*میں نے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا کہ جو لوگ اس موسم میں مری گئے، انہیں جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔۔۔۔ میرا ان سے سوال ہے کہ پھر کب جانا چاہیے تھا؟*
مری میرا عشق ہے، مجھے اس کی سڑکوں پر گاڑی ڈرائیو کرنا رومانوی لگتا ہے مجھے نئی بننے والی ایکسپریس وے کے بجائے کمپنی باغ اور
چھرا پانی سے ہوتے ہوئے کلڈانہ اور پھر جی پی او چوک تک جانا ہمیشہ سے پسند ہے، میرا دل کرتا ہے کہ میں جب بھی مری جاؤں تو نتھیا گلی کی طرف نکل جاؤں، سڑک کے کنارے پکنک پوائنٹس پر بندروں کے ساتھ کھیلنا فطرت کے قریب تر لے جاتا ہے اور پھر نتھیا گلی سے ایبٹ آباد کی ڈرائیو بھی مسحور کن ہے
برف باری ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے اور جب بھی برف پڑنے لگے تو دل ملکہ کوہسار کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔
ایک عام آدمی کو اطلاع ملتی ہے کہ مری میں برف باری ہو رہی ہے تو وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ پروگرام بناتا ہے، اسے کس طرح علم ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ ہزاروں یا لاکھوں دوسرے لوگ بھی یہی
پروگرام بنا رہے ہیں، وہ کیسے جان سکتا ہے کہ جب وہ مری کے قریب پہنچے گا تو وہاں حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے اس کی گاڑی ٹریفک میں پھنس جائے گی، اس کے پاس یہ جاننے کا کیا طریق کار ہے کہ اس مرتبہ برف باری معمول سے زیادہ ہو گی اور مری کی انتظامیہ سیاحوں سے بھر پور
ٹیکس لینے کے باوجود نہ سڑکیں صاف کرنے کی اہل ہوگی اور نہ ہی ٹریفک کو بحال کرنے کی، اس کے سامنے وفاقی وزراء کے ٹویٹس پڑے ہوں گے جن میں وہ بغلیں بجا رہے ہوں گے اس مرتبہ ایک لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوگئی ہیں اور انہوں نے منہ میں باجے پکڑے ہوں گے جن سے صدائیں نکل رہی ہوں گی ،
دیکھو دیکھو، عمران خان کے دور میں لوگوں نے کتنا کمانا شروع کر دیا ہے کہ سب کے سب مری جانے لگے ہیں، وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ غربت اور مہنگائی ہے وہ سب جھوٹ بولتے ہیں، بکواس کرتے ہیں۔
مجھے حکمرانوں سے کہنا ہے کہ اگر مجھے ہی یہ علم رکھنا ہے کہ مری میں برف باری کتنی ہوگی،
مجھے ہی برف باری میں پھنسنے کے بعد نکلنے کے انتظامات پورے رکھنے ہیں، وہاں کی ٹریفک کو بھی میں نے ہی کنٹرول کرنا ہے، وہاں پھنس جانے والوں نے اپنی مدد بھی خود ہی کرنی ہے تو ضلعے اور تحصیل کی پوری انتظامیہ کیا صرف اس لئے وہاں براجمان ہے کہ جب جج، جرنیل، بیورو کریٹ، وزیر اور
اشرافیہ کی دوسری نسلیں وہاں جائیں تو وہ ہٹو بچو کی صدائیں لگائیں، ان کی گاڑیوں کے لئے مری کی مال روڈ بھی کھول دیں، مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اموات اس مرتبہ ہوئی ہیں مگر سانحہ ہر مرتبہ ہی ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے، آپ کسی بھی جانب سے جب گلیات میں داخل ہونے لگتے ہیں تو آپ سے
پچاس روپے اضافی ٹیکس بھی لے لیا جاتا ہے اور اگر انتظامات نہیں کرسکتے تو پھر یہ ٹیکس کہاں جاتا ہے؟
میں ایک مرتبہ لاہور میں کینٹ سے ائیرپورٹ جاتے ہوئے مشہورومعروف شادی ہالوں کے اتوار بازار کے سامنے آرمی میوزیم میں اپنی فیملی کے ساتھ گیا تو مجھے گارڈز نے کہا کہ آپ اندر نہیں جاسکتے
