سب سے پہلے تو میں اپنا تعارف کروا دوں۔ میرا نام چوہدری امیر علی ورک ہے۔ فیصل آباد شہر میں رہائش ہے۔ پچھلے 32 سال سے میاں نواز شریف کا کارکن، دوست اور عہدیدار ہوں۔ چھوٹا بھائ فیصل آباد کا ناظم رہا ہے۔ بیوی فوت ہو چکی ہے۔ اکیلا گھر میں بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔
دونوں بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے اور ساتھ رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں جمعہ\ ہفتہ کی قیامت رات کی طرف۔
میں،بڑا بیٹا، بہو اور ان کے دو بچے بدھ کی رات نتھیا گلی پونہچ گئے۔ جمعرات اور جمعہ کو بچوں نے خوب انجواے کیا۔ ارادہ تھا کے جمعہ کے دن رش بڑھ جائے گا تو ہم جمعہ شام کو واپس اسلام آباد
اپنی بہن کے گھر چلے جائیں گے۔ 2 بجے چیک آوٹ کیا اور واپسی کی تیاری شروع کی۔ ہوٹل سے نکلے اور تھوڑی دور جا کر ایک گراونڈ آتا ہے جس میں سینکڑوں بچے، مرد اور خواتین برف میں انجوائے کر رہے تھے۔ اقرا اور حمزہ دونوں نے شور مچایا کے کھیلنا ہے برف میں۔ حالانکہ دل میں یہی تھا کہ جلدی
نکلیں مگر بچوں کے دمکتے چہرے دیکھ کر بیٹے کو کہا بچوں کو کھیلنے دو۔ بس اسی فیصلے نے زندگی کی بھیانک رات دکھائ۔ بیٹا اور بہو بھی بچوں کے ساتھ انجوائے کرنے لگے۔ برف تیزی سے گرنا شروع ہو چکی تھی۔ مغرب ہونے لگی تو میں کہا اب نکلو۔ باڑیاں سے آگے کلڈنہ سے تھوڑا پہلے پونہچے تو گاڑیاں
سست ہو گئیں۔ اس وقت اندھیرا ہو چکا تھا اور برف تیز ہو چکی تھی۔ اب میں پریشان ہو رہا تھا۔ بیٹا کہہ رہا تھا ابو پریشان نہ ہوں نکل جائیں گے۔ اس وقت سوزوکیوں والے اور مزدے والے جاہلوں کی طرح لائینیں توڑ کے آگے رستہ بلاک کر رہے تھے۔ اچانک شدید قسم ک برف کا طوفان شروع ہو گیا اور گاڑیاں
بلکل رک گئیں۔رات 12 بجے ہماری گاڑی پہ تقریبا 3 فٹ برف پڑچکی تھی۔ بچوں کو بھوک لگی تھی۔ اچانک پیچھے سے کچھ آوازیں آئیں تو بیٹا اترا تو 5, 6 لوکل پراڈو سے پٹرول کا کین اتارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ روکنے پہ بیٹے کو چھتری کی نوکیں ماریں اور زبردستی اتار کر لے گئے۔ پوری رات ایک بھیانک
قیامت کی طرح گذری۔ عورتوں بچوں کے چیخنے کی آوازیں اتنی خوفناک تھیں کی کلیجہ پھٹتا تھا۔ ,صبح سات بجے بچوں کو 800, 800 روپے کی دو روٹیاں اور ہم سب نے 1200 فی کپ چائے کے حساب سے ناشتہ کیا۔ ابھی بھی طوفان جاری تھا اور اندھیرا تھا۔ تقریبا 9 بجے پٹرول ختم ہو گیا۔ بچے ٹھٹھرنے لگے۔
انہی لوکل سے 3000 ہزار روپے لٹر پہ پٹرول لیا۔ اب لوگوں کے مرنے سے ایک خوف کی فضا بن چکی تھی۔ لوکلز ابھی بھی اسی طرح 1000 کا انڈہ دے رہے تھے۔ اچانک سامنے سے کچھ فوجی جوان آتے دکھائ دئیے۔ دیکھتے ہی 2018 کا الیکشن ذہن میں آ گیا جب میں نے ایک فوجی جوان کو تھپڑ مارا تھا تو
مجھے گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے اور ایم۔پی۔او کے تحت 2 ہفتے حوالات میں گذارےپڑے تھے۔ مگر اس وقت وہ فرشتے لگ رہے تھے۔ آتے ہی انہوں نے بسکٹ اور پانی دیا۔ تھوڑی دیر بعد پراٹھا اور چائے دی۔ ایک جوان جس کی عمر بمشکل 20 سال ہو گی بھاگ بھاک کر ہر گاڑی کے پاس جا رہا تھا۔
