دھرتی کے سپوت -----دلا بھٹی کی مختصر تاریخ اور لوہڑی کا تہوار
رائے عبداللہ بھٹی عرف دلا بھٹی کوئی متنازعہ کردار نہیں تھا بلکہ پنجاب کا عظیم انقلابی سورما تھا جس نے اکبر بادشاہت کے خلاف علمِ بغاوت تھامے رکھا.
تفصیل یہ ہےکہ دریائے راوی اورچناب کے درمیانی علاقے کو
ساندل بار کہا جاتا ہے. یہ دلا بھٹی کے دادا ساندل بھٹی کے نام پر ہے. جب اکبر بادشاہ نے دینِ اکبری بذریعہ طاقت نافذ کرنے کی کوشش کی تو ساندل بھٹی نے بغاوت کر دی. جنگِ راوی برپا ہوئی اور بھٹیوں نے غیر روایتی ہتھیاروں کے ساتھ جنگ لڑی اور جیتی. اس پر اکبر بادشاہ نے ساندل بھٹی کو لاہور
میں مذاکرات کے لئیے بلایا اور دھوکے سے قتل کر دیا اور اس کے ساتھیوں کو کابل میں قید کروایا. ساندل بھٹی کی لاش ایک بورے میں بند کر کے اس کے بیٹے رائے فرید خان کو بھجوا دی گئی.
اس کے بعد ساندل بھٹی کا دیوان خانہ اس کے اکلوتے بیٹے رائے فرید خان بھٹی نے سنبھالا. اس نے مغلوں کے خلاف
گوریلا جنگ کی. اسے بھی اکبر بادشاہ نے مذاکرات کے بہانے سے لاہور بلایا اور دھوکے سے قتل کیا گیا. رائے فرید خاں بھٹی کی لاش 4 دن لاہور کے اونچے برج, حالیہ چوبرجی سے لٹکی رہی.
دلا بھٹی جو رائے فرید بھٹی کا اکلوتا بیٹا تھا پیدا ہوا. اسے سان پر تیار ہوتی تلوار کے پانی سےگڑھتی دی گئی
گڑھتی بچے کو دی جانے والی پہلی خوراک کو کہتے ہیں جو عمومأ پانی, عرقِ گلاب یا شہد ہوتا ہے. اس کی شادی اس کے ماموں رحمت خاں بھٹی کی بیٹی نوراں سے ہوئی. اسے اس کی ماں, جس کا نام لدی تھا نے اب تک مغلوں کے مظالم سے بے خبر رکھا تھا. مگر جب کابل سے کچھ قیدی چھوٹ کے آئے تو دلا بھٹی کو
پتہ چل گیا. اس نے اکبر بادشاہ کے مصاحب جن میں کراڑ (تاجر), ساہوکار (اس عہد کے سرمایہ دار) اور مذہبی پنڈتوں کو چن چن کر مارا. وہ بیشک مغلوں کے قافلے لوٹ کر مال غریبوں میں بانٹ دیتا تھا. اسی لئیے دلا بھٹی کو Robin Hood of Punjab کہا جاتا ہے.
خیر اکبر بادشاہ نے اپنے ایک جنگجو
مرزا نظام دین کو دلا بھٹی کی گرفتاری کا حکم دیا. مرزا نظام دین کی وجہء شہرت یہ تھی کہ اس نے قصور کا ایک مضبوط قلعہ فتح کیا تھا, جسے کندھالے کا قلعہ کہا جاتا ہے.
جب اکبری فوج نے حملہ کیا تب دلا بھٹی اپنے ماموں رحمت خان سے ملنے چنیوٹ گیا ہوا تھا. اس کی غیر موجودگی میں اس کے
دوست نیرو پوستی نے مغلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر مغلوں کی بڑی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے نیرو پوستی شہید ہو گیا. مغلوں نے دلا بھٹی کی ماں لدی, بیوی نوراں جو اپنےحسن کی بدولت پھلراں یعنی پھولوں جیسی کہلاتی تھی, انہیں اور دیگر خواتین کو باندی بنا کر لاہور کی جانب چل دیا. راستے میں اس
کا گذر رتی پنڈی کے ساتھ سے ہوا. رتی پنڈی کے سردار اکبر بادشاہ کے نہیں بلکہ دلے بھٹی کے مخالف تھے کیونکہ دلے بھٹی نے ان کے سردار کو بھی غداری کے الزام میں قتل کر دیا تھا. مگر رتی پنڈی کے بزرگ بوڑھے لعل خاں بھٹی نے کہا کہ دلا بھٹی سے دشمنی بھٹیوں کے آپس کا معاملہ ہے, ہم مغلوں کو
اپنی ماں بیٹیاں نہیں لے جانے دیں گے. سو, معرکہ ہوا اور جنگ میں بوڑھے لعل خاں نے بھی اپنی تلوار کے جوہر دکھائے. اس دوران دلا بھٹی بھی آن پہنچا. مغلوں کو شکست ہوئی اور مرزا نظام دین ماں لدی کے پاؤں پڑ گیا. یہاں ماں لدی نے دلے کو مخاطب کر کے کہا کہ اسے معاف کر دو کیونکہ سامنے پڑے
ہوئے شکار کو شیر نہیں کھاتا. مرزا نظام دین کی جان بخش دی گئی اور قیدیوں کو چھڑوا لیا گیا.
