پاکستان اور چین کے مابین CPEC معاہدہ خفیہ تھا اور اسکے مطابق دونوں ملک اس بات کے پابند تھے کہ معاہدے کی تفصیلات کسی تیسرے فریق پر عیاں نہیں کی جائیں گی- اسے انگریزی میں"Non disclosure clause" کہتے ہیں-ptiحکومت نے اس شق کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ اس معاہدے کی تمام تر تفصیلاتIMFکے
👇1/6
حوالے کر دیں- جب یہ خلاف ورزی حزب اختلاف اور میڈیا تک پہنچی اور شور مچا تو حکومت نے18 جولائی 2019 کو سینیٹ کی خصوصی کمیٹی براے CPEC کو ایک تحریری بیان میں یہ واضح کیا کہ وزارت پلاننگ و منصوبہ بندی اور وزارت خزانہ کی طرف سے CPEC سے متعلق کوئی بھی تفصیلاتIMF کیساتھ شیئر نہیں
👇2/6
کی گئیں
اس تحریر میں وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کیطرف سے یہ بھی لکھاگیا کہ یہ بیان مکمل ذمہ داری کیساتھ لکھا جا رہا ہے
سینیٹ کی کمیٹی نے یہی بات میڈیا کو بتا دی
لیکن جھوٹ کا بھانڈہ تب پھوٹا جب پاکستان میںIMF کی نمائندہ مس ٹریسا ڈیبن سانچیز نے 5 اگست 2019 کو اسلام آباد
👇3/6
کے نیشنل پریس کلب میں سینئر صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوۓ بتایا کہ پاکستان نے CPEC سے متعلق تمام تر معلومات ہمارے (آئی ایم ایف) ساتھ شیئر کر دی ہیں اور ہماری رسائی CPEC کے لئیے حاصل کیے گئے قرضوں اور انکی معیاد وغیرہ کی تفصیلات تک بھی ہے-
موجودہ حکومت کسی بھی معاملے
👇4/6
میں سچ نہیں بولتی- یہ واقعتا امریکہ اور مغرب کی مرضی سے قائم کیگئی حکومت ہے جنہوں نےمغرب کی پالیسی کےتحت چین مخالف کام کرنے میں انکی مدد کرنی ہےاور ساتھ ہی ہمیشہ کیطرح دو کشتیوں میں پیر رکھنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوۓ چین کو اپنا مخلص دوست اور اسکی دوستی کے کوہ ہمالیہ سے
👇5/6
بھی اونچا ہونے کے نعرے بھی بلند کرنے ہیں- اس واقعے کے بعد سے چین خوش نہیں ہے- سلیکٹڈ تو جھوٹا ہے ہی، سلیکٹرز اس سے بھی بڑے جھوٹے ہیں- سلیکٹرز کی لائی ہوئی حکومت کا کٹھ پتلی وزیر اعظم 2018 میں CPEC پروجیکٹ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کہہ رہا تھا-
End
فالو اور شیئر کر یں🙏
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
آرمی اسکول کے ایک شہید صاحبزادہ عمر خان کے والد فضل خان ایڈوکیٹ کا کھلا خط
باجوہ صاحب ! آپ نےخود ہی کہہ دیا ہےکہ قومی آمور پر کھل کر بات کریں
تو چلیں اج کھل کے بات کر دیتےہیں
پہلی بات آخرکار آپ خود مان گئے کہ ملک مشکل معاشی صورتحال سے دوچار ہے ، ورنہ ابھی تک تو آپکا
👇1/10
موقف تھا کہ پاکستان معاشی و معاشرتی لحاظ سے بہترین ٹریک پر آگیا ہے۔
دوسری بات اس وقت آپ کی اور آپ کے ادارے کی یہ سوچ کہاں تھی جب ملک معاشی لحاظ سے تاریخ کی بلند ترین سطح پر جارہا تھا، اس وقت آپ سیمنار منعقد کراکے کہتے تھے کہ ملک کی معیشت اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں
👇2/10
اپنی ڈاکٹرائن کے ذریعے آپ نے سارے اداروں کو حکومت وقت کے خلاف لگائے رکھا
سپریم کورٹ اور نیب کی وجہ سے نظام حکومت مفلوج ہوکر رہ گیا تھا،
حکومت کے خلاف مذہبی کارڈ کھیلا گیا ،
مولانا گالوی کو فیض اباد پر چڑھا دیا ،
پھر ہزار ہزار کے انعامات دیکر چڑھاوا دیا ،
یہ آپ ہی تھے