اس پے مجھے بہت پیار آ رہا تھا۔ انہوں نے قریب ایک مسجد۔ایک سکول۔ ایک مدرسہ اور ایک خالی پولٹری شیڈ میں سینکڑوں لوگوں کو شفٹ کیا۔ مٹی تیل کے چولہے، لکڑیاں، کریٹوں کی پھٹیاں جلا کر ماحول گرم کیا اور کھانے کی چیزیں دینے لگے۔افسر، میجر ایک کرنل خود اپنے ہاتھوں میں بوڑھوں کو اٹھا کر
اندر لا رہے تھے بوڑھے مرد اور عورتیں بلا بلا کر ان کے ماتھے چوم رہے تھے اور میں، میرا بیٹا اور بہو ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے کہ ان کو پچھلے 5 سال سے گالیاں دے رہے تھے اور ہر محفل میں زلیل کر رہے تھے۔ رات کو سینکڑوں کمبل اور رضائیں آ گئیں۔پتہ نہیں اس خلائ مخلوق کہ پاس
ہر چیز کا حل کیسے موجود ہوتا ہے۔ اور اگلے دن اتوار کو ہم نکلے اور رات تک اسلام آباد پوہنچ گئے۔ اس وقت رات کے 2 بجے ہیں سب سے زندہ بچنے کی مبارکیں لے کر بہن کہ گھر بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ نیند کوسوں دور ہے۔ میں حلفا" کہتا ہوں کی اگر فوجی نہ آتے تو اموات تقریبا" 1000 سے ہوتیں۔
میری جان اور میرا ووٹ آج بھی میاں صاحب کی امانت ہے۔ مگر میں خدا کو گواھ بنا کہ کہتا ہوں کہ آج کہ بعد فوج کے خلاف میرے دل میں رتی برابر بھی گلہ نہیں اور میں، میری فیملی فوج کہ شکر گذار ہیں جنہوں نے انسانیت کو ایک بڑی سانحے سے بچایا۔
میری تمام لیگیوں سے اور پورے پاکستان سے گذارش ہے کہ پاک فوج کی عزت اور قدر کریں۔
پاک فوج زندہ باد #قلمکار
🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
مائیکرو ویو اوون کی صنعت کا خاتمہ، سبزیوں کا استعمال.... دیسی دنیا کی طرف واپسی......
۔
جاپانی حکومت نے اس سال کے اختتام سے پہلے پہلے ملک بھر میں مائیکرو ویو اوون کو تلف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس خاتمہ کی وجہ: ہیروشیما یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے تحقیق کی اور دریافت کیا کہ
گزشتہ بیس سال میں مائیکروویو اون سے نکلنے والی ریڈیائی لہروں نے اس سے زیادہ نقصان پہنچایا جتنا ستمبر 1945 میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے امریکی ایٹم بموں نے نقصان پہنچایا تھا۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ مائیکرو ویو اوون میں گرم کی گئی خوراک بہت زیادہ ارتعاش اور
تابکاری کی حامل ہوتی ہے۔
”جاپان میں مائیکرو ویو اوون کی تمام فیکٹریاں بند کی جا رہی ہیں“
جنوبی کوریا نے مائیکروویو اوون کے تمام کارخانے2022 اور چین نے 2023 تک بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کاشیرہ کینسر سینٹر میں کینسر پر منعقدہ کانفرنس میں تجویز کیا گیا ہے کہ
1۔ ریفائن کیا گیا تیل
*میں نے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا کہ جو لوگ اس موسم میں مری گئے، انہیں جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔۔۔۔ میرا ان سے سوال ہے کہ پھر کب جانا چاہیے تھا؟*
مری میرا عشق ہے، مجھے اس کی سڑکوں پر گاڑی ڈرائیو کرنا رومانوی لگتا ہے مجھے نئی بننے والی ایکسپریس وے کے بجائے کمپنی باغ اور
چھرا پانی سے ہوتے ہوئے کلڈانہ اور پھر جی پی او چوک تک جانا ہمیشہ سے پسند ہے، میرا دل کرتا ہے کہ میں جب بھی مری جاؤں تو نتھیا گلی کی طرف نکل جاؤں، سڑک کے کنارے پکنک پوائنٹس پر بندروں کے ساتھ کھیلنا فطرت کے قریب تر لے جاتا ہے اور پھر نتھیا گلی سے ایبٹ آباد کی ڈرائیو بھی مسحور کن ہے
