گزشتہ سال ایبٹ آباد میں ایک تاریخی شخصیت 106 سال کی عمر میں وفات پا گئیں
آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ وہ کون سی شخصیت تھی جو گمنام رہی تو وہ اس سید اکبر کی بیوی تھی جس نے 1951 میں ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا لیاقت باغ میں قتل کیا تھا۔
⬇️
اس سید اکبر کو تو موقع پر ہی پکڑنے کی بجائے قتل کیا گیا تھا (جبکہ اسے باآسانی گرفتار کیا جا سکتا تھا) مگر اس کے چار بیٹوں اور بیوہ کو ایبٹ آباد کنج قدیم میں ایک گھر الاٹ کیا گیا اور سخت پہرے میں اس وقت کی جدید ترین سہولیات بھی مہیا کی گئیں، اس کا بڑا بیٹا دلاور خان جو
⬇️
اس وقت 8 سال کا تھا، آج بھی وہ 80 سال کی عمر میں زندہ سلامت اپنے ذاتی بہت بڑے گھر میں شملہ ہل بانڈہ املوک میں رہائش پزیر ہے۔ کیونکہ جو گھر ان کو اور اس کی ماں کو آلاٹ کیا گیا تھا وہ بیوہ کے نام پہ تھا، اور ان کا بچپن وہاں گزرا اور اسی دوران پہرہ دینے والے سے ان کی ⬇️
ماں نے شادی کر لی اور اس کے ہاں 5 بچے یعنی چار بیٹے اور ایک بیٹی کی مزید پیدائش ہوئی، 8 بھائی اور ایک بہن والا کنبہ نہایت خوشحال زندگی گزارتا رہا، اور بالآخر دلاور خان کی شادی بھی اس کے دوسرے پاکستانی والد بدل زمان خان نے اپنی رشتہ دار سے کروائی جو سات بچوں یعنی چار ⬇️
بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ماں ہے، سید اکبر کے باقی تین بیٹے یکے بعد دیگرے امریکہ میں سیٹل کر دیئے گئے۔ دلاور خان کچھ عرصہ شادی کے بعد کابل گیا بقول اس کے اپنی آبائی زمینیں دیکھنے اور اپنی بیوی اور ایک ہی بیٹا جو اس وقت تھا اس کو ماں کے پاس چھوڑ رکھا تھا۔ 8 سال بعد
⬇️
واپس آیا اور بیوی بچے کو بھی لے گیا مگر کچھ عرصہ آنا جانا کرتا رہا، پچھلے 50 سال سے مستقل اپنے ذاتی گھر میں مقیم ہے۔ الاٹ شدہ گھر ماں نے فروخت کر دیا اور دوسرے خاوند کے بچوں کے ساتھ نئے بنگلے میں رہائش پزیر تھی اور دنیا سے رخصت ہوگئی۔ امید ہے آپ لوگوں کو لیاقت
⬇️
علی خان کے قتل کے بارے میں کچھ تو سمجھ آگئی ہوگی۔
اس تحریر کو ریٹویٹ کرکے دوسروں تک پہنچانا اب آپ کی ذمہ داری ہے۔
لکھنؤ کے ایک نواب صاحب کو کسی نے گدھا کہہ دیا ۔۔!!
نواب صاحب کو یہ بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے کورٹ میں کیس کر دیا ۔۔!
جج نے گدھا کہنے والے سے پوچھا تو اس نے اعتراف کرتے ہوئے اپنی غلطی مان لی ۔۔
اور اپنے کہے پر شرمندہ ہوکر معافی مانگ لی ۔۔
⬇️
جج نے نواب صاحب سے کہا نواب صاحب اب تو یہ معافی مانگ رہا ہے آپ کا کیا کہنا ہے ..!
اس پر نواب صاحب معافی کے لیے تیار ہو گئے لیکن ایک شرط رکھی کہ اب کسی بھی نواب کو وہ گدھا نہیں بولے گا۔۔!!
جج نے مجرم کو بری کردیا۔۔۔۔!!
جانے سے پہلے اس آدمی نے جج سے
⬇️
پوچھا: یور آنر، گستاخی معاف، میں نواب صاحب کو تو قطعی گدھا نہیں بولوں گا لیکن ایک بات بتایۓ کہ گدھے کو تو میں نواب صاحب بول سکتا ہوں کہ نہیں ..؟
جج نے کہا گدھے کو آپ کچھ بھی بولیٔے، کورٹ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔۔!!
