پینل بٹالین ایک عسکری اصطلاح ہے جس سےمراد فوج کا ایسا یونٹ ہے جو”سزا یافتہ مجرموں“پر مشتمل ہو۔اب یہ مجرم سویلین بھی ہوسکتے ہیں کہ جنہیں سویلین عدالتوں سے قید کی سزا ہوچکی ہو یا پھر سزائے موت کےوہ مجرم جن کی سزا پر ابھی تک عمل درآمد نہ ہوا ہو، اور
⬇️
اس بٹالین میں فوج سے کورٹ مارشل یا سزا سنائے گئے مجرم بھی شامل ہوسکتے ہیں
مقصد:
پینل بٹالین کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انہیں ریگولر فوج کا جانی نقصان کم کرنے کیلئے استعمال کیا جائے مثلاً:
✓ پینل بٹالین کو پیش قدمی کے دوران بارودی سرنگوں سے بھرے میدان میں بھیجاجاتا ہے تاکہ ان کے
⬇️
پیر پڑنے سے زیادہ سے زیادہ بارودی سرنگیں پھٹ جائیں اور جب ریگولر فوج اسی میدان سے گزرے تو ان کا نقصان کم سے کم ہو۔
✓ انہیں دشمن کی پوزیشنز کیطرف چلنے کا حکم دیا جاتا ہے تاکہ دشمن اپنی توپوں مشین گنز کا ایمونیشن ان پر خالی کرنے میں مصروف ہوجائے اور اسکی توجہ بٹ جائے اور ریگولر
⬇️
تازہ دم فوج پھر بٹی ہوئی توجہ والے دشمن پر اصل، فل سکیل حملہ لانچ کرسکے۔
✓ پینل بٹالین کے سپاہیوں کو دشمن سنائپرز کی پوزیشن کا اندازہ لگانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے چند پینل سپاہیوں کو مشتبہ مقام کیطرف بھیجا جاتا ہے اور باریک بینی سے انہیں فالو کیا جاتا ہے جب دشمن سنائپر
⬇️
پینل سپاہی پر گولی چلاتے ہیں تو گولی کی سمت اور دیگر تکنیکی Measures کے زریعے دشمن نشانچیوں کی متوقع پوزیشن کو کھوج نکالنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔
شرح اموات :
پینل بٹالین میں شرح اموات 90 سے 99٪ کے درمیان ہے
بھرتی :
پینل بٹالین کیلئے سپاہیوں کی بھرتی دو طرح سے ہوتی ہے۔
⬇️
اول- رضاکارانہ بھرتی:
سزا یافتہ مجرموں کو اس بات کی پیشکش کی جاتی ہے کہ انہوں نے جرم کا ارتکاب کرکے اپنے اور اپنے خاندان کیلئے جو ذلت مول لی ہے اگر وہ پینل بٹالین میں شامل ہوکر وطن کیلئے جان قربان کردیں تو ناصرف انہیں ایک معزز شخص اور ہیرو کا درجہ دیا جائے گا بلکہ ان کے خاندان
⬇️
سے بھی ان کے جرائم کی چھاپ مٹ جائیگی بلکہ اس قربانی کے عوض حکومت ان کے لواحقین کیساتھ مالی معاونت بھی کرے گی اگر وہ جنگ میں بچ نکلا تو اس کا جرم معاف اور سزا منسوخ کردی جائے گی
دوئم؛ جبری بھرتی:
مجرموں کو بٹالین میں enlist کرلیا جائے اور حملے کے وقت گن پوائنٹ پر کہا جائے کہ
⬇️
آگے بڑھو (بارودی سرنگوں پر ) ورنہ گولی کھاؤ۔
فوج میں پینل بٹالین کے سپاہیوں سے اچھا برتاو کیا جاتا تھا انہیں عام سپاہیوں کے برابر خوراک، لباس اور دیگر سہولیات دی جاتی تھیں مگر تنخواہ نہیں۔
تاریخ:
پینل بٹالین کا پہلا استعمال سنہ 101 تا 104 قبل مسیح میں سلطنتِ ہن اور سلطنت دے
⬇️
یوآن کے درمیان لڑی جانے والی وادی فرغانہ کی جنگ میں ہوا کہ جب ہن سلطنت کے بادشاہ Wu نے 60 ہزار مجرموں پر مشتمل پینل بٹالین کو دشمن کے خلاف استعمال کیا
