سیاست میں آلو ٹماٹر کی قیمت دیکھنے نہیں قوم کو عظیم بنانے آیا ہوں۔
(جس قوم کو ہر وقت آٹے, گھی، آلو, ٹماٹر کی قیمت کی فکر کھائے جا رہی ہو وہ ہوا پھانک کر عظیم بنے گی کیا؟ آپ کے گھر کا کچن تو جہانگیر ترین چلاتا تھا)
قائداعظم کےبعد کسی حکمران کو پتا نہیں تھا
⬇️
پاکستان کیوں بنا.
(واضح اشارہ اپنی طرف تھا کہ صرف مجھے پتا ہے کیونکہ مغرب کیطرح پاکستان کو بھی مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا)
ملک اور معیشت دونوں درست سمت میں چل پڑےہیں (یہ درست سمت کس طرف کو جا رہی ہے بنی گالہ یا اڈیالہ ؟)
پاکستان میں پٹرول دبئی، امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ
⬇️
سستا ہے۔
(یہ نہیں بتایا کہ ان ملکوں کی کرنسی ویلیو اور فی کس آمدن کیا ہے۔)
پناہ گاہیں، سستا راشن پروگرام (جس میں پورے ایک ہزار روپے کی سبسڈی ملتی ہے)واضح کرتا ہے کہ ہم ریاست مدینہ کے اصولوں پر چل پڑے ہیں۔
(اس سے بڑا منافق آپ زندگی میں نہیں دیکھ سکتے)
⬇️
مغربی ممالک اور امریکہ میں میری بہت عزت ہے۔
( یہ بات الگ ہے امریکی صدر نے آج تک رابطہ نہیں کیا اور امریکی عدالت سے سرٹیفائیڈ زانی ہے)
تین چوہے ( زرداری، شہباز اور فضل الرحمن) شکار کرنے نکلے ہیں لیکن!خود شکار ہوں گے۔
(صورتحال یہ ہے کہ تینوں نے مل کر عمران خان کو اپنے مزاج کے
⬇️
برعکس ایسا متحرک کیا کہ موصوف ان سے مصافحے اور معانقے کر رہے ہیں جیسے علیمہ کا رشتہ ڈھونڈ رہا ہو)
مذکورہ بالا تلخیص و اقتباسات وزیراعظم کےحافظ آباد جلسے میں کی گئی تقریر کے ہیں جبکہ بریکٹ میں مختصر تشریح چھترول کیساتھ۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ نے ایک رفوگر رکھا ہوا تھا وہ کپڑا نہیں باتیں رفو کرنے کا ماہر تھا اور بادشاہ سلامت کی ہر بات کی کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ سننے والے سر دھننے لگتے کہ واقعی بادشاہ سلامت نے صحیح فرمایا، ایک دن بادشاہ سلامت دربار لگا کر اپنی جوانی کے
⬇️
شکار کی کہانیاں سنا کر رعایا کو مرعوب کر رہے تھے کہ جوش میں آکر کہنے لگے ایکبار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کلو میٹر سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کام سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگا۔
⬇️
بادشاہ کو توقع تھی کہ عوام داد دیگی لیکن عوام نے کوئی داد نہیں دی وہ بادشاہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے بادشاہ بھی سمجھ گیا کہ ضرورت سے زیادہ لمبی چھوڑ دی اور اپنے رفوگر کی طرف دیکھا رفوگر اٹھا اور کہنے لگا میں اس واقعے کا چشم دید گواہ ہوں دراصل بادشاہ ایک پہاڑی پہ
⬇️
یونیورسٹی کے دنوں کی بات ہے مجھے اخراجات پورے کرنے کیلیے ایک ہوم ٹیوشن پڑھانے جانا پڑتا تھا چھوٹی اقصی چوتھی میں پڑھتی تھی جبکہ عباس چھٹی میں پڑھتا تھا بچے بہت ذہین تھے اکثر ہی خاموش کرا دیتے تھے
ایک دن اقصی کہنے لگی :
”سر خُسرے کسے کہتے ہیں“ ؟
⬇️
میں خاموش کہ بچے کو کیا کہوں۔
”بیٹا یہ جو شادیوں میں ناچتے ہیں“
”سر وہ تو بابا اور ماموں بھی ناچتے ہیں کیا وہ خُسرے ہیں“
”نہیں بیٹا یہ عورتوں جیسے ہوتے ہیں...“
میں نے فورا وضاحت پیش کی ..
