اک بار قمر جلالوی کی ہمعصر شاعرہ وحیدہ نسیم (جو بوجہ غربت استاد کوکسی حد تک کمتر سمجھتی تھیں)
طنزاً کہاکہ قمر شاعر تو میں تمھیں تب مانوں جب تم مشاعرے میں اک ہی شعر پڑھکر محفل لوٹ لو
استاد نے چیلنج قبول کرلیا
اک مشاعرہ میں یہ دونوں مدعوتھے
وحیدہ نسیم اگلی صف میں تھیں
+
استاد کی باری آئی تو مائیک پر بولے
خواتین وحضرات! آج کسی کے چیلنج پر صرف اک ہی شعر پڑھونگا
آگے فیصلہ آپ لوگوں پر
یہ کہہ کر نے پہلا مصرع پڑھا
پچھتا رہا ہوں نبض دکھا کر حکیم کو
(بڑی واہ وا ہوئی)
پہلا مصرع مکرر کیا
لوگ بولے
"پھر کیا ہوا استاد آگے تو بتائیے"
اب مکمل شعر پڑھا
+
++
پچھتا رہا ہوں نبض دکھا کر حکیم کو
نسخے میں لکھ دیا ہے وحیدہ نسیم کو
محفل میں دس منٹ تک تالیاں بجتی رہیں اور قہقہے لگتے رہے
جب کچھ شور کم ہوا
تو بے ساختہ لوگوں کی نظریں وحیدہ نسیم کی طرف گئیں مگر وہ تو جانے کب کی غائب ہوچکی تھیں
روس کی معروف بائیوٹکنالوجی لیبارٹری کے انچارج وائرولوجسٹ پیٹر چماکوف نے اومیکرون کو مصنوعی قرار دیا ہے
انکے مطابق وائرس کی اس نوع میں تینوں امائنوایسڈ ہیں وہ تمام تبدیلیاں ہیں جو کورونا کی دیگر انواع میں آچکی ہیں
ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے تاکہ وائرس کو سپر ویک
++
سپر ویک یعنی انتہائی کمزور کیا جائے
اس طرح یہ دنیا کی بیشتر آبادی کو متاثر کرکے کورونا کے خلاف اک قدرتی ویکسین ثابت ہوگی
لگتا ہے فیصلہ کر لیا ہے کہ کورونا کی عالمی وبا کا تدارک کر دیا جائے
اس کے برعکس روس میں وائرس سے متعلق دیگر بڑے ماہرین نے ان سے اختلاف کیا ہے کہ اومیکرون
+
+
اومیکرون کسی اور پرانے مرض کے شکار فرد یا افراد کے بدن میں رہتے ہوئے کئی ماہ تبدیلی در تبدیلی سے گذر کر بن سکتا ہے
امریکہ میں FDA کے اہلکار/اشیا/افراد پر ویکسین کے اثرات جانچنے کے شعبہ کے سربراہ پیٹر چماکوف کے بھائی کانسٹینٹین چماکوو نے کہا ہے اومیکران سےشدید بیمار نہیں ہوتے
+
جس پہ کرم ہے، اُس سے کبھی پنگا نہ لینا وہ تو کرم پہ چل رہا ہے تم چلتی مشین میں ہاتھ دوگے اُڑ جاؤگے
کرم کا فارمولا تو کوئی نہیں اُس کرم کی وجہ ڈھونڈو
میں نے ہر کرم ہوئے شخص کو مخلص دیکھا
اخلاص والا
غلطی کو مان کر معذرت کرلیتا ہے سرنڈر کردیتا ہے
جس پر کرم ہوا ہے ناں
اشفاق احمد
میں نے اُسے دوسروں کے لئے فائدہ مند دیکھا
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے نفع ہو رہا ہو اور اللہ آپ کے لئے کشادگی کو روک دے وہ اور کرم کرے گا
میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے
حق سے زیادہ دیتا ہے
اُس کا درجن 13 کا ہوتا ہے 12 کا نہیں
اشفاق احمد
اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کے لئے آپ بھی درجن 13 کا کرو اپنی زندگی میں
اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کیا کرو