اس کے علاوہ
نپولیائی جنگوں،
اطالیہ کی جنگ وحدت،
پہلی جنگِ عظیم،
دوسری جنگِ عظیم،
اور چینی خانہ سمیت کئی جنگوں میں پینل بٹالین
⬇️
کا استعمال کیا جا چکا ہے۔
کیا پینل بٹالینز آج بھی وجود رکھتی ہیں ؟
جی ہاں، 2022 کی حالیہ روس _ یوکرین جنگ جو ابھی جاری ہے کے دوران یوکرین کے صدر زلنسکی نے عسکری تربیت تجرنہ رکھنے یا ہتھیار چلانے کی اہلیت رکھنے والے مجرموں کو ملک بھر کی جیلوں سے رہا کرنے اور جنگ میں شامل کرنے
⬇️
کا اقدام عمل میں لایا۔
موضوع سے ہٹ کر ایک بات:
کیا اپ کو ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ PTIپینل بٹالین بننےوالی پہلی سیاسی جماعت ہےجس میں تمام چور،ڈاکو اکھٹے کئے گئے اور حکومت کے خاتمے کے بعد یہ سیاسی جماعت 99 فیصد ختم ہوجائیگی۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ نے ایک رفوگر رکھا ہوا تھا وہ کپڑا نہیں باتیں رفو کرنے کا ماہر تھا اور بادشاہ سلامت کی ہر بات کی کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ سننے والے سر دھننے لگتے کہ واقعی بادشاہ سلامت نے صحیح فرمایا، ایک دن بادشاہ سلامت دربار لگا کر اپنی جوانی کے
⬇️
شکار کی کہانیاں سنا کر رعایا کو مرعوب کر رہے تھے کہ جوش میں آکر کہنے لگے ایکبار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کلو میٹر سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کام سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگا۔
⬇️
بادشاہ کو توقع تھی کہ عوام داد دیگی لیکن عوام نے کوئی داد نہیں دی وہ بادشاہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے بادشاہ بھی سمجھ گیا کہ ضرورت سے زیادہ لمبی چھوڑ دی اور اپنے رفوگر کی طرف دیکھا رفوگر اٹھا اور کہنے لگا میں اس واقعے کا چشم دید گواہ ہوں دراصل بادشاہ ایک پہاڑی پہ
⬇️
یونیورسٹی کے دنوں کی بات ہے مجھے اخراجات پورے کرنے کیلیے ایک ہوم ٹیوشن پڑھانے جانا پڑتا تھا چھوٹی اقصی چوتھی میں پڑھتی تھی جبکہ عباس چھٹی میں پڑھتا تھا بچے بہت ذہین تھے اکثر ہی خاموش کرا دیتے تھے
ایک دن اقصی کہنے لگی :
”سر خُسرے کسے کہتے ہیں“ ؟
⬇️
میں خاموش کہ بچے کو کیا کہوں۔
”بیٹا یہ جو شادیوں میں ناچتے ہیں“
”سر وہ تو بابا اور ماموں بھی ناچتے ہیں کیا وہ خُسرے ہیں“
”نہیں بیٹا یہ عورتوں جیسے ہوتے ہیں...“
میں نے فورا وضاحت پیش کی ..
”اچھا اچھا ہماری پھپھو بھی شادی میں خُسرا لگتی ہیں ایک دن ممانی کہہ رہی تھی کہ شائستہ
⬇️
ایسے تیار ہوتی ہے جیسے خُسرا ہو“
وہ اپنے گھر کے حالات بیان کرنے لگی۔
نہیں بیٹا یہ وہ مرد ہوتے ہیں جو زنانہ لباس میں ڈھول پر ناچتے ہیں
”سر سب ہی ڈھول کی آواز پر ناچتے ہیں واشنگ مشین کی آواز پر کون ناچتا ہے“
عباس بھی فیصل آبادی آباؤاجداد کا تھا۔
میں ایک دفعہ پھر لاجواب ہونے لگا.
