جشن مفنگ (اسکردو/گلگت-بلتستان, پاکستان)
(Jashn-i-MaYfang)
بلتی گلگتی سب سےمقبول مگرایک گم گشتہ روایت
مفنگ/مےفنگ بلتستان کاصدیوں پراناایک خالصتاعلاقائی اور روایتی تہوار ھےجو ہر سال یخ بستہ موسم میں 21 دسمبرکو منایاجاتاھے۔
بلتی لوگ سال کی طویل ترین رات کےاختتام #festival #Baltistan
پر تین روزہ تہوار مناتے ہیں۔
یہ تہوار قبل از اسلام کا تہوار ھے۔ موءرخین اس کے منائے جانے کے بارے میں کئی روایات بتاتے ہیں۔
پہلی یہ کہ موسم سرماکی طویل ترین رات کے اختتام کو منانا اور نئے سال کا استقبال کرنا ھے۔دسمبر دراصل تبتی جنتری کےحساب سے (لوسار) نئے سال کا پہلا دن ھے۔
دوسری
یہ کہ مقامی لوگ اس تہوار کو کسی دیوتا کو خوش کرنے کی کوششوں کا حصّہ گردانتے ہیں۔
تیسری یہ کہ یہ تہوار ایک ظالم بادشاہ کی موت کا جشن منانے کے لیے منایا جاتا ھے۔
جبکہ چوتھی یہ ھے کہ اس تقریب سے مقامی لوگوں کو بدقسمتی سے بچنے میں مدد ملی۔
بعض مورخین اسے بودھ مذہب یا زرتشت پرستی کی
رسم لکھتے ہیں۔
مقامی بلتی زبان میں مفنگ کا مطلب رات کو آگ اور روشنی لہرانے کا تہوار ھے اسلیے لوگ لکڑی سے بنی مشعلیں تھامے اس دن رقص کرتے ہیں، جشن اور خوشی مناتے ہیں، دعوتیں کرتے ہیں، کھاتے پکاتے ہیں۔
تہوار تو تہوار ھوتا ھے پھر چاہے وہ رسمی ھو، روایتی ھو، تاریخی ھو یا علاقائی۔
مفنگ سے کسی کو کوئی مذہبی خطرہ نہیں ھے۔ آج بلتی گلگتی مکمل اسلامی خطہ ھے۔ خوشی کو اب چاہے جو بھی نام دے دیا جائے۔
ایلیفنٹاغار (ممبئی، بھارت)
(Elephanta Caves, 600 BC)
ممبئی میں ہاتھی کےجزیرہ پر واقع پتھر سے کٹا ھوا مندر ھے جسے ایلیفنٹا کےنام سے جاناجاتا ھے۔
اسی "ایلیفنٹاغار" کیوجہ سےممبئی ہاربر ایلیفنٹاجزیرہ کہلاتی ھےورنہ مقامی مراٹھی زبان میں اسے "گھراپوری" (Gharapuri) #ancient #Archaeology
کیاجاتا تھا۔
چھٹی صدی کا یہ مندر ہندو دیوتا شیو (Shiva) کیلیے وقف ھے۔ اس دور میں یہ طرز تعمیر قابل حیرت ھے۔
خیال یہ کیا جاتا ھے کہ ایلیفنٹا غاروں کو پانڈووں نے تعمیر کیا تھا، تاہم، کچھ اس کا سہرا شیو کے چیلے بھکت بناسورا کو بھی دیتے ہیں۔ مقامی روایت یہ بتاتی ھے کہ غاروں کی تعمیر
مردوں کے ہاتھوں سے نہیں ہوئی تھی۔
ایلیفنٹا غار میں شیو لنگا کے کم از کم دس الگ الگ نمائندگان ہیں۔ اس غار کی سرپرستی کرشنا راجا اول (550 - 575ء) ایک مشہور شیو عقیدت مند اور کالچوری سلطنت کے حکمران نے کی۔
غار کا اندرونی حصہ تقریباً 130×130 فٹ ھے۔ مندر کے چاروں اطراف سیڑھیوں کا ایک
میر چاکر رند (1465-1568)