نئیں تو کیا ہوگا حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا
دل کے کنجوس کے لئے کائنات بھی کنجوس ہے
دل کے سخی کے لئے کائنات خزانہ ہے
بہت پہلے کی بات ہے خدا نے 10 مرد تخلیق کیے مگر وہ جلد جنت سے اکتا گئے
خدا نے انہیں گوندھا ہوا آٹا دے کر کہا کہ جیسی تمہیں عورت پسند ہے اس آٹے سے بنالو اور ہاں اس میں سامنے رکھے شکر کے ٹکڑوں میں سے اک ٹکڑا ملانا مت بھولنا تاکہ آپس کی ازدواجی زندگی شیریں رہے
روسی ادب سے ترجمہ
++
میں تمہاری بنائی عورتوں میں بس جان ڈالوں گا
سب نے بنا لیں
خدا نے دیکھا شکر کے گیارہ ٹکڑے تھے
تم میں سے کسی نے غلطی سے دو ٹکڑے ڈال دیے کس نے ڈالے ہیں خدا نے پوچھا سارے مرد چپ رہے
خدا نے ان مجسموں میں جان ڈالی اور جس نے جو بنائی تھی وہ اسے دینے کی بجائے جس کے
روسی ادب سے ترجمہ
++
جس کے حصے میں جو آئی وہ اسے دے دی
تب سے اب تک 9 آدمی غیر کی بیوی میں یہ سوچ کر دلچسپی لیتے ہیں کہ شیرینی کے دو حصے اسی میں ہوںگے
محض ہر دسواں مرد یہ جانتا ہے کہ ساری عورتیں اک سی ہیں کیونکہ شکر کا گیارہواں ٹکڑا اس نے خود کھا لیا تھا
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
اک عالم نظر آئے گا گرفتار تمھیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو
میاں داد خان سیّاح #NewProfilePic
جاں بَلَب دیکھ کے مجھ کو مرے عیسیٰ نے کہا
لا دوا درد ہے یہ، کیا کروں، مر جانے دو
لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھُلا
مئے گُل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو
ٹھہرو! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو
ممیاں داد خان سیّاح
ہمدمو دیکھو، الجھتی ہے طبیعت ہر بار
پھر یہ کہتے ہیں کہ مرتا ہے تو مر جانے دو
حشر میں پیشِ خدا فیصلہ اس کا ہو گا
زندگی میں مجھے اس گبر کو ترسانے دو
گر محبت ہے تو وہ مجھ سے پھرے گا نہ کبھی
غم نہیں ہے مجھے غمّاز کو بھڑکانے دو
مَیں اسپتال کے بستر پہ تم سے اتنی دُور
یہ سوچتا ہُوں کہ ایسی عجیب دُنیا میں
نہ جانے آج کے دن کیا نہیں ہُوا ہوگا
کِسی نےبڑھ کے ستارے قفس کیے ہوں گے
کسی کے ہات میں مہتاب آگیا ہوگا
جلائی ہوںگی کِسی کے نفَس نے قِندیلیں
کِسی کی بزم میں خورشید ناچتا ہوگا
کِسی کو ذہن کا چھوٹا سا تازیانہ بہت
کسی کو دل کی کشاکش کا حوصلہ ہوگا
نہ جانے کِتنے ارادے اُبھر رہے ہوںگے
نہ جانے کِتنے خیالوں کا دل بڑھا ہوگا
تمھاری پُھول سی فطرت کی سِطح نرم سے دُور
پہاڑ ہوں گے ، سمندر کا راستہ ہوگا
یہ اک فرض کا ماحَول ، فرض کا سنگیت
مصطفیٰ زیدی
مگر مجھے یہی الجھن کہ زندگی کی یہ بھیک
جو مِل گئی بھی تو کِتنی ذرا سی بات مِلی
کِسی کے ہات مہتاب آگیا بھی تو کیا
کسی کے قدموں میں سُورج کا سرجُھکا بھی تو کیا
ہُتمھیں یہاں کے انّدھیرے کا عِلم کیا ہوگا
تمھیں تو صرف مقّدر سے چاند رات مِلی
مصطفیٰ زیدی