دنیا مکافات عمل ہے، وقت گھوم کے ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں ضرور لاتا ہے۔
2003 میں عراق پر حملہ کرنے والوں میں سب سے بڑی فوج یوکرائن کی تھی، اور اب وہ خود کو بچانے کیلئے بھیک مانگ رہی ہے۔
افغانستان اور عراق پر حملہ کر کے لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرنے والے یورپ اور امریکہ ۔۔۔
P1/4🔻
بغیر کسی جنگ کے ایک وائرس سے 50 لاکھ سے زائد جانیں گنوا چکے۔ ساری منصوبہ بندی اور ترقی ایک وائرس کا مقابلہ نہیں کر سکی اور افلاس میں مبتلا افریقی ساری لہریں ہضم کر گئے۔
"تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف" کہنے والوں کو کہنا پڑا "یہاں سے نکلنے میں ہماری مدد کرو"۔۔۔
P2/4🔻
صدر بننے کے بعد ایک مرد قلندر کو فون نہ کرنے والا آج اس کی اڑان پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ وہ کس پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہا ہے۔۔۔
جو سفیر پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے، آج ناکام لوگوں سے مل کر کے اس کے خلاف جمع ہو رہے ہیں جس نے Absolutely Not کہہ کے ٹھینگا دکھا دیا۔۔۔
P3/4🔻
پاکستان کی سیاہ و سفید کا فیصلہ کرنے والے سیاسی ، مذہبی اور صحافتی لٹیرے آج اس مرد مجاہد کے خلاف جمع ہو چکے ہیں جس نے کہا تھا "میں انہیں رلاوں گا"۔۔۔ ان کے چہروں پر سے فرعونیت کہاں گئی اور نحوست کیسے آ گئی؟ کیا یہ مکافات عمل نہیں ہے؟
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس ایک خط تھا جس میں پادری نے سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔
پادری نے لکھا !
"ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔۔۔🔻1
۔۔اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کرتے ہیں۔
مگر ہم پر اچانک حملہ کر کے ہمیں مفتوح کر لیا گیا ہے۔
یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔🔻2
دمشق کے لوگوں سے حاکم کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ جہاں ایک شخص چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی تھی۔ یہ عمر بن عبدالعزیز کا گھر تھا جسے دیکھ کر قاصد مایوس ہوا۔۔۔ 🔻3