میر چاکر رند ہمارا قومی ہیرو ھے اور بلوچوں کا گویا "کنگ آرتھر". وہ بےشمار کہانیوں کا عنوان رھا۔
یوں سمجھ لیں کہ وہ اپنی منشاءسے قبائلی بھینسوں کو پتھروں میں بدل سکتاھے اور یوں اپنےدشمنوں کےخلاف گھاٹیوں میں ناکہ بندی کر سکتاھے۔
میر چاکر کا #Baloch #History
نام اب بھی "چاکر کی ماڑی" یعنی چاکر کی تنگ (گھاٹی)" اور سیوستان کی بہت سی چوٹیوں اور دروں میں زندہ ھے۔ اسے پندرھویں صدی کے حاکم خراسان کا اتحادی بتایا جاتا ھے۔
تاریخ کی کتب میں حاکم خراسان اور میر چاکر رند دونوں مغل بادشاہ ھمایوں (1508-1556, کابل) کے دیرینہ مددگار رقم ہیں۔
آپ نے
مکران میں رندوں کی قیادت کی اور سبی کا قلعہ تعمیر کروایا جو مرکز سلطنت بنا۔
لیکن بعد میں میر چاکر رند پنجاب چلا آیا اور لاھور میں انتقال کر گیا۔ پاکستانی قوم ہی نہیں تاریخ بھی میر چاکر رند کو "عظیم " لکھتی ھے۔
فیض صاحب ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ
”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان
نسوار کی تاریخ
(#History of Snuff)
نسوار کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں پٹھان آتاھے کہ یہ پٹھانوں یاپختونوں کی ایجاد ھے جو کہ سراسر غلط ھے۔
نسوار درحقیقت گہرےسبز رنگ کی ایک طرح سے بغیر دھوئیں کے ہلکی نشہ آور چیز ھے۔
پشاور کےاطراف میں نسوار اس تمباکو کی بنتی ھے جو موضع پرگنہ یوسفزئی
میں پیدا ھوتا ھے۔ نسوار کی تاریخ کا نکتہ آغاز ہمیں پندرھویں صدی سےجڑتا نظر آتا ھے۔
نسوار کےاستعمال کا باقائدہ آغاز امریکہ اور کینیڈا سے ھوا۔ پندرھویں صدی کی یورپی کتب میں نسوار کا ذکر ملتا ھے کہ اسے 1493 سے96 کےدوران "ریمن پین" نامی راہب نے کولمبس کےسفر کے دوران ایجاد کیا اور یہی
سفر نسوار کو امریکہ لےآیا کیونکہ وہ امریکہ کی دریافت کےایام تھے۔
اسوقت یہ دواءوں میں استعمال ھوتی تھی اور طبقہ اشرافیہ میں مقبول تھی پھراسکے نشہ آور ھونےکی وجہ سےمغرب یں اسکے خلاف تحریک اٹھی اور اس پرپابندیاں بھی عائدکیں۔ اٹھارویں صدی میں اسےکینسر اورمہلک سردرد کاموجب ٹھہرایاگیا۔
سندھ میں ہباری حکومت____قران کا پہلا سندھی ترجمہ
(ء654-55 تا 1011-12ء)
عمربن عبدالعزیز، جو کہ ایک ہوشیار اورمدبر انسان تھا، نےخلیفہ ہارون کےقتل کےبعد منصورہ پر قبضہ کر لیا اورسندھ پر ہباری خاندان کی مستقل اور خودمختار حکومت کی بنیاد رکھی۔
ہباری خاندان کا اصل یہ ھے #Sindh #History
کہ یہ خاندان قریش کی ایک شاخ بنی اسد کا ایک شخص ہباربن اسود کابیٹا منذر بن زبیر ہبارسندھ آتا ھے اور یہیں کاھو جاتا ھے۔ عمر بن عبدالعزیز اسی کا پوتا تھا۔