وہ آدمی نواب صاحب کی طرف مڑا
⬇️
باباجی آج بہت غصے میں تھے تمام مریدوں کو دھوپ میں کھڑا کر رکھا تھا اور ہاتھ میں جنات نکالنے والا ڈنڈا پکڑے باری باری سب سے پوچھ رہے تھے کہ بھنگ والے ڈرم کے نیچے آگ کس نے جلائی؟ لیکن کوئی بھی مرید ماننے کو تیار ہی نہ تھا اور نا کوئی کچھ بتا رہا تھا آخر باباجی
⬇️
آستانے کے وسط میں لگے بوہڑ کے درخت کی چھاؤں میں جا بیٹھے اور مریدوں کو بھی پاس آ کر بیٹھنے کو کہا تمام مرید جو کافی دیر سے دھوپ میں کھڑے کھڑے تنگ آگئے تھےجلدی سے باباجی کے اردگرد بیٹھ گئے باباجی نے پاس رکھے مٹکے سے پانی نکال کر پیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد تمام مریدوں سے بولے
⬇️
تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں. ایک بہت بڑے بزرگ تھے اُنہوں نے اپنے حجرے کے سامنے ایک بیری کا درخت لگا رکھا تھا گرمیوں میں لوگ اسکی چھاؤں میں آکر بیٹھتے اور اسکے بیر چُن کر کھاتے، باباجی یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوتے انہیں اس درخت سے بے پناہ اُنس ہو گیا تھا وہ بالکل اپنے بچوں کیطرح اس
⬇️
روضہ رسول ﷺ کے بارے میں آپ نے ایسی معلومات نہیں پڑھی ہونگی پڑھ کر شئیر کیجئیے
حرمین شریفین کی انتظامیہ کیجانب سے ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں مسجد نبوی اور آپ ﷺ کی قبر مبارک کے بارے میں مکمل معلومات اور وضاحت کی گئی۔
تشریح و توضیح
گزشتہ ساڑھ پانچ صدیوں میں کوئی بھی شخص
⬇️
آپ ﷺ کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں اس کے گرد ایک چار دیواری ہے اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو5دیواروں پر مشتمل ہے یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نےبنوائی
تھی اور اس کے پانچ کونے
⬇️
رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیاہے
یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں لہذا کسی کے ان دیواروں کےاندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔روضہ رسول ﷺ کےاندر
⬇️
مولوی صاحب ایک دن اپنی زوجہ سے کہنے لگے: ”بَھلیٔے لوکے میرا تو جب موڈ ہوتا ہے جگا لیتا ہوں، تمہارا بھی کبھی مُوڈ رومانٹک ہو تو بتایا کرو“
وہ کہنے لگیں مجھے کہتے ہوئے شرم آتی ہے.
مولوی صاحب نے کہا باہر الماری میں وہ جو ایک ڈبہ پڑا ہے جس دن موڈ ہو
⬇️
عشاء سے پہلے الٹا کر دیا کرنا
دوسرے دن مولوی صاحب عشا کے بعد گھر آئے تو ڈبہ الٹا پڑا تھا، خوشی خوشی کمرے کو گئے
یہ سلسلہ ایک ہفتہ جاری رہا، ہر گزرتے دن ڈبہ الٹا پڑا ہوتا تھا اور مولوی صاحب پچھلے دن سے کم خوشی کے ساتھ کمرے کو روانہ ہو جاتا
⬇️
آٹھویں دن مولوی صاحب عشا کے بعد گھر نہیں آئے۔
زوجہ کو فکر ہوئی تو بچے کو بھیجا کہ مسجد سے ابا کی خیر خبر لاؤ
بچہ گیا اور کہا کہ خیریت ہے آپ گھر نہیں آئے۔
مولوی صاحب نے کہا پہلے گھر جاؤ اور دیکھ آؤ ڈبہ الٹا پڑا ہے یا سیدھا ؟
بچہ دیکھ کر واپس آیا اور بتایا کہ ڈبہ الٹا پڑا ہے۔
⬇️
کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کےکئی پہلوؤں کو چھوا، شام 7 بجے موبائل کی گھنٹی بجی اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی آخر ہوا کیا؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آسکتے ہیں؟
⬇️
میں نے کہا آپ پریشانی بتائیں، بھائی صاحب کہاں ہیں؟ ماں کدھر ہیں آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کہ آپ فوراً آجائیے
میں اسے مطمئن کرتے ہوئےکہا 1گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہنچا دیکھا کہ بھائی صاحب (جو ہمارے جج دوست ہیں) سامنے بیٹھے ہیں
بھابی رونا
⬇️
چیخنا کر رہی ہیں؛ 12 سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور 9سال کی بیٹی بھی کچھ کہہ نہیں پارہی.
میں نے بھائی صاحب سے پوچھا آخر کیا بات ہے؟
بھائی صاحب کچھ جواب نہیں دے رہے تھے
پھر بھابی نےکہا؛یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں
مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں
میں نے کہا یہ
⬇️
آج سے ٹھیک 1 ہزار 943 سال قبل موجودہ اٹلی کےشہر پومپئی میں اپنے وقت کے سب سے لبرل اور سیکولر لوگ رہا کرتے تھے پومپئی میں زنا اور ہم جنس پرستی اس قدر عام تھی کہ گلیوں بازاروں چوک چوراہوں میں سر عام ہوتا تھا پھر ایک دن ساتھ والے پہاڑ سے لاوا پھٹا اور 6
⬇️
میٹر اونچا بہتا ہوا بلند لاوا زندگی کا آخری نشان تک مٹا گیا۔ انسان تو انسان پورے شہرے سے ایک کتا بھی نا بچا۔ فطرت بعد میں آنے والے انسانوں کیلئے عبرت کا اہتمام کرنا چاہتی تھی تاکہ بعد کے لوگ دیکھیں جانیں اور سیکھیں۔ اصول یہ ہے کہ جو بھی چیز مکمل طور پہ جل جائے راکھ ہو جاتی ہے۔
⬇️
اس شہر کے زیادہ تر لوگ جل کر راکھ ہونے کے بجاۓ جس حالت میں تھے اسی حالت میں رہتی دنیا کیلئے عبرت کی علامت بن گئے کچھ لوگ ایسے بھی جو مرنے کے وقت حالتِ زنا میں تھے اور اسی حالت عبرت کی علامت بن گئے کچھ گھروں میں مقیم تھے کچھ کھانے پینے میں لگے تھے مگر سب کے سب اس لاوے کی لپیٹ
⬇️