”اچھا اچھا ہماری پھپھو بھی شادی میں خُسرا لگتی ہیں ایک دن ممانی کہہ رہی تھی کہ شائستہ
⬇️
ایسے تیار ہوتی ہے جیسے خُسرا ہو“
وہ اپنے گھر کے حالات بیان کرنے لگی۔
نہیں بیٹا یہ وہ مرد ہوتے ہیں جو زنانہ لباس میں ڈھول پر ناچتے ہیں
”سر سب ہی ڈھول کی آواز پر ناچتے ہیں واشنگ مشین کی آواز پر کون ناچتا ہے“
عباس بھی فیصل آبادی آباؤاجداد کا تھا۔
میں ایک دفعہ پھر لاجواب ہونے لگا.
⬇️
پینل بٹالین ایک عسکری اصطلاح ہے جس سےمراد فوج کا ایسا یونٹ ہے جو”سزا یافتہ مجرموں“پر مشتمل ہو۔اب یہ مجرم سویلین بھی ہوسکتے ہیں کہ جنہیں سویلین عدالتوں سے قید کی سزا ہوچکی ہو یا پھر سزائے موت کےوہ مجرم جن کی سزا پر ابھی تک عمل درآمد نہ ہوا ہو، اور
⬇️
اس بٹالین میں فوج سے کورٹ مارشل یا سزا سنائے گئے مجرم بھی شامل ہوسکتے ہیں
مقصد:
پینل بٹالین کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انہیں ریگولر فوج کا جانی نقصان کم کرنے کیلئے استعمال کیا جائے مثلاً:
✓ پینل بٹالین کو پیش قدمی کے دوران بارودی سرنگوں سے بھرے میدان میں بھیجاجاتا ہے تاکہ ان کے
⬇️
پیر پڑنے سے زیادہ سے زیادہ بارودی سرنگیں پھٹ جائیں اور جب ریگولر فوج اسی میدان سے گزرے تو ان کا نقصان کم سے کم ہو۔
✓ انہیں دشمن کی پوزیشنز کیطرف چلنے کا حکم دیا جاتا ہے تاکہ دشمن اپنی توپوں مشین گنز کا ایمونیشن ان پر خالی کرنے میں مصروف ہوجائے اور اسکی توجہ بٹ جائے اور ریگولر
⬇️
لکھنؤ کے ایک نواب صاحب کو کسی نے گدھا کہہ دیا ۔۔!!
نواب صاحب کو یہ بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے کورٹ میں کیس کر دیا ۔۔!
جج نے گدھا کہنے والے سے پوچھا تو اس نے اعتراف کرتے ہوئے اپنی غلطی مان لی ۔۔
اور اپنے کہے پر شرمندہ ہوکر معافی مانگ لی ۔۔
⬇️
جج نے نواب صاحب سے کہا نواب صاحب اب تو یہ معافی مانگ رہا ہے آپ کا کیا کہنا ہے ..!
اس پر نواب صاحب معافی کے لیے تیار ہو گئے لیکن ایک شرط رکھی کہ اب کسی بھی نواب کو وہ گدھا نہیں بولے گا۔۔!!
جج نے مجرم کو بری کردیا۔۔۔۔!!
جانے سے پہلے اس آدمی نے جج سے
⬇️
پوچھا: یور آنر، گستاخی معاف، میں نواب صاحب کو تو قطعی گدھا نہیں بولوں گا لیکن ایک بات بتایۓ کہ گدھے کو تو میں نواب صاحب بول سکتا ہوں کہ نہیں ..؟
جج نے کہا گدھے کو آپ کچھ بھی بولیٔے، کورٹ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔۔!!
وہ آدمی نواب صاحب کی طرف مڑا
⬇️
گزشتہ سال ایبٹ آباد میں ایک تاریخی شخصیت 106 سال کی عمر میں وفات پا گئیں
آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ وہ کون سی شخصیت تھی جو گمنام رہی تو وہ اس سید اکبر کی بیوی تھی جس نے 1951 میں ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا لیاقت باغ میں قتل کیا تھا۔
⬇️
اس سید اکبر کو تو موقع پر ہی پکڑنے کی بجائے قتل کیا گیا تھا (جبکہ اسے باآسانی گرفتار کیا جا سکتا تھا) مگر اس کے چار بیٹوں اور بیوہ کو ایبٹ آباد کنج قدیم میں ایک گھر الاٹ کیا گیا اور سخت پہرے میں اس وقت کی جدید ترین سہولیات بھی مہیا کی گئیں، اس کا بڑا بیٹا دلاور خان جو
⬇️
اس وقت 8 سال کا تھا، آج بھی وہ 80 سال کی عمر میں زندہ سلامت اپنے ذاتی بہت بڑے گھر میں شملہ ہل بانڈہ املوک میں رہائش پزیر ہے۔ کیونکہ جو گھر ان کو اور اس کی ماں کو آلاٹ کیا گیا تھا وہ بیوہ کے نام پہ تھا، اور ان کا بچپن وہاں گزرا اور اسی دوران پہرہ دینے والے سے ان کی ⬇️