پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو جرمنی کے بنے اسی پستول سے سید اکبر نامی شخص نے قتل کیا تھا جو کہ افغانی تھا
2016 میں میڈیا میں جو امریکی دستاویزات سامنے آئی انکے مطابق لیاقت علی خان کو اس وقت کی امریکی حکومت نے افغان حکومت کی معاونت سے قتل کرایا تھا
امریکی دستاویزات کے مطابق پاکستان کی ایران کے ساتھ گہری دوستی تھی اور امریکہ ایران کے تیل کے چشموں پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا
جبکہ 1951 ءتک افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اس کے صدر ظاھر شاہ تھے انہی دنو ں امریکی صدر ہیری ٹرومین نے فون پر رابطہ کر کے
شہید ملت خان لیاقت علی خاں سے کہا کہ آپ اپنے تعلقات استعمال کر کے ایرانی تیل کا ٹھیکہ اور مینجمنٹ امریکا کو دلادیں بجائے کہ ایران یہ معاہدہ کسی مغربی ملک کے ساتھ کرے خان لیاقت علی خاں نے جواب دیا کہ میں اپنے تعلقات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا جس کے بعد خان لیاقت علی خاں کو
Marium nawaz gifted her Son junaid most expensive car on wedding. The Punjab excise and taxation department has registered the most expensive vehicle in the history of the province with a staggering price tag of Rs138 million.
The price of the Mercedes AMG G63 4.0-liter V-8 SUV is Rs13 crores and 19 lacs making it the most expensive registered vehicle in the province. The registration number of the super expensive ride is AEG-063.
The SUV vehicle is powered by a 4,000 cc dual-turbo V8 engine with a custom-designed interior and it has a capacity for five passengers. The powerhouse from the German automotive brand can hit zero to 60 in merely 4.5 seconds.
ماہرین نفسیات نے والدین کو اپنے بچوں کے راز افشا کرنے میں مدد کرنے کے چند طریقے وضع کیے ہیں
بچوں کا والدین میں سے کسی ایک کی جانب جھکاٶ طبعی و فطری طور پر ہوتا ہے
عموما اس حوالہ سے کٸی لوگ بچوں سے سوال کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ کو امی زیادہ اچھی لگتی ہیں یا ابو ؟
صراحتا بچے سے ایسا سوال کرنا قطعی طور پر مناسب نہیں
چاٸلڈ ساٸیکالوجسٹ نے 5 بالواسطہ طریقے بتلاٸے ہیں انہیں آزمائیں، کیونکہ وہ آپ کے بچے کے ساتھ نمٹنے کی کلید ہو سکتے ہیں۔
. 1- چڑیا کی کہانی 🐥
اپنے بچے کو باپ پرندے، ماں پرندے اور ان کے بیٹے، چھوٹے پرندے کی کہانی سنائیں،جو کہ
درخت کے اوپر گھونسلے میں ایک رات سوٸے ہوتے ہیں.. کہ اچانک تیز ہوا چلتی ہے اور گھونسلے سمیت سب نیچے گرجاتے ہیں
باپ پرندہ ایک درخت پر اڑ کر بیٹھ جاتا ہے اورماں پرندہ دوسرے درخت پر..
اب آپ اپنے بچے سے پوچھیں: کہ چھوٹا پرندہ کہاں اڑ گیا؟..
میں اس قوم کو جانتا ہوں
جہاں بڑا سمگلر ہمیشہ
حاجی صاحب"کہلاتا ہے۔
میں اک قوم کو جانتا ہوں
جہاں گھر کے ماتھے پہ 'ہذا من فضل ربی' لکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ
'خبردار مجھ سے مت پوچھنا یہ گھر کیسے بنایا'
میں اک قوم کو جانتا ہوں
جہاں مجرم کا دفاع استغاثہ کا وکیل کرتا ہے۔
میں اک قوم کو جانتا ہوں جہاں نمبر ایک ہونے کیلئے
نمبر 2 ہونا ضروری ہے۔
میں اک قوم کو جانتا ہوں
جو موروثیت کو جمہوریت گردانتی ہے۔
میں اک قوم کو جانتا ہوں
جہاں حق رائے دہی قیمے والے نان اور بریانی کے ڈبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
میں اک قوم کو جانتا ہوں
جہاں اربوں ہڑپ کر جانے والے
"ایک دھیلے کی کرپشن" نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں۔
میں اک قوم کو جانتا ہوں
جہاں راشی کے ماتھے پر محراب ہوتی ہے۔
ایک داڑھی والے منصب دار سے کسی نے کہا شرم نہیں آتی داڑھی رکھ کر کرپشن کرتے ہو؟
جواب ملا کہ داڑھی گلے تک جاکر ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے آگے پیٹ شروع ہو جاتا ہے
دھرتی کے سپوت -----دلا بھٹی کی مختصر تاریخ اور لوہڑی کا تہوار
رائے عبداللہ بھٹی عرف دلا بھٹی کوئی متنازعہ کردار نہیں تھا بلکہ پنجاب کا عظیم انقلابی سورما تھا جس نے اکبر بادشاہت کے خلاف علمِ بغاوت تھامے رکھا.
تفصیل یہ ہےکہ دریائے راوی اورچناب کے درمیانی علاقے کو
ساندل بار کہا جاتا ہے. یہ دلا بھٹی کے دادا ساندل بھٹی کے نام پر ہے. جب اکبر بادشاہ نے دینِ اکبری بذریعہ طاقت نافذ کرنے کی کوشش کی تو ساندل بھٹی نے بغاوت کر دی. جنگِ راوی برپا ہوئی اور بھٹیوں نے غیر روایتی ہتھیاروں کے ساتھ جنگ لڑی اور جیتی. اس پر اکبر بادشاہ نے ساندل بھٹی کو لاہور
میں مذاکرات کے لئیے بلایا اور دھوکے سے قتل کر دیا اور اس کے ساتھیوں کو کابل میں قید کروایا. ساندل بھٹی کی لاش ایک بورے میں بند کر کے اس کے بیٹے رائے فرید خان کو بھجوا دی گئی.
اس کے بعد ساندل بھٹی کا دیوان خانہ اس کے اکلوتے بیٹے رائے فرید خان بھٹی نے سنبھالا. اس نے مغلوں کے خلاف
فلسطین کے ایک سکول میں استانی نے بچوں سے ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعام کا وعدہ کیا کہ جو بھی فرسٹ آیا اس کو نئے جوتے ملیں گے ٹیسٹ ہوا سب نے یکساں نمبرات حاصل کیے اب ایک جوڑا سب کو دینا نا ممکن تھا اس لیے استانی نے کہا کہ چلیں قرعہ اندازی کرتے ہیں
جس کا بھی نام نکل آیا اس کو یہ نئے جوتے دیں گے اور قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کا کہا گیا۔
استانی نے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہوجائیں اور پھر سب کے سامنے ایک اٹھایا جوں ہی کھلا تو اس پر لکھا تھا
وفا عبد الکریم سب نے تالیاں بجائی وہ اشکبار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیوں کہ وہ پٹھے پرانے کپڑوں اور جوتے سے تنگ آگئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں لاچار تھی اس لیے جوتوں کا یہ انعام اس کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