برف باری ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے اور جب بھی برف پڑنے لگے تو دل ملکہ کوہسار کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔
ایک عام آدمی کو اطلاع ملتی ہے کہ مری میں برف باری ہو رہی ہے تو وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ پروگرام بناتا ہے، اسے کس طرح علم ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ ہزاروں یا لاکھوں دوسرے لوگ بھی یہی
مغرب کا وقت قریب تھا میں کرکٹ کھیل کر گھر پہنچا اور امی ابو کو سلام کیا۔ امی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے بچپن میں مجھ سے کوئی نقصان ھونے پر دیکھا کرتی تھیں۔ مجھے کچھ گڑ بڑ لگی البتہ ابا جی نے بڑی خوش دلی سے جواب دیا..
ہیلمٹ اور بیٹ رکھا ہی تھا کہ ابا نے کہا،
"بچے چلو کھیتوں کا چکر لگاتے ہیں۔"
مجھے مزید حیرانی ہوئی، یہ علامات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں....
میں نے کہا "ٹھیک ہے پر پہلے ذرا نہا لوں" تو ابا نے کہا "نہیں واپس آکر نہا لینا۔"
مجھے انہونی کا احساس ہونے لگا پر میں ابا جی کے ساتھ چل پڑا۔ خاموشی سے سفر کٹ رہا تھا، راستے میں آنے
جانے والوں سے ابا جی بڑی خوش دلی سے سلام کلام کر رہے تھے۔
پھر پکی سڑک سے کچے راستے کی طرف مڑ گئے، میں بھی ساتھ ساتھ تھا کہ ایک ڈھابے کے ساتھ ایک کتا بیٹھا دیکھ کر ابا جی بولے، "یار تمہارا کتا کدھر ہے ؟؟؟" میں نے کہا "ابا جی وہ اپنے دوست کو دے دیا ہے، اسے اچھا لگتا تھا۔" تو
*پاک فوج کے ریسکیو آپریشن پر چند اعتراضات کا جواب*
" *فوج نے ریسکیو کیا تو وہ اس کے الگ سے پیسے بھی تو لیتی ہے۔* "
جی بہت زیادہ پیسے لیتی ہے۔ ایک تو سپاہیوں کے کھانے کا خرچہ لیتی ہے کیونکہ ایسے آپریشنز میں وہ اپنی میس سے دور ہوتے ہیں۔ اس لیے جب وہ پیسے خرچ کر کے
کھانا کھائیں تو ان کو ادائیگی کی جاسکے۔ یہ فی کس محض چند سو روپے ہوتے ہیں۔
دوسرا فوج گاڑیوں کے پٹرول کا خرچہ لیتی ہے۔ ضلعے کا ڈی سی استعمال شدہ پٹرول کا بل منظور کرتا ہے۔ وہ پیسے بھی براہ راست کیش کی شکل میں نہیں ملتے ایک محکمانہ اکاونٹ سے دوسرے اکاونٹ میں منتقل ہوتے ہیں۔
جس کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ قانون ہے کہ انٹرنل سیکیورٹی اور سول معاملات پر دفاعی بجٹ خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی فوجی افسر ایسا کرے تو یہ جرم ہوتا ہے۔ لہذا جب فوج کو آرٹیکل 245 کے تحت طلب کیا جاتا ہے تو کھانے اور پیٹرول کا خرچہ سول
پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں
آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں
بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے پورے یورپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ،
ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں !
آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے
اللہ کی سنت کسی کیلئے نہیں بدلتی اسکا
کوئی رشتہ دار نہیں نہ اس نے کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا جو محنت کریگا تو وہ کامیاب ہوگا عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو' ناکام رہے گا۔