میں نے ان سے کہا کہ ابھی میوزیم کے کلوز ہونے میں دو گھنٹے کا وقت باقی ہے اور ہم اس وقت میں آسانی سے بچوں کو میوزیم دکھا سکتے ہیں، ان کا جواب تھا کہ جتنے لوگ ایک دن میں وزٹ کر سکتے ہیں انکی تعداد پوری ہوچکی ہے لہٰذا آپ کل آئیں۔ مجھے یہ واقعہ مری کے سانحے کےبارے میں پڑھتےہوئےیادآیا
کیا یہ آسان کام نہیں کہ ہر برس ٹریفک بلاک اور افراتفری کی خبریں آنے کے بجائے ایک مرتبہ سائنٹیفک اسٹڈی کر لی جائے کہ مری کے پہاڑ زیادہ سے زیادہ کتنی گاڑیوں کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں بالخصوص مری کے مال روڈ اور ملحقہ علاقوں میں کتنی گاڑیاں جا سکتی ہیں، اسی طرح بھوربن اور نتھیا گلی
کے بارے میں بھی تحقیق کی جا سکتی ہے، مری جانے کیلئے تحصیل انتظامیہ کی کسی ویب سائیٹ کے ذریعے ٹوکن حاصل کیا جا سکتا ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ کمرشل گاڑیوں کے لئے بھی شیڈول ہو سکتا ہے
یہ بات طے شدہ ہے کہ جب بھی برف باری ہو گی تو ملک بھر سے لوگ مری کا رخ کرینگے، برف باری کتنی ہوسکتی ہے
اور اس موقعے پر سڑکیں کھلی رکھنے کے کیا انتظامات ہیں، اس بارے ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی تیاری کی میٹنگ ہونی چاہئے اور اس کی تفصیلات میڈیا پر بھی جاری ہونی چاہئیں، تھوڑی سے مینجمنٹ سی بہت بڑی بڑی مشکلات سے بچا جا سکتا ہے، میں حیران ہوں کہ جب یہ لوگ برف باری اور راستے بند ہونے کیوجہ سے
گاڑیوں میں پھنسے ہوں گے تو یقینی طور پر انہوں نے اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے ساتھ رابطے کی بھی کوشش کی ہوگی، کیا مری کی انتظامیہ نے سڑکوں پر کسی قسم کی ہیلپ لائن کے بورڈ لگا رکھے ہیں، مجھے تو یہ کہیں نظر نہیں آئے، کیا مری کی انتظامیہ جب مری میں داخل ہونے والی ہر گاڑی سے
ٹیکس لیتی ہے تو اس ٹکٹ پر یہ بھی لکھتی ہے کہ وہ اس ٹیکس کے بدلے میں انہیں کیا سہولیا ت دے رہی ہے یا اسے محض جگا ٹیکس کے طور پر وصول کیا جاتا ہے، کیا کوئی بتاتا ہے کہ جب آپ برفباری میں پھنس جائیں تو آپ نے ہیٹر لگا کر گاڑی میں سونا ہرگز نہیں ہے۔
جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مری میں
مرنے والے اپنی موت کے خود ذمے دار ہیں وہ پرلے درجے کے بے شرم اور ظالم ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو موٹر وے پر ریپ کی ذمہ داری عورت پر ڈالتے ہیں کہ وہ وہاں گئی ہی کیوں؟ ان سے کوئی بعید نہیں کہ یہ سانحہ اے پی ایس کی ذمہ داری بھی بچوں پر ہی ڈال دیں کہ اگر وہ اس روز چھٹی کر لیتے تو نہ مرتے،
یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت میں نہیں تھے تو حکمران برے اور کرپٹ تھے اور جب حکمران بنے تو عوام برے اور کرپٹ ہو گئے ۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مری میں مرنے والوں کے قاتل حکمران اور متعلقہ افسران ہیں، مجھے پورا یقین ہے کہ وہاں کوئی تگڑا وزیر مشیر پھنس جاتا تو وہ موٹا سا
ڈی ایس پی جو سانحے میں اپنی منحوس تصویر کے ساتھ پبلسٹی کروا رہا ہے ،جس کے ٹریفک اہلکاروں کا کام ہی یہ ہے کہ جھیکا گلی اور گلڈانہ میں آنے والی ہر کمرشل گاڑی سے کمائی کی جائے، پیٹ کے بل گھسٹ کر بھی اس زمینی خدا تک پہنچتا،اس کے لئے راستے بناتا، وہاں کا اسسٹنٹ کمشنر ان کے لئے پانی،
چائے ، خوراک ہی نہ لے جاتا ان کے جوتے تک سیدھے کر رہا ہوتا مگر ان پھنسنے والوں میں کوئی اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا لہٰذا جب لوگ بیس، بائیس گھنٹوں تک صدائیں لگاتے اور مدد کا انتظار کرتے سسک سسک کر مر رہے تھے تو یہ سب موسم انجوائے کر رہے تھے، وہ لوگ جنہیں ملک کے نظم ونسق کی
ذمے داری ملی ہوئی ہے وہ ٹویٹس کر کے داد لے رہے تھے۔
*ہم نے مری ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو ہی اللہ کے سہارے پر چھوڑا ہوا ہے، یہ خود بخود چلتا جا رہا ہے*
میرا بھی سوال یہ ھی تھا کہ اگر روڈ بلاک 7 تاریخ کو صبع 11 بجے ھو گیا تھا پھر سارا دن rescue آپریشن کیوں نہیں کیا گیا ۔ اور
حالات جب بگڑ گے تو انتظامیہ کو ھوش آئی ۔
اب آہیستہ آہیستہ تمام حقاہیق سامنے آ رھے ھیں ۔
ادھر ساری قوم کو کاربن مونو آکساہیڈ اور ھوٹلوں ، انڈوں کے ریٹ کی بحث میں ڈال دیا گیا ھے !
فلسطین کے ایک سکول میں استانی نے بچوں سے ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعام کا وعدہ کیا کہ جو بھی فرسٹ آیا اس کو نئے جوتے ملیں گے ٹیسٹ ہوا سب نے یکساں نمبرات حاصل کیے اب ایک جوڑا سب کو دینا نا ممکن تھا اس لیے استانی نے کہا کہ چلیں قرعہ اندازی کرتے ہیں
جس کا بھی نام نکل آیا اس کو یہ نئے جوتے دیں گے اور قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کا کہا گیا۔
استانی نے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہوجائیں اور پھر سب کے سامنے ایک اٹھایا جوں ہی کھلا تو اس پر لکھا تھا
وفا عبد الکریم سب نے تالیاں بجائی وہ اشکبار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیوں کہ وہ پٹھے پرانے کپڑوں اور جوتے سے تنگ آگئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں لاچار تھی اس لیے جوتوں کا یہ انعام اس کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔
مائیکرو ویو اوون کی صنعت کا خاتمہ، سبزیوں کا استعمال.... دیسی دنیا کی طرف واپسی......
۔
جاپانی حکومت نے اس سال کے اختتام سے پہلے پہلے ملک بھر میں مائیکرو ویو اوون کو تلف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس خاتمہ کی وجہ: ہیروشیما یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے تحقیق کی اور دریافت کیا کہ
گزشتہ بیس سال میں مائیکروویو اون سے نکلنے والی ریڈیائی لہروں نے اس سے زیادہ نقصان پہنچایا جتنا ستمبر 1945 میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے امریکی ایٹم بموں نے نقصان پہنچایا تھا۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ مائیکرو ویو اوون میں گرم کی گئی خوراک بہت زیادہ ارتعاش اور
تابکاری کی حامل ہوتی ہے۔
”جاپان میں مائیکرو ویو اوون کی تمام فیکٹریاں بند کی جا رہی ہیں“
جنوبی کوریا نے مائیکروویو اوون کے تمام کارخانے2022 اور چین نے 2023 تک بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کاشیرہ کینسر سینٹر میں کینسر پر منعقدہ کانفرنس میں تجویز کیا گیا ہے کہ
1۔ ریفائن کیا گیا تیل
مغرب کا وقت قریب تھا میں کرکٹ کھیل کر گھر پہنچا اور امی ابو کو سلام کیا۔ امی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے بچپن میں مجھ سے کوئی نقصان ھونے پر دیکھا کرتی تھیں۔ مجھے کچھ گڑ بڑ لگی البتہ ابا جی نے بڑی خوش دلی سے جواب دیا..
ہیلمٹ اور بیٹ رکھا ہی تھا کہ ابا نے کہا،
"بچے چلو کھیتوں کا چکر لگاتے ہیں۔"
مجھے مزید حیرانی ہوئی، یہ علامات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں....
میں نے کہا "ٹھیک ہے پر پہلے ذرا نہا لوں" تو ابا نے کہا "نہیں واپس آکر نہا لینا۔"
مجھے انہونی کا احساس ہونے لگا پر میں ابا جی کے ساتھ چل پڑا۔ خاموشی سے سفر کٹ رہا تھا، راستے میں آنے
جانے والوں سے ابا جی بڑی خوش دلی سے سلام کلام کر رہے تھے۔
پھر پکی سڑک سے کچے راستے کی طرف مڑ گئے، میں بھی ساتھ ساتھ تھا کہ ایک ڈھابے کے ساتھ ایک کتا بیٹھا دیکھ کر ابا جی بولے، "یار تمہارا کتا کدھر ہے ؟؟؟" میں نے کہا "ابا جی وہ اپنے دوست کو دے دیا ہے، اسے اچھا لگتا تھا۔" تو
سب سے پہلے تو میں اپنا تعارف کروا دوں۔ میرا نام چوہدری امیر علی ورک ہے۔ فیصل آباد شہر میں رہائش ہے۔ پچھلے 32 سال سے میاں نواز شریف کا کارکن، دوست اور عہدیدار ہوں۔ چھوٹا بھائ فیصل آباد کا ناظم رہا ہے۔ بیوی فوت ہو چکی ہے۔ اکیلا گھر میں بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔
دونوں بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے اور ساتھ رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں جمعہ\ ہفتہ کی قیامت رات کی طرف۔
میں،بڑا بیٹا، بہو اور ان کے دو بچے بدھ کی رات نتھیا گلی پونہچ گئے۔ جمعرات اور جمعہ کو بچوں نے خوب انجواے کیا۔ ارادہ تھا کے جمعہ کے دن رش بڑھ جائے گا تو ہم جمعہ شام کو واپس اسلام آباد
اپنی بہن کے گھر چلے جائیں گے۔ 2 بجے چیک آوٹ کیا اور واپسی کی تیاری شروع کی۔ ہوٹل سے نکلے اور تھوڑی دور جا کر ایک گراونڈ آتا ہے جس میں سینکڑوں بچے، مرد اور خواتین برف میں انجوائے کر رہے تھے۔ اقرا اور حمزہ دونوں نے شور مچایا کے کھیلنا ہے برف میں۔ حالانکہ دل میں یہی تھا کہ جلدی
*پاک فوج کے ریسکیو آپریشن پر چند اعتراضات کا جواب*
" *فوج نے ریسکیو کیا تو وہ اس کے الگ سے پیسے بھی تو لیتی ہے۔* "
جی بہت زیادہ پیسے لیتی ہے۔ ایک تو سپاہیوں کے کھانے کا خرچہ لیتی ہے کیونکہ ایسے آپریشنز میں وہ اپنی میس سے دور ہوتے ہیں۔ اس لیے جب وہ پیسے خرچ کر کے
کھانا کھائیں تو ان کو ادائیگی کی جاسکے۔ یہ فی کس محض چند سو روپے ہوتے ہیں۔
دوسرا فوج گاڑیوں کے پٹرول کا خرچہ لیتی ہے۔ ضلعے کا ڈی سی استعمال شدہ پٹرول کا بل منظور کرتا ہے۔ وہ پیسے بھی براہ راست کیش کی شکل میں نہیں ملتے ایک محکمانہ اکاونٹ سے دوسرے اکاونٹ میں منتقل ہوتے ہیں۔
جس کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ قانون ہے کہ انٹرنل سیکیورٹی اور سول معاملات پر دفاعی بجٹ خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی فوجی افسر ایسا کرے تو یہ جرم ہوتا ہے۔ لہذا جب فوج کو آرٹیکل 245 کے تحت طلب کیا جاتا ہے تو کھانے اور پیٹرول کا خرچہ سول