وصل ہے قُوّتِ پروازِ تخُیّل کہ
جب میں تُمہیں یاد کروں تو تُمہیں سُنائی دے
میری پُکار سماعت سے یُوں ٹکراتی ہُوں
کہ جیسے کان کی لَو کوئی جھونکا چُھو جائے
اور وِہم گُزرے کِسی نے پُکارا ہے شاید نہیں
وبا کے اوائل میں کووڈ کو سب سے پہلے نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر مصطفے کمال پاشا نے نزلہ کہا تھا
جب کورونا ہوا تو نجی ہسپتال میں داخلے کے دوران وڈیو بنا کے نشر کی کہ دیکھو میں سوپ پی رہا ہوں، مجھے کوئی آکسیجن نہیں لگی
پھر ہفتے بعد وینٹی لیٹر پر
++
+
دو ہفتوں ماہر ترین ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششیں دنیا میں خون صاف کرنے کی جدید ترین مشین کا استعمال بھی ان کی جان نہ بچاسکا تھا
اومیکران کو نزلہ کہنا ویسی ہی غلطی ہے
بہت زیادہ لوگوں میں پھیلنے کی وجہ سے شدت کم ہوتی ہے مگر مریضوں کی کثیر تعداد کے حساب سے زیادہ لوگ شدید مریض ہوتے ہیں
+
++
اور اموات بھی کم نہیں ہوتیں
کورونا سے اموات بڑھاپے، مددگار امراض جیسے ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس اور قوت مدافعت کم ہونے کے سبب ہوئیں
چنانچہ ابھی اسے نزلہ سمجھ کر آسان نہ لیں
احتیاط کریں
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
کیوں یہ مہرانگیز تبسم مد نظر جب کچھ بھی نہیں ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آ جائے تو
عندلیب شادانی #NewProfilePic
+
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنی مرضی تک کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
عندلیب شادانی
++
++
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آ جائے تو
شروع میں دُنیا میں تھوڑے ھی ملک تھے لوگ اچھی خاصی امن و چین کی زندگی بسر کر رھے تھے کہ پندرھویں صدی میں کولمبس نے امریک دریافت کیا
اِس کے بارے میں دو نظریے ھیں
کچھ لوگ کہتے ھیں کہ اُس کا قصُور نہیں یہ تو ھندوستان یعنی ھمیں دریافت کرنا چاھتا تھا
+
غلطی سے امریکا دریافت کر بیٹھا
اِس نظریے کو اِس بات سے تقویت مِلتی ھے کہ ھم ابھی تک دریافت ھو نہیں پائے
دُوسرا فریق کہتا ھے کہ نہیں کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکہ دریافت کیا بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین تھی جِس کا خمیازہ ھم اب تک بھگت رھے ھیں
مے کشی کا لطف تنہائی میں کیا، کچھ بھی نہیں
یار پہلو میں نہ ہو جب تک، مزہ کچھ بھی نہیں
کوچۂ الفت میں انساں دیکھ کر رکھے قدم
ابتدا اچھی ہے اس کی، انتہا کچھ بھی نہیں
حسین باندی شباب بنارسی #NewProfilePic
تم رہو پہلو میں میرے، میں تمہیں دیکھا کروں
حسرتِ دل اے صنم! اس کے سوا کچھ بھی نہیں
حضرتِ دل کی بدولت میری رسوائی ہوئی
اس کا شکوہ آپ سے اے دلربا!! کچھ بھی نہیں
قسمتِ بد دیکھئے، پوچھا جو اس نے حالِ دل
باندھ کے ہاتھوں کو میں نے کہہ دیا کچھ بھی نہیں
حسین باندی شباب بنارسی
آپ ہی تو چھیڑ کر پوچھا ہمارا حالِ دل
بولے پھر منہ پھیر کر ہم نے سنا کچھ بھی نہیں
کوچۂ الفت میں انساں دیکھ کر رکھے قدم
ابتدا اچھی ہے اس کی، انتہا کچھ بھی نہیں
اک بار قمر جلالوی کی ہمعصر شاعرہ وحیدہ نسیم (جو بوجہ غربت استاد کوکسی حد تک کمتر سمجھتی تھیں)
طنزاً کہاکہ قمر شاعر تو میں تمھیں تب مانوں جب تم مشاعرے میں اک ہی شعر پڑھکر محفل لوٹ لو
استاد نے چیلنج قبول کرلیا
اک مشاعرہ میں یہ دونوں مدعوتھے
وحیدہ نسیم اگلی صف میں تھیں
+
استاد کی باری آئی تو مائیک پر بولے
خواتین وحضرات! آج کسی کے چیلنج پر صرف اک ہی شعر پڑھونگا
آگے فیصلہ آپ لوگوں پر
یہ کہہ کر نے پہلا مصرع پڑھا
پچھتا رہا ہوں نبض دکھا کر حکیم کو
(بڑی واہ وا ہوئی)
پہلا مصرع مکرر کیا
لوگ بولے
"پھر کیا ہوا استاد آگے تو بتائیے"
اب مکمل شعر پڑھا
+
++
پچھتا رہا ہوں نبض دکھا کر حکیم کو
نسخے میں لکھ دیا ہے وحیدہ نسیم کو
محفل میں دس منٹ تک تالیاں بجتی رہیں اور قہقہے لگتے رہے
جب کچھ شور کم ہوا
تو بے ساختہ لوگوں کی نظریں وحیدہ نسیم کی طرف گئیں مگر وہ تو جانے کب کی غائب ہوچکی تھیں