رائے عبداللہ عرف دلا بھٹی لاہور میانی صاحب قبرستان میں دفن ہے.
یہ وہ مستند تاریخ ہے جو لوہڑی اور دیگر پنجابی تہواروں کے موقعوں پر منظوم شکل میں دہرائی جاتی ہے
اس تاریخ کو شاہ حسین نے لکھا
لوہڑی۔۔۔۔۔پنجاب کا اک تہوار۔۔۔
مغل بادشاہ کے اہل کار نے خوبصورت ہندو لڑکی کو اغوا کرکے حرم میں داخل کرنے کا ارادہ کیا – دلے بھٹی کو اطلاع ملی وہ لڑکی کو جنگل میں اپنی پناہ گاہ میں لے گیا – وہاں ایک ہندو لڑکے کے ساتھ اس کی شادی رچائی – اس شادی میں نہ ماں باپ تھے اور نہ پنڈت – دلے
نے آگ جلائی – خود ہی کنہیا دان کیا اور خود ہی پنڈت بنا – دلے نے لڑکی کو ایک سیر شکر کا تحفه دیا – مسلمان دلے بھٹی کو شادی کے منتر نہیں آتے تھے سو پھیروں کے دوران یہ پڑھنا شروع کیا :
سندر مںدرئیے
(خوبصورت لڑکی )
تیرا کون وچارا
(تمہارے متعلق کون سوچتا ہے؟ )
دلّا بھٹی والا
( بھٹی قبیلے کا دلا )
دلے دھی وہائ
(دلے نے بیٹی کی شادی کی )
سیر شکر پائی
(اسے ایک سیر شکر دی )
کڑی دا لال پٹاکا
(لڑکی نے سرخ کپڑے پہن رکھے ہیں )
کڑی دا سالو پاٹا
(لڑکی کی شال پھٹی ہوئی ہے )
یہ ان روایتوں میں سے ایک ہے جو پنجابی ہر سال جنوری میں منائےجانے والے تہوار لوہڑی کے
پس منظر کے طور پر بیان کرتے ہیں اور یہ گیت لوہڑی کا ایک گیت ہے – ہندو اور سکھ پورا سال لوہڑی کا انتظار کرتے ہیں – لوہڑی والے دن بچے لوہڑی گاتے ہوئے گھر گھر جاتے ہیں اور ٹافیاں، مٹھائیاں اور پیسے لیتے ہیں – شام کے وقت آگ کے گرد دلے بھٹی کی یاد میں لوہڑی کے گیت گائے جاتے ہیں –
پاکستانی پنجابیوں جن کے علاقے کا مسلمان دلا بھٹی دوسروں کی عزتوں کو بچاتا تھا کی نئی نسل کو پتہ ہی نہیں کہ لوہڑی کیا ہے ؟
فلسطین کے ایک سکول میں استانی نے بچوں سے ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعام کا وعدہ کیا کہ جو بھی فرسٹ آیا اس کو نئے جوتے ملیں گے ٹیسٹ ہوا سب نے یکساں نمبرات حاصل کیے اب ایک جوڑا سب کو دینا نا ممکن تھا اس لیے استانی نے کہا کہ چلیں قرعہ اندازی کرتے ہیں
جس کا بھی نام نکل آیا اس کو یہ نئے جوتے دیں گے اور قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کا کہا گیا۔
استانی نے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہوجائیں اور پھر سب کے سامنے ایک اٹھایا جوں ہی کھلا تو اس پر لکھا تھا
وفا عبد الکریم سب نے تالیاں بجائی وہ اشکبار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیوں کہ وہ پٹھے پرانے کپڑوں اور جوتے سے تنگ آگئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں لاچار تھی اس لیے جوتوں کا یہ انعام اس کے لیے بہت معنی رکھتی تھی۔
مائیکرو ویو اوون کی صنعت کا خاتمہ، سبزیوں کا استعمال.... دیسی دنیا کی طرف واپسی......