⬇️
سیاست میں آلو ٹماٹر کی قیمت دیکھنے نہیں قوم کو عظیم بنانے آیا ہوں۔
(جس قوم کو ہر وقت آٹے, گھی، آلو, ٹماٹر کی قیمت کی فکر کھائے جا رہی ہو وہ ہوا پھانک کر عظیم بنے گی کیا؟ آپ کے گھر کا کچن تو جہانگیر ترین چلاتا تھا)
قائداعظم کےبعد کسی حکمران کو پتا نہیں تھا
⬇️
پاکستان کیوں بنا.
(واضح اشارہ اپنی طرف تھا کہ صرف مجھے پتا ہے کیونکہ مغرب کیطرح پاکستان کو بھی مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا)
ملک اور معیشت دونوں درست سمت میں چل پڑےہیں (یہ درست سمت کس طرف کو جا رہی ہے بنی گالہ یا اڈیالہ ؟)
پاکستان میں پٹرول دبئی، امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ
⬇️
سستا ہے۔
(یہ نہیں بتایا کہ ان ملکوں کی کرنسی ویلیو اور فی کس آمدن کیا ہے۔)
پناہ گاہیں، سستا راشن پروگرام (جس میں پورے ایک ہزار روپے کی سبسڈی ملتی ہے)واضح کرتا ہے کہ ہم ریاست مدینہ کے اصولوں پر چل پڑے ہیں۔
(اس سے بڑا منافق آپ زندگی میں نہیں دیکھ سکتے)
⬇️
لکھنؤ کے ایک نواب صاحب کو کسی نے گدھا کہہ دیا ۔۔!!
نواب صاحب کو یہ بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے کورٹ میں کیس کر دیا ۔۔!
جج نے گدھا کہنے والے سے پوچھا تو اس نے اعتراف کرتے ہوئے اپنی غلطی مان لی ۔۔
اور اپنے کہے پر شرمندہ ہوکر معافی مانگ لی ۔۔
⬇️
جج نے نواب صاحب سے کہا نواب صاحب اب تو یہ معافی مانگ رہا ہے آپ کا کیا کہنا ہے ..!
اس پر نواب صاحب معافی کے لیے تیار ہو گئے لیکن ایک شرط رکھی کہ اب کسی بھی نواب کو وہ گدھا نہیں بولے گا۔۔!!
جج نے مجرم کو بری کردیا۔۔۔۔!!
جانے سے پہلے اس آدمی نے جج سے
⬇️
پوچھا: یور آنر، گستاخی معاف، میں نواب صاحب کو تو قطعی گدھا نہیں بولوں گا لیکن ایک بات بتایۓ کہ گدھے کو تو میں نواب صاحب بول سکتا ہوں کہ نہیں ..؟
جج نے کہا گدھے کو آپ کچھ بھی بولیٔے، کورٹ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔۔!!
وہ آدمی نواب صاحب کی طرف مڑا
⬇️
گزشتہ سال ایبٹ آباد میں ایک تاریخی شخصیت 106 سال کی عمر میں وفات پا گئیں
آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ وہ کون سی شخصیت تھی جو گمنام رہی تو وہ اس سید اکبر کی بیوی تھی جس نے 1951 میں ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا لیاقت باغ میں قتل کیا تھا۔
⬇️
اس سید اکبر کو تو موقع پر ہی پکڑنے کی بجائے قتل کیا گیا تھا (جبکہ اسے باآسانی گرفتار کیا جا سکتا تھا) مگر اس کے چار بیٹوں اور بیوہ کو ایبٹ آباد کنج قدیم میں ایک گھر الاٹ کیا گیا اور سخت پہرے میں اس وقت کی جدید ترین سہولیات بھی مہیا کی گئیں، اس کا بڑا بیٹا دلاور خان جو
⬇️
اس وقت 8 سال کا تھا، آج بھی وہ 80 سال کی عمر میں زندہ سلامت اپنے ذاتی بہت بڑے گھر میں شملہ ہل بانڈہ املوک میں رہائش پزیر ہے۔ کیونکہ جو گھر ان کو اور اس کی ماں کو آلاٹ کیا گیا تھا وہ بیوہ کے نام پہ تھا، اور ان کا بچپن وہاں گزرا اور اسی دوران پہرہ دینے والے سے ان کی ⬇️