👇3/10
جرنل مشرف اور دوسرےجرنیلوں کی #جائیدادوں کےقصےسن کرآپکےرونگٹےکھڑے ہوجائیںگےان جائیدادوں کو بیچ کرکئی بڑےڈیم بنائےجاسکتےہیں نیب کو ثبوت پیش
نیب نےسابق جنرل پرویزمشرف کےخلاف اختیارات کےغلط استعمال
اپنےپسندیدہ آفیسرزکو مہنگےاور قیمتی پلاٹس جنکی مالیت1000کھرب روپےتک ہے
👇1/18
انکی غیرقانونی الاٹمنٹ کےحوالےسےنئےثبوت جمع کرلیےہیں ثبوتوں میں کھربوں روپےمالیت کی 10اہم پراپرٹیز کی ایک فہرست شامل ہےجو مشرف اورانکےخاندان کےافراد کےنام پرتھی۔یہ تازہ ثبوت ایک ریٹائرڈآرمی افسرکرنل ایڈووکیٹ انعام رحیم نے کوقومی احتساب بیورو راولپنڈی کےڈپٹی ڈائریکٹر
👇2/17
کوآرڈینشن میں جمع کرائے نیب کےایک اہلکار نےدی نیوزکو تصدیق کی کہ بیورو سابق فوجی حکمران کےخلاف اختیارات کاناجائزاستعمال کرنےکےحوالےسے ایک انکوائری میں ثبوتوں کاجائزہ لےرہاھےاس سےقبل نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر کوآرڈ ینیشن ناصررضا نےنیب آرڈیننس 1999کےتحت کرنل انعام سےسابق ڈکٹیٹر
👇3/17
ستمبر1977میں ذولفقار علی بھٹو کو گرفتار کیاگیا تو پیپلزپارٹی کےوکلاء نےلاہور ھائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست جمع کروائی مگر اس درخواست کو سننےکیلئے کوئی بھی جج تیار نہیں تھا کوئی بھی جنرل ضیاء کی ناراضگی مول لینےکیلئے تیار نہیں تھا تب اس مرد مجاہد جسٹس کے ایم اے صمدانی نے
👇1/8
اس کیس کی سماعت کی اور بھٹو کی احمد رضا قصوری کےقتل کے الزام میں گرفتاری پر ضمانت منظور کرلی اور یہ بات جنرل ضیاءالحق کو بہت بری لگی کیونکہ کہ ضیاءالحق کےدباؤ کےباوجود انہوں نےضمانت دے دی اور بھٹو کو آزاد کر دیا مگر تین دن کے بعد فوج نے بھٹو کو پھر لاڑکانہ سےگرفتار کرلیا
👇2/8
جسٹس کے ایم اے صمدانی لاہور ہائے کورٹ کے سینئر ترین جج تھے اور وہ چیف جسٹس بننے والے تھے مگر ضیاءالحق نے ان کو عدالت سے نکال کر وفاقی لاء سیکریٹری بنا دیا اور مولوی مشتاق کو لاہور ہائے کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا
ایک دن جنرل ضیاءالحق نے وفاقی سیکرٹریوں کا اجلاس طلب کیا جس میں
👇3/8
تحریک انصاف نےاقتدار میں آنےسے پہلےایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی کا نعرہ لگایا تو نوجوان طبقہ اُس کی طرف کھنچتا چلا گیا لیکن تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے کے بعد پہلے سے موجود نوکریوں میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے اور آج حالات یہ ہیں کہ سینیٹ قائمہ کمیٹی
👇1/6
منصوبہ بندی میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ( پائیڈ) نے بتایاہے کہ ملک میں مجموعی بے روزگار افراد کی شرح 16فیصد، پڑھے لکھے افراد کی بے روزگاری کی شرح 24% اور پڑھی لکھی خواتین میں بے روزگاری کی شرح 40% تک پہنچ چکی ہے۔دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہ اعداد وشمار حکومت کی
👇2/6
جانب سے دیے گئے اعداد وشمار سے مختلف ہیں ، حکومت کہہ رہی ہےکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح صرف 6فیصد ہے۔حکومت کوروزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ نظامِ تعلیم کچھ حد تک پڑھے لکھے نوجوان تو پیدا کر رہا ہے مگر
👇3/6