عمر بن عبد العزیز نے کس سن تک سندھ پر حکومت کی؟
اس کا تعین نہ ھو سکا۔ لیکن اندازا اس نے 883ء تک وفات پائی۔ بعد از وفات اسکابیٹا
عبداللہ بن عزیز ہبار کا عہد حکمرانی کاآغاز ھوتا ھے۔
اسی کےزمانے میں ہندوراجا مہروک کیلئےسندھی زبان میں قصیدہ لکھوانےکا فریضہ ایک ذہین اور مدبر عراقی عالم ھو منصورہ کارہائشی تھااور یہاں کی زبان بخوبی جانتا تھا سونپا۔
قصیدے کی بےپناہ پسندیدگی کےباعث اسی عراقی عالم نے3سال راجہ مہروک
ٹیڑھا مینار، پیسا (Leaning Tower, Pisa) (1173-1370)
اٹلی کی پہچان
183 فیٹ بلند پیسا (اٹلی) کا جھکا ھوا ٹاور دنیاکی مشہور عمارتوں میں سےایک جس کی بلند سائیڈ 56.67 میٹر، چھوٹی سائیڈ 55.86 میٹر، 251سیڑھیاں اور وزن 14,500ٹن ھے۔
رومن طرزتعمیر پر مبنی پیسا کا ٹیڑھا مینار جس کے #History
آرکیٹیکٹ بونینو پسانو (Bonanno Pisano)، Gherardo di Gherardo, Giovanni Pisano, Giovanni di Simone تھے، دراصل ایک کیتھولک چرچ ھے۔
1173ء میں، پیسا میں کیتھیڈرل کمپلیکس کے لیے سفید سنگ مرمر کے گھنٹی ٹاور پر اسکی تعمیر شروع ھوئی، جو وسطی اٹلی کے شہر ٹسکنی (Tuscany) میں آرنو (Arno)
اور سرچیو (Serchio) دریاؤں کے درمیان واقع ھے۔
پانچ سال بعد پلان کے مطابق معماروں نے 8 منازل میں سے 3 تعمیر کر لیں تو ٹاور کی بنیاد مٹی، ریت اور گولوں کی وجہ سے نیچے کی زمین غیر مساوی ھونا شروع ھو گئی۔ نتیجتاً، ڈھانچہ بظاہر جنوب کی طرف جھکنا شروع ھو گیا۔ اس کے فوراً بعد، پیسا اور
کوکامحل (سیگوویا، سپین)
کوکا محل (Coca Castle)جسے مقامی طور پر کاسٹیلو ڈی کوکا کے نام سے جانا جاتا ھے، رومی شہنشاہ تھیوڈوسیئس (Theodosius, Roman emperor) کی جائےپیدائش والےقصبےمیں جنگلاتی زمینوں مگر ہموار میں واقع ھے۔
یہ شاندار کوکاکیسل 15ویں صدی میں سیویل کےایک طاقتور آرچ #Spain
بشپ الونسو ڈی فونسیکا (Bishop Alonso de Fonseca)
نے کیسٹیل (Historical Place, Castile) کے بادشاہ اینریک چہارم کے دور میں تعمیر کیا تھا۔
اسکی دوہری دیواریں 2.5 میٹر موٹی ہیں اور اس کے گرد ایک گہری خشک کھائی ھے۔
یہ اینٹوں کے فوجی فن تعمیر کا اعلیٰ ترین نمونہ سمجھا جاتا ھے جس میں
مدیجر فلیگری کام ھے۔ Mudejar عیسائیوں کے دور میں رہنے والے اسلامی کاریگروں کا طرز تعمیر ھے۔
یہ قلعہ الوا خاندان کی ملکیت ھے اور اب یہ جنگلات کے لیے تربیتی مرکز کے طور پر کام کرتا ھے۔
یہ قلعہ مغربی اور موریش فوجی فن تعمیر کا مرکب ھے جیساکہ اس کی سجاوٹ سے دیکھا جاسکتاھے اور اسی لیے