۔
جاپانی حکومت نے اس سال کے اختتام سے پہلے پہلے ملک بھر میں مائیکرو ویو اوون کو تلف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس خاتمہ کی وجہ: ہیروشیما یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے تحقیق کی اور دریافت کیا کہ
گزشتہ بیس سال میں مائیکروویو اون سے نکلنے والی ریڈیائی لہروں نے اس سے زیادہ نقصان پہنچایا جتنا ستمبر 1945 میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے امریکی ایٹم بموں نے نقصان پہنچایا تھا۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ مائیکرو ویو اوون میں گرم کی گئی خوراک بہت زیادہ ارتعاش اور
تابکاری کی حامل ہوتی ہے۔
”جاپان میں مائیکرو ویو اوون کی تمام فیکٹریاں بند کی جا رہی ہیں“
جنوبی کوریا نے مائیکروویو اوون کے تمام کارخانے2022 اور چین نے 2023 تک بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کاشیرہ کینسر سینٹر میں کینسر پر منعقدہ کانفرنس میں تجویز کیا گیا ہے کہ
1۔ ریفائن کیا گیا تیل
*میں نے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا کہ جو لوگ اس موسم میں مری گئے، انہیں جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔۔۔۔ میرا ان سے سوال ہے کہ پھر کب جانا چاہیے تھا؟*
مری میرا عشق ہے، مجھے اس کی سڑکوں پر گاڑی ڈرائیو کرنا رومانوی لگتا ہے مجھے نئی بننے والی ایکسپریس وے کے بجائے کمپنی باغ اور
چھرا پانی سے ہوتے ہوئے کلڈانہ اور پھر جی پی او چوک تک جانا ہمیشہ سے پسند ہے، میرا دل کرتا ہے کہ میں جب بھی مری جاؤں تو نتھیا گلی کی طرف نکل جاؤں، سڑک کے کنارے پکنک پوائنٹس پر بندروں کے ساتھ کھیلنا فطرت کے قریب تر لے جاتا ہے اور پھر نتھیا گلی سے ایبٹ آباد کی ڈرائیو بھی مسحور کن ہے
برف باری ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے اور جب بھی برف پڑنے لگے تو دل ملکہ کوہسار کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔
ایک عام آدمی کو اطلاع ملتی ہے کہ مری میں برف باری ہو رہی ہے تو وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ پروگرام بناتا ہے، اسے کس طرح علم ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ ہزاروں یا لاکھوں دوسرے لوگ بھی یہی
مغرب کا وقت قریب تھا میں کرکٹ کھیل کر گھر پہنچا اور امی ابو کو سلام کیا۔ امی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے بچپن میں مجھ سے کوئی نقصان ھونے پر دیکھا کرتی تھیں۔ مجھے کچھ گڑ بڑ لگی البتہ ابا جی نے بڑی خوش دلی سے جواب دیا..
ہیلمٹ اور بیٹ رکھا ہی تھا کہ ابا نے کہا،
"بچے چلو کھیتوں کا چکر لگاتے ہیں۔"
مجھے مزید حیرانی ہوئی، یہ علامات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں....
میں نے کہا "ٹھیک ہے پر پہلے ذرا نہا لوں" تو ابا نے کہا "نہیں واپس آکر نہا لینا۔"
مجھے انہونی کا احساس ہونے لگا پر میں ابا جی کے ساتھ چل پڑا۔ خاموشی سے سفر کٹ رہا تھا، راستے میں آنے
جانے والوں سے ابا جی بڑی خوش دلی سے سلام کلام کر رہے تھے۔
پھر پکی سڑک سے کچے راستے کی طرف مڑ گئے، میں بھی ساتھ ساتھ تھا کہ ایک ڈھابے کے ساتھ ایک کتا بیٹھا دیکھ کر ابا جی بولے، "یار تمہارا کتا کدھر ہے ؟؟؟" میں نے کہا "ابا جی وہ اپنے دوست کو دے دیا ہے، اسے اچھا لگتا تھا۔" تو
سب سے پہلے تو میں اپنا تعارف کروا دوں۔ میرا نام چوہدری امیر علی ورک ہے۔ فیصل آباد شہر میں رہائش ہے۔ پچھلے 32 سال سے میاں نواز شریف کا کارکن، دوست اور عہدیدار ہوں۔ چھوٹا بھائ فیصل آباد کا ناظم رہا ہے۔ بیوی فوت ہو چکی ہے۔ اکیلا گھر میں بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔
دونوں بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے اور ساتھ رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں جمعہ\ ہفتہ کی قیامت رات کی طرف۔
میں،بڑا بیٹا، بہو اور ان کے دو بچے بدھ کی رات نتھیا گلی پونہچ گئے۔ جمعرات اور جمعہ کو بچوں نے خوب انجواے کیا۔ ارادہ تھا کے جمعہ کے دن رش بڑھ جائے گا تو ہم جمعہ شام کو واپس اسلام آباد
اپنی بہن کے گھر چلے جائیں گے۔ 2 بجے چیک آوٹ کیا اور واپسی کی تیاری شروع کی۔ ہوٹل سے نکلے اور تھوڑی دور جا کر ایک گراونڈ آتا ہے جس میں سینکڑوں بچے، مرد اور خواتین برف میں انجوائے کر رہے تھے۔ اقرا اور حمزہ دونوں نے شور مچایا کے کھیلنا ہے برف میں۔ حالانکہ دل میں یہی تھا کہ جلدی