھا اور اس کی سر پرستی ایسٹ
انڈیا کمپنی کر رہی تھی۔ ادھر نظام آف حیدر آباد کی ریاست میں عام آدمی دل گرفتہ تھا کہ سلطان ٹیپو شہید ہو گیا اور ہماری فوج نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ مل کر اسے شہید کیا۔ چنانچہ اب نیا اعلان اور نیا پراپیگنڈا کیا جانے لگا۔
خطبوں میں، مساجد میں بتایا جانے لگا کہ سلطان ٹیپو تو محض
اقتدار کے لیے اسلام کا نام استعمال کر رہا تھا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے کتب خانے میں شاعری کی 190 کتابیں نکلیں جب کہ قرآن و حدیث کی کتابیں اس سے آدھی بھی نہیں تھیں۔ اس دور کے ریاست حیدر آباد کے ’’علمائے کرام‘‘ اور ’’مفتیان عظام‘‘ نے جو مضامین باندھے (یا بندھوائے گئے) کبھی
ان کا کوئی مجموعہ پاکستان میں شائع ہو جائے تو چودہ نہ سہی آٹھ دس طبق ضرور روشن ہو جائیں گے کہ تاریخ میں مذہبی منافرت کا تزویراتی استعمال کیسے کیسے کیا جاتا رہا۔
کاش کوئی لکھنے والا ٹیپو سلطان پر لکھے جیسے اس پر لکھے جانے کا حق ہے۔ ٹیپو بنام دینِ محمد شہید شد۔ ⚔️
سن 40 میں جو قرارداد پاس ہوئی تھی اس میں ریاستوں کا ذکر تھا ایک ملک کا نہیں۔ بعد میں ایک ملک کا مطالبہ پیش کیا گیا جو اس وقت بھی کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا اور علیحدگی کا بیج اسی وقت پڑ گیا۔
اس وقت کوئی حقوق وغیرہ کا مسئلہ نہیں تھا!
پاکستان بنتے ہی
مولانا بھاشانی (کمیونسٹ سرخہ) نے جو کہ ایک بڑا بنگالی لیڈر تھا پاکستان سے الگ ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ شیخ مجیب اسی کا شاگرد اور منشی تھا۔ اس وقت بھی کوئی حقوق کا مسئلہ نہیں تھا۔
سن 66 میں اگرتلہ سازش پکڑی گئی جس میں شیخ مجیب انڈین خفیہ ایجنسی را کے ساتھ مل کر
پاکستان کو توڑنے کی سازش میں مصروف تھا۔ جنرل ایوب نے شیخ مجیب کو غداری کے جرم میں سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
بھٹو نے جو جمہوریت کے ذریعے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر رہا تھا جنرل ایوب خان کے اس فیصلے کے خلاف شیخ مجیب کے حق میں ملک گیر مہم چلائی۔ عوام کو ایوب خان کے خلاف اکسایا کہ
" ایک دن خواجہ شاہد حسین،جو سب ذیلی محکموں کے سب سے بڑے افسر تھے یعنی سیکرٹری وزارتِ سیاحت و ثقافت،اسلام آباد سے ان کا فون آیا۔کہنے لگے۔یار عکسی; مائی جنداں کی حویلی کی چھت ٹپک رہی ہے۔ پانی سم کر رنجیت سنگھ کے دربار کی اہم ترین پینٹنگ کو خراب کر رہا ہے
یہ بہت ہی قیمتی اثاثہ ہے۔اس کی قیمت کئی لاکھ پونڈ ہے۔اس کا ستیاناس ہو جائے گا۔یار تم وہاں ہو فورا اس پینٹنگ کو بچانے کاانتظآم کرو۔
.
میں نے اسی وقت ڈایئرکیٹر نارتھ جس کا دفتر عین سامنے تھا فون کیا اور درخواست کی کہ مجھے ایک سیڑھی اور ایک میسن فراہم کیا جائے تاکہ میں حویلی کی
چھت پر جا کر ضروری مرمت کرا سکوں۔سکوں ۔ڈائریکٹر صاحب نے سب سن کر کہا۔جی ہاں جی ہاں ضرور،لیکن میسن کیلٸے آپ ڈاٸریکٹر ساوُتھ سے رابطہ کریں۔ , البتہ سیڑھی کیلٸےآپ یہ درخواست فائل پر لکھ کر مجھے بھیج دیں۔۔
.
میں نے فوری حکم کی تعمیل کی۔ایک درخواست لکھی اس کو فائل میں لگایااور خاص
بہاولپور سے 78 کلومیٹر پرے چنی گوٹھ قصبے میں ایک صاحب نے ایک شخص کو پکڑنے کا دعویٰ کیا جو قرآنِ پاک کے اوراق جلا رہا تھا۔
ان صاحب اور دیگر ساتھیوں نے اس شخص کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے اسے لاک اپ میں بند کر کے پرچہ کاٹ دیا۔ یہ خبر پھیلتی چلی گئی۔
مقامی مساجد سے ’چلو چلو تھانے چلو‘ کے اعلانات ہونے لگے۔ لگ بھگ دو ہزار لوگوں نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا جہاں 10 سپاہی موجود تھے۔
’مجرم کو حوالے کرو‘ کے نعرے لگنےلگے۔ پولیس نے تھوڑی بہت مزاحمت کی اور اس میں نو سپاہی زخمی ہوئے
مجمع اس شخص کو حوالات توڑ کےلےگیا اور مرکزی چوک میں بہیمانہ تشدد کے بعد زندہ جلادیا بعد میں معلوم ہوا کہ اس شخص کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اور مجمع میں شامل بہت سے لوگ یہ بات جانتےتھے
بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ ، اے - ایم - ایچ مصطفیٰ کمال نے بنگلہ دیش کا 5,230 ارب ٹکے کا بجٹ 2021 پیش کیا.
ایک ڈالر = 160 پاکستانی روپے
ایک ڈالر = 85 بنگلہ دیشی ٹکہ
پاکستان کا بجٹ 7,130 ارب روپے...
مطلب، بنگلہ دیش، ہم سے چھوٹا مُلک، کرنسی مضبوط،
اور
اس کا بجٹ ہم "امیروں" سے ٪26 ذیادہ
اچھا.
اب پاکستان کے بجٹ میں 4,000 ارب روپے کا لیا گیا بیرونی قرضہ بھی شامل ہے
جبکہ
بنگلہ دیش کے بجٹ میں
کوئی بیرونی قرضہ
بھی شامل نہیں.
پاکستان کے ریزروز.. 13 ارب ڈالرز..
بنگلہ دیش کے 43 ارب ڈالرز..
یاد رہے، کہ
ہمارے پاس دریا... پہاڑ..
جن پر
بند باندھ کر، ڈیم بنا کر ہم
سستی بجلی
پیدا کر سکتے تھے.
جبکہ
بنگالیوں کے پاس
ایسا کچھ نہیں تھا.
ہمارے پاس زراعت.
مگر
بنگالیوں کے پاس
نا ایسی زراعت،
نا نہری نظام
اور
آئے روز کی سیلاب کاریاں.
مگر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہم سے تین گُنا.
اور
وہ بھی
بنا کپاس پیدا کیے..
ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش کے لئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا
یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر حیران اور پریشان ، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا
ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ تقریبا" روزانہ بیٹھنے لگا۔ اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔ "میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے ، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔" اور وہ
بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے۔
ایک دن جب "ریٹائرڈ" افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی -
اس نے وضاحت کی:-
"ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی