مغرب کا وقت قریب تھا میں کرکٹ کھیل کر گھر پہنچا اور امی ابو کو سلام کیا۔ امی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے بچپن میں مجھ سے کوئی نقصان ھونے پر دیکھا کرتی تھیں۔ مجھے کچھ گڑ بڑ لگی البتہ ابا جی نے بڑی خوش دلی سے جواب دیا..
ہیلمٹ اور بیٹ رکھا ہی تھا کہ ابا نے کہا،
"بچے چلو کھیتوں کا چکر لگاتے ہیں۔"
مجھے مزید حیرانی ہوئی، یہ علامات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں....
میں نے کہا "ٹھیک ہے پر پہلے ذرا نہا لوں" تو ابا نے کہا "نہیں واپس آکر نہا لینا۔"
مجھے انہونی کا احساس ہونے لگا پر میں ابا جی کے ساتھ چل پڑا۔ خاموشی سے سفر کٹ رہا تھا، راستے میں آنے
جانے والوں سے ابا جی بڑی خوش دلی سے سلام کلام کر رہے تھے۔
پھر پکی سڑک سے کچے راستے کی طرف مڑ گئے، میں بھی ساتھ ساتھ تھا کہ ایک ڈھابے کے ساتھ ایک کتا بیٹھا دیکھ کر ابا جی بولے، "یار تمہارا کتا کدھر ہے ؟؟؟" میں نے کہا "ابا جی وہ اپنے دوست کو دے دیا ہے، اسے اچھا لگتا تھا۔" تو
ابا جی نے پوچھا "اب رکھو گے نیا کتا یا نہیں ؟؟" میں نے کہا "رکھوں گا اگر کوئی اچھا مل گیا۔۔۔" تو ابا بولے "اسے ہی اٹھا لو ہے تو کتا ہی"۔۔۔ میں ہنس دیا، "ابا جی یہ بے نسلا کتا ہے میں کیوں رکھوں؟؟؟"
ابا ہنس دیئے اور بولے، "کیا فرق ہے نسلے بے نسلے میں؟ وہ بھی بھونکے گا اور
یہ بھی بھونک لیتا ہے، شاید اسکی بھونک اچھی ہو۔۔۔ میں نے کہا کہ ابا جی بھونک تو نہیں دیکھنی بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے۔۔۔ اب دیکھیں یہ ٹھہرے گلی کے آوارہ کتے، ہر چیز میں منہ مارنے والے۔۔۔ اپنا کتا دیکھا۔۔! کبھی گھر کے اس حصے میں نہیں آیا، کبھی کسی برتن میں منہ نہیں مارا، کبھی
ایسا نہیں ہوا کوئی کھلا برتن پڑا ہو اور اس میں منہ مارا ہو، کسی کا لباس تک کبھی ناپاک نہیں کیا
ابا ہنس دیئے اور بولے "بیٹا کچھ باتیں کتوں اور انسانوں میں ایک جیسی ہوتی ہیں پر شرط ہے دونوں نسلی اور خاندانی ہوں۔ میں نے پوچھا "مثلا؟"ً تو ابا بولے "بیٹا وہ ہر برتن میں منہ نہیں مارتے
پھر بولے، "تمہیں یاد ہے؟؟ ایک دفعہ گاۓ کا دودھ نکال کر میں نے یوں ہی رکھ دیا تھا اور ایک آوارہ کتا باڑ پھلانگ کر اندر آگیا اور تمہارے والے کتے نے اسے مارا تھا۔۔۔" میں نے کہا "جی ابا۔۔۔" تو ابا بولے "بیٹا۔۔۔!!! ہمارے خاندان ، گلی ،محلے ، اور گاؤں کی لڑکیاں جو سکول کالج پڑھتی ہیں،
یہ سب کھلا برتن ہی ہیں۔ بیٹا اب یہ چناؤ تمہارا ہے کہ تم کیا بنو گے؟ گلی کا کوئی آوارہ کتا۔۔۔ یا اچھے خاندان کا با عزت لڑکا۔۔۔"
اور پھر اچانک مجھے یاد آیا کہ آج کالج سے واپسی پر میں نے ایک دوشیزہ پر جملہ کسا تھا اور سیٹی بھی ماری تھی۔۔۔
جس کے بعد ابا جی نے انسانوں والی پیار کی زبان میں میری کتے والی کر کے مجھے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔۔۔
(منقول) #قلمکار
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
فلسطین کے ایک سکول میں استانی نے بچوں سے ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعام کا وعدہ کیا کہ جو بھی فرسٹ آیا اس کو نئے جوتے ملیں گے ٹیسٹ ہوا سب نے یکساں نمبرات حاصل کیے اب ایک جوڑا سب کو دینا نا ممکن تھا اس لیے استانی نے کہا کہ چلیں قرعہ اندازی کرتے ہیں
جس کا بھی نام نکل آیا اس کو یہ نئے جوتے دیں گے اور قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کا کہا گیا۔
استانی نے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہوجائیں اور پھر سب کے سامنے ایک اٹھایا جوں ہی کھلا تو اس پر لکھا تھا
وفا عبد الکریم سب نے تالیاں بجائی وہ اشکبار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیوں کہ وہ پٹھے پرانے کپڑوں اور جوتے سے تنگ آگئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں لاچار تھی اس لیے جوتوں کا یہ انعام اس کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔
مائیکرو ویو اوون کی صنعت کا خاتمہ، سبزیوں کا استعمال.... دیسی دنیا کی طرف واپسی......
۔
جاپانی حکومت نے اس سال کے اختتام سے پہلے پہلے ملک بھر میں مائیکرو ویو اوون کو تلف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس خاتمہ کی وجہ: ہیروشیما یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے تحقیق کی اور دریافت کیا کہ
گزشتہ بیس سال میں مائیکروویو اون سے نکلنے والی ریڈیائی لہروں نے اس سے زیادہ نقصان پہنچایا جتنا ستمبر 1945 میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے امریکی ایٹم بموں نے نقصان پہنچایا تھا۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ مائیکرو ویو اوون میں گرم کی گئی خوراک بہت زیادہ ارتعاش اور
تابکاری کی حامل ہوتی ہے۔
”جاپان میں مائیکرو ویو اوون کی تمام فیکٹریاں بند کی جا رہی ہیں“
جنوبی کوریا نے مائیکروویو اوون کے تمام کارخانے2022 اور چین نے 2023 تک بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کاشیرہ کینسر سینٹر میں کینسر پر منعقدہ کانفرنس میں تجویز کیا گیا ہے کہ
1۔ ریفائن کیا گیا تیل
*میں نے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا کہ جو لوگ اس موسم میں مری گئے، انہیں جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔۔۔۔ میرا ان سے سوال ہے کہ پھر کب جانا چاہیے تھا؟*
مری میرا عشق ہے، مجھے اس کی سڑکوں پر گاڑی ڈرائیو کرنا رومانوی لگتا ہے مجھے نئی بننے والی ایکسپریس وے کے بجائے کمپنی باغ اور
چھرا پانی سے ہوتے ہوئے کلڈانہ اور پھر جی پی او چوک تک جانا ہمیشہ سے پسند ہے، میرا دل کرتا ہے کہ میں جب بھی مری جاؤں تو نتھیا گلی کی طرف نکل جاؤں، سڑک کے کنارے پکنک پوائنٹس پر بندروں کے ساتھ کھیلنا فطرت کے قریب تر لے جاتا ہے اور پھر نتھیا گلی سے ایبٹ آباد کی ڈرائیو بھی مسحور کن ہے
برف باری ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے اور جب بھی برف پڑنے لگے تو دل ملکہ کوہسار کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔
ایک عام آدمی کو اطلاع ملتی ہے کہ مری میں برف باری ہو رہی ہے تو وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ پروگرام بناتا ہے، اسے کس طرح علم ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ ہزاروں یا لاکھوں دوسرے لوگ بھی یہی
سب سے پہلے تو میں اپنا تعارف کروا دوں۔ میرا نام چوہدری امیر علی ورک ہے۔ فیصل آباد شہر میں رہائش ہے۔ پچھلے 32 سال سے میاں نواز شریف کا کارکن، دوست اور عہدیدار ہوں۔ چھوٹا بھائ فیصل آباد کا ناظم رہا ہے۔ بیوی فوت ہو چکی ہے۔ اکیلا گھر میں بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔
دونوں بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے اور ساتھ رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں جمعہ\ ہفتہ کی قیامت رات کی طرف۔
میں،بڑا بیٹا، بہو اور ان کے دو بچے بدھ کی رات نتھیا گلی پونہچ گئے۔ جمعرات اور جمعہ کو بچوں نے خوب انجواے کیا۔ ارادہ تھا کے جمعہ کے دن رش بڑھ جائے گا تو ہم جمعہ شام کو واپس اسلام آباد
اپنی بہن کے گھر چلے جائیں گے۔ 2 بجے چیک آوٹ کیا اور واپسی کی تیاری شروع کی۔ ہوٹل سے نکلے اور تھوڑی دور جا کر ایک گراونڈ آتا ہے جس میں سینکڑوں بچے، مرد اور خواتین برف میں انجوائے کر رہے تھے۔ اقرا اور حمزہ دونوں نے شور مچایا کے کھیلنا ہے برف میں۔ حالانکہ دل میں یہی تھا کہ جلدی
*پاک فوج کے ریسکیو آپریشن پر چند اعتراضات کا جواب*
" *فوج نے ریسکیو کیا تو وہ اس کے الگ سے پیسے بھی تو لیتی ہے۔* "
جی بہت زیادہ پیسے لیتی ہے۔ ایک تو سپاہیوں کے کھانے کا خرچہ لیتی ہے کیونکہ ایسے آپریشنز میں وہ اپنی میس سے دور ہوتے ہیں۔ اس لیے جب وہ پیسے خرچ کر کے
کھانا کھائیں تو ان کو ادائیگی کی جاسکے۔ یہ فی کس محض چند سو روپے ہوتے ہیں۔
دوسرا فوج گاڑیوں کے پٹرول کا خرچہ لیتی ہے۔ ضلعے کا ڈی سی استعمال شدہ پٹرول کا بل منظور کرتا ہے۔ وہ پیسے بھی براہ راست کیش کی شکل میں نہیں ملتے ایک محکمانہ اکاونٹ سے دوسرے اکاونٹ میں منتقل ہوتے ہیں۔
جس کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ قانون ہے کہ انٹرنل سیکیورٹی اور سول معاملات پر دفاعی بجٹ خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی فوجی افسر ایسا کرے تو یہ جرم ہوتا ہے۔ لہذا جب فوج کو آرٹیکل 245 کے تحت طلب کیا جاتا ہے تو کھانے اور پیٹرول کا